گلوکارہ منور سلطانہ کے مدھرگیت دوسرا اور آخری حصہ
منور سلطانہ نے گلوکاری کے شعبے سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور تمام توجہ اپنی گھریلو زندگی پر مرکوز کردی تھی
اس فلم میں تقریباً دس گانے تھے، اس فلم کے شاعر قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور طفیل ہوشیار پوری تھے اور جو پہلا گیت منور سلطانہ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اس کے بول تھے۔
ہمیں چھوڑ نہ جانا
منہ موڑ نہ جانا
اس فلم کے بعد جس دوسری فلم کے لیے منور سلطانہ نے گیت ریکارڈ کرایا وہ پنجابی فلم ''لارے'' تھی جس میں منور سلطانہ کا گایا ہوا ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے۔
میں بول بول تھکی
تینوں تول تول تھکی
فلم کے موسیقار جی۔اے چشتی تھے، پھر 1950 کی ایک پنجابی فلم '' پھیرے'' بڑی ہٹ ہوئی تھی، اس فلم میں گلوکارہ منور سلطانہ اورگلوکار عنایت حسین بھٹی کی جوڑی کے گیت بڑے پسند کیے گئے تھے، ایک گیت نے اس دور میں بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے:
مینوں رب دی سوں تیرے نال پیار ہوگیا
وے چناں سچی مچی
تیری یاد وچ دل بے قرار ہو گیا
وے چناں سچی مچی
اسی فلم پھیرے میں منور سلطانہ کی آواز میں ایک اور گیت کو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:
مرے لونگ دا پیا لشکارا
منور سلطانہ کے ایک اور مشہور گیت کی طرف آتا ہوں جو فلم '' بے قرار'' کے لیے منور سلطانہ اور نئے سنگر علی بخش ظہور کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس گیت کے شاعر طفیل ہوشیار پوری تھے اور موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی۔ گیت کے بول تھے:
دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ
اس زمانے میں یہ گیت ہر ریڈیو اسٹیشن سے روزانہ ہی نشر ہوا کرتا تھا۔ اس اردو گیت کے بعد منور سلطانہ کے چند ایسے پنجابی فلموں کے گیتوں کی طرف آتا ہوں۔ اس دور میں ان گیتوں نے فلم بینوں کو اپنا دیوانہ بنا دیا تھا جیسے:
اکھیاں لاویں ناں
او پھر پچھتاویں ناں
٭او دلا کچیا قراراں دیا پکیا،کسے دے نال گل نہ کریں
اپنے دورکی گلوکارہ منور سلطانہ نے بے شمار پنجابی فلموں کے لیے گیت گائے چند اور سپرہٹ گیتوں کا تذکرہ کرتا چلوں جیسے کہ یہ گیتوں کے مکھڑے ہیں
٭نئیں ریساں شہر لہور دیاں
٭میں باغاں دی مورنی
٭میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال
٭ گورے ہتھاں اُتے لال لال مہندی
اور پھر ہدایت کار رفیق رضوی کی بنائی ہوئی فلم بیداری کے گیت بھلا کیسے بھلائے جا سکتے ہیں۔
یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیراں
اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان
اس فلم بیداری کا ایک اور گیت جس کے بول تھے، چلو چلیں ماں دنیا سے دور
اب میں منور سلطانہ کی گائی ہوئی ایک دلکش لوری کی طرف آتا ہوں، یہ فلم نوکر کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی جس کے ہدایت کار نذیر تھے اور یہ لوری ان کی اداکارہ بیوی سورن لتا پر فلمائی گئی تھی اور سپرہٹ ہوئی تھی جس کے بول تھے:
راج دلارے
او میری اکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاؤں
منور سلطانہ کی گائی ہوئی اس لوری نے انڈیا کی نامورگلوکارہ لتا منگیشکر کی فلم دو بیگھ زمین میں گائی ہوئی لوری آجا ری نندیا، نندیا آ۔ کی شہرت کو بھی ماند کردیا گیا اور فلم نوکر کو بے شمار عورتیں صرف اس لوری کی وجہ سے دیکھنے کے لیے جاتی تھیں، وہ دور منور سلطانہ کی جادو بھری آواز کا دور تھا یہاں میں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ علامہ اقبال کی مشہور نظم ۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
1955 میں پہلی بار لاہور ریڈیو سے گلوکارہ منور سلطانہ کی آواز ہی میں کورس کی آوازوں کے ساتھ ریکارڈ کی گئی تھی پھر بعد میں یہ نظم پاکستان بھر کے اسکولوں میں بھی گائی جانے لگی تھی۔ منور سلطانہ نے کئی ملی نغمے بھی گائے تھے اور اسی دور کا ایک ملی نغمہ بہت مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے:
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے
جان سے کیوں نہ ہم کو پیارا رہے
یہ وہ ملی نغمہ تھا جو قیام پاکستان کے فوراً بعد ریڈیو سے نشر کیا گیا تھا اور یہ اعزاز بھی گلوکارہ منور سلطانہ ہی کو جاتا ہے۔ پاک سرزمین کے نغمے کے بعد دوسرا قومی نغمہ منور سلطانہ نے گایا تھا یہ بھی ایک دلچسپ حسن اتفاق تھا کہ منور سلطانہ نے ریڈیو سے اپنے سروں کا سفر اور گائیکی کا آغاز کیا تھا پھر اس نے ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک سینئر پروڈیوسر ایوب رومانی سے کچھ دنوں کے رومانس کے بعد انھیں اپنی زندگی کا ہم سفر بنا لیا تھا، پھر منور سلطانہ نے گلوکاری کے شعبے سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور تمام توجہ اپنی گھریلو زندگی پر مرکوز کردی تھی، آخری دنوں میں منور سلطانہ بیماری کی حالت میں 20 مئی 1995 کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئی تھی اور موسیقی کے لاکھوں چاہنے والے سروں کے اس خزانے سے محروم ہوگئے تھے۔