شکستہ تہذیب
شاہ ولی اﷲ جنیدی نے ایک مکمل کتاب تحریر کر کے تحقیق کے میدان میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے
اس ملک میں 76 سال گزرنے کے باوجود تحقیق کا کلچر مستحکم نہ ہوسکا۔ میڈیکل، انجنیئرنگ، ارضیات، خلائی سائنس اور معاشیات حتیٰ کہ سماجی علوم اور مذاہب پر تحقیق بہت مشکل کام ہے۔
سائنس کے مختلف شعبوں میں تو تحقیق کے لیے انفرا اسٹرکچر بڑے پیمانہ پر گرانٹس اور سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں اور سائنس کی تحقیق کے لیے بنائے گئے اداروں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ ادب، سماجی علوم حتیٰ کہ مذہبی امور کی تحقیق کے لیے نہ تو ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے نہ نجی ادارے سنجیدہ ہیں۔
شاہ ولی اﷲ جنیدی ویسے تو صحافی ہیں مگر انھیں کراچی کے بارے میں تحقیق کا ملکہ حاصل ہے۔ ان کی کتاب '' شکستہ تہذیب '' ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، تاریخ، شخصیات، واقعات، کراچی کے بارے میں ہونے والی تحقیق میں گرانقدر اضافہ ہے۔خواجہ رضی حیدر نے اس کتاب کا فلیپ لکھا ہے جب کہ کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قاسم پیر زادہ نے کتاب کا دیباچہ تحریر کیا ہے۔
شاہ ولی اﷲ جنیدی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ شہری صورتحال ملک کے قبائلی علاقوں جیسی ہوگئی ہے جہاں سہولتوں کی طلب اور رسد کے مسائل پہاڑ کی صورت اختیارکر گئے ہیں۔ افسوس کہ آج ہر طرف ترقی معکوس نظر آتی ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ '' مجھے یہ کہنا ہے کہ اس کوشش کو ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کی تاریخ نہ سمجھا جائے، یہ یہاں مقیم شخصیات اور اس علاقے میں پیش آنے والے واقعات کا مختصر سا جائزہ ہے۔ صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے پسِ پشت موجود جذبہ علاقہ سے اپنی محبت کا اظہار ہے۔''
شاہ ولی اﷲ ناظم آباد کا سیاسی پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ1966سے 1985 تک ناظم آباد میں سیاسی طور پر مسلم لیگ، جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء پاکستان سرگرم رہیں۔ 1971 میں بقول مصنف سقوط ڈھاکا کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو صوبہ میں لسانی جھگڑا شروع ہوگیا، جب جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے جنرل ضیاء الحق سے اختلافات کے بعد حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کی تو مہاجر قومی موومنٹ ابھر کر سامنے آئی۔
مہاجر قومی موومنٹ میں دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی دو بڑی حریف قوتوں کی صورت میں آمنے سامنے آئیں۔ ان دونوں جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کے درمیان لڑائی سیاسی جھگڑا کی بنیاد بنی۔ اسی وجہ سے 1992 سے 1998 تک ناظم آباد کے پرانے مکینوں کی تقریباً 40 فیصد آبادی اپنے گھر فروخت کر کے یا کرائے پر دے کر یہاں سے دیگر بستیوں میں منتقل ہوئی۔
اس صورتحال کی وجہ سے ان علاقوں کی تہذیب و سماجی صورتحال کو شدید دھچکا لگا۔ اس صورتحال کا ایک اور سنگین پہلو یہ تھا کہ ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد یا ضلع وسطی میں رہائش پذیر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایک سازش کے تحت سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں ملازمتوں سے محروم رکھا گیا۔
اب اس علاقے میں پختون برادری ایک بڑی قوت بن گئی ہے جو ٹرانسپورٹ، کنسٹرکشن، پرانے کپڑوں اور پھلوں کی فروخت اور مزدوری سے متعلق شعبوں پر حاوی ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان '' تاریخی پس منظر'' رکھا گیا ہے۔ اس باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ 1947میں جب یہ شہر ملک کا دارالحکومت تھا، تو کراچی میں منظم طریقے سے آبادکاری کے لیے باقاعدہ ماسٹر پلان کی تیاری کی پہلی کوشش کی گئی۔
کراچی کی پہلی باقاعدہ منصوبہ بندی سویڈش فرم کی تھی۔ آج تک شہر کا اندرونی ڈھانچہ ان کے منصوبہ کے مطابق ہے لیکن یہ منصوبہ مکمل طور پر نافذ نہ ہوسکا۔ مصنف نے مزید لکھا ہے کہ حکومت پاکستان نے 1950 میں یہ قطع اراضی ایک بلوچ سردار سردار مستی بروہی خان سے خریدی تھی۔ ناظم آباد کا علاقہ دو قدرتی برساتی نالوں اورنگی اور گجر نالہ کے درمیان واقع ہے۔ ناظم آباد نمبر 5 سے کے عقب سے ساڑھے 11 کلومیٹر طویل اورنگی نالہ گزرتا ہوا پرانا گولیمار پر ختم ہوتا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 1952میں کراچی کی آبادی 12 لاکھ کے قریب تھی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کو سابق گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے تحقیق کرتے ہوئے ان معروف لوگوں کے نام تحریر کیے ہیں جو اس علاقے میں رہتے تھے۔ ان میں کئی نامور ادیب، شاعر، نقاد، تجزیہ نگار شامل ہیں۔
مصنف نے لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں گیہوں 14 آنے فی سیر اور آٹا ساڑھے 14 آنے فی سیر دستیاب تھا۔ صدر جنرل ایوب خان کے دور میں راشننگ کا نظام نافذ کیا گیا۔ ہر ماہ راشن کارڈ پر ساڑھے سات کلو آٹا اور ڈیڑھ کلو سستی چینی ملتی تھی۔
کتاب کے دوسرے باب کا عنوان '' ترقیاتی جائزہ'' ہے۔ اس باب میں ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں شامل ہونے والی سڑکوں کی مکمل تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ کتاب میں تیسرے باب کا عنوان '' وقار و اعتبار'' ہے۔ اس باب میں ناظم آباد میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مصنف نے لکھا ہے کہ بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔ مسلم لیگی رہنما جسٹس ظہیر الحسن لاری کی رہائش گاہ پر اہم اجلاس ہوتے تھے، جس میں خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی، محمود الحق عثمانی اور حسین شہید سہروردی وغیرہ شریک ہوتے۔ سابق طالب علم رہنما پروفیسر انیس زیدی کے مطابق مارچ 1969 کو جنرل ایوب خان کے آخری دور میں پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اپنے مطالبات کے لیے سرسید کالج پر احتجاجی کیمپ لگایا تھا۔
کتاب کے باب چہارم کا عنوان ''مذہبی اور سماجی ماحول'' ہے۔ اس باب میں مصنف نے مذہبی عبادت گاہوں اور نارتھ ناظم آباد میں ہونے والی مذہبی تقاریب کی خاصی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ پچھلے 60 برسوں کے دوران جو نامور افراد ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں مقیم رہے، ان کا تعارف بیان کیا گیا ہے۔
مصنف نے صفحہ 164 پر لکھا ہے کہ 1980 میں پی آئی اے کا طیارہ اغواء کرنے والے سلام اﷲ ٹیپو نے اپنا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی ناظم آباد میں گزاری تھی۔ الذوالفقار تنظیم سے تعلق رکھنے والے سلام اﷲ ٹیپو پی آئی اے کا طیارہ کابل لے گئے تھے اور مسافروں کے بدلے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
مصنف نے لکھا ہے کہ ٹیپو نے پیپلز پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین، ملک معراج خالد، اقبال حیدر، میاں محمود علی قصوری وغیرہ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق مصنف نے ہائی جیکرز کے مطالبے پر جن سیاسی قیدیوں کے نام لکھے ہیں، ان میں شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے، جو نام درج کیے گئے ہیں، ان میں سے صرف ڈاکٹر غلام حسین کا نام اس فہرست میں شامل تھا۔ اسی طرح پاپوش نگر اور سخی حسن قبرستان میں دفن ہونے والے اہم شخصیات کے نام بھی تحریر کیے گئے ہیں۔
ایک ایسے موضوع پر جس کے متعلق تحریری مواد نہ ہونے کے برابر ہے، شاہ ولی اﷲ جنیدی نے ایک مکمل کتاب تحریر کر کے تحقیق کے میدان میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے تحقیق کے طالب علموں کو تحقیق کے نئے گوشے ملیں گے۔