معاشی چیلنجز اصلاحات اقدامات


Editorial November 18, 2023

نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو توانائی شعبے کے ٹیرف پر نظرثانی سے آگاہ کر دیا گیا، معیشت میں بہتری آئی۔

مزید بہتری کے لیے بہت کام کی ضرورت ہے، برآمدات میں اضافے، مقامی وسائل پیدا کرنے تک آئی ایم ایف کے ساتھ رہنا ضروری ہے، آئی ایم ایف بھی کہتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی مزید کم ہوگی۔

بلاشبہ موجودہ نگران حکومت نے قابل قدر اصلاحات کی ہیں، کیونکہ یہ اصلاحات پاکستان کو پائیدار اور طویل مدتی اقتصادی ترقی کے راستے پر گامزن کریں گی۔ پاکستان کا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے اہداف پورا کرنا، پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ایک انتہائی حوصلہ افزا علامت ہے، جو کہ معاشی چیلنجوں سے مستعدی سے نمٹنے کے لیے نگران حکومت کے عزم کا اشارہ ہے۔

معاشی نمو پر زور خاص طور پر امید افزا ہے، جس میں زرعی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے جی ڈی پی میں 2فیصد سے 3فیصد اضافے کا امکان ہے۔

انٹر بینک ڈالرکی شرح مستحکم ہونا اور روپے کی قدر میں 8 فیصد اضافہ بھی قابل ذکر کامیابیاں ہیں۔ یہ نتائج اسمگلنگ کو روکنے کے لیے انتظامی اقدامات اور بہتر سرحدی انتظام کی وجہ سے ہیں، جو کرنسی کے اخراج کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایکسچینج کمپنیوں کے ضابطے میں بھی اصلاحات کی گئی ہیں، جو روپے کی مضبوطی میں معاون ہیں۔

ہمیں اپنے اخراجات کو کم کرنا ہوگا تاکہ ترجیحات کا تعین کیا جاسکے، پروٹوکول جیسے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور فضول درآمدات پر پابندی لگانا ہوگی کیونکہ صرف ڈیوٹیز میں اضافہ کرنا سازگار نہیں ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بغیر کسی شرط کے پاکستان بھیجتے ہیں اگر حکومت پاکستان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جائیدادوں اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے تو یہ ترسیلات زر بڑھ سکتی ہیں اگر ترسیلات زر بڑھ جائیں تو قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

پاکستان نے افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بعض اشیا بشمول پٹرولیم اور قدرتی گیس کی بارٹر اشیا کے تبادلے کی تجارت کی اجازت دینے کے لیے ایک خصوصی آرڈر پاس کیا ہے۔ مختلف وجوہات اور عوامل کی بنیاد پراب قدیم الایام سے مروج علاقائی تجارت ہر ملک کی ضرورت بن گئی ہے پاکستان کو بالخصوص اس سے فوائد حاصل کرنے کے مواقعے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

روس' ایران اور افغانستان کے ساتھ اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت اور حال ہی میں روس اور پاکستان میں براہ راست کارگو بحری جہازوں کی آمدورفت کی سہولت روس' پاکستان اور ایران کے درمیان نئے تجارتی افق روشن کر رہی ہے۔

امر واقع یہ ہے کہ ایران اور افغانستان پاکستان سے سرحدی طور پر متصل ممالک ہیں مگر ابھی تک ان ممالک کے ساتھ قانونی اور غیر قانونی تجارت میں حد فاضل قائم نہیں کی جا سکی نہ ہی ایک دوسرے کے پیداواری وسائل اور صلاحیتوں کا کماحقہ فائدہ اٹھایا جا سکا ہے بجائے۔

اس کے کہ اس پر کوئی باہمی مفاہمت ہوتی اور اس کا باقاعدہ حل نکالا جاتا جس کے باعث بے قاعدہ تجارت اور اسمگلنگ کو فروغ نہ ملتا اس ضمن میں تساہل کا مظاہرہ ہوتا رہا یا پھر مصلحتیں بیڑیاں بنی رہیں بہرحال اب اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت سے اس عمل کی قانونی طور پر ہونے کی راہ ہموار ہو گی اور ادائیگیوں کے لیے غیر ملکی کرنسی بالخصوص ڈالر پر انحصار کم سے کم ہو گا جو موجودہ حالات میں خاص طور پر پاکستان کے لیے آسانی کا باعث بن سکتا ہے ۔

جہاں تک معدنی وسائل سے مستفید ہونے اور سرمایہ کاری میں رکاوٹوں کا سوال ہے تو یہ مسئلہ ایک بار نہیں بار بار سامنے آیا کہ نہ صرف بیرون ملک کے سرمایہ کاروں بلکہ پاکستان نژاد حضرات کی راہ میں بھی بیورو کریسی اور بابو شاہی حائل رہی اور اب تک ہے۔حکومت جن کمپنیوں کو تیل کی تلاش کے ٹھیکے دے رہی ہے یہ کبھی بھی تیل نہیں نکالیں گے کہ زیر زمین یہ سیال سونا بھی چشموں اور سمندر کی طرح ہے۔

بلوچستان اور اس کے بعد سندھ کا زیریں علاقہ ڈھلوان پر ہے اگر یہاں سے تیل نکل آیا تو وہ ڈھلوان کی وجہ سے زیادہ ہوگا اور مشرق وسطیٰ کی سطح کم ہو جائے گی، اس لیے وہ تیل کمپنیاں جو مشرق وسطیٰ میں اجارہ داری سنبھالے ہوئے ہیں وہ تو سندھ سے تیل نہیں نکالیں گی ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ہمارے اپنے ایسے ہنر مند لوگ ہیں۔

جن کو اللہ نے صلاحیت دی اور وہ زمین سے تیل کی تلاش اور اسے نکالنے کے ماہر ہیں مگر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔بدقسمتی سے ہمارا ملک گزشتہ برسوں سے مسلسل اقتصادی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ اپنی صلاحیت اور دستیاب وسائل کے باوجود پاکستانی معیشت کو بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ معاشی مشکلات ہی پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان مسلسل بڑے مالیاتی خسارے سے دوچار ہے۔

جہاں حکومتی اخراجات محصولات سے زیادہ ہیں۔ یہ خسارہ ملک کے قرضوں کے بحران میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بھاری قرضے لینے کا باعث بنا ہے۔ مہنگائی کی اونچی شرح نے اوسط پاکستانی کی قوت خرید کو ختم کر دیا ہے، جس سے شہریوں کے لیے بنیادی ضروریات کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ بدعنوانی بھی ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

جہاں امن و امان کی خراب صورتحال نے معاشی ترقی کو روکا ہے، وہیں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ پاکستان کے بیرونی اور ملکی قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شرح مبادلہ میں متواتر اتار چڑھاؤ نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔

ملک ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار رہتا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قرضوں اور مالی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور عوامی مالیات کو ذمے داری سے منظم کرنے کے لیے موثر مالیاتی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر عملدرآمد ضروری ہے۔ ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بہتر بنانا، اور ٹیکس چوری کو روکے بغیر کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل ہو گا۔

براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افراد کو تیار کرنا نہایت اہم ہے۔ کمزور آبادیوں کو اقتصادی اصلاحات کے تحت حکومتی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن کو اپنا کر ہم بہت سے مسائل سے نکل سکتے ہیں۔

علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی استحکام کو اقتصادی پالیسیوں میں ضم کرنا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور طویل مدتی منصوبوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ تعاون کے ساتھ طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کو تیار کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔

حکومت فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو تھر کے کوئلے پر منتقل کرکے کیپسٹی چارجزکی مد میں پاور پلانٹس کو کی جانے والی اربوں روپے کی ادائیگیوں کی بچت کے ساتھ مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کرسکتی ہے۔

ہمارا بیرونی قرضہ 125 بلین ڈالر ہے اور ہمیں اس سال 11 بلین ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے۔ ملک میں ٹیکس اصلاحات کی ضرورت ہے، 85 فیصد ٹیکس بالواسطہ اور صرف 15 فیصد ڈائریکٹ ٹیکس ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت ڈائریکٹ ٹیکس پر توجہ کیوں نہیں دے رہی ہے۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ، فیصل آباد میں ہر گھر چھوٹی انڈسٹری کا منظر پیش کرتا تھا لیکن ہماری ناکام معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں آج وہ ویران ہو گیا ہے۔ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کا شعبہ، جو برآمدات میں کلیدی شراکت دار ہے، متعدد مسائل سے نبرد آزما ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں 1200 کے قریب ٹیکسٹائل ملز ہیں جن میں سے آدھی بند پڑی ہیں۔ آدھی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور صرف فیصل آباد جیسے شہر میں ٹیکسٹائل سے وابستہ 20 لاکھ لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال کی ایک وجہ پاکستان میں خام کپاس کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہے۔

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حکومتوں سے منسلک لوگوں کی شوگر ملیں ہیں اور انھوں نے وہ علاقے جہاں کپاس کاشت ہوتی تھی وہاں شوگر ملیں لگا لی ہیں، اس لیے کسانوں نے اب گنا کاشت کرنا شروع کردیا ہے۔نوجوانوں پر ملک کی اقتصادی ترقی اور جدت میں مثبت تعاون کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

سافٹ ویئر شعبے نے ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بڑی تعداد میں ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوئے اور ہمارے بیس لاکھ آئی ٹی کے ماہر افراد اس شعبے میں کام کررہے ہیں۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز کثیر جہتی ہیں لیکن اسٹرٹیجک اصلاحات اور اقدامات سے بہتری کے امکانات موجود ہیں۔ انتخابات کے نتیجے میں معیشت مستحکم ہوگی کیونکہ منتخب حکومت عوامی حمایت سے بہتر اصلاحات نافذ کر سکے گی۔

سیاسی اور معاشی استحکام سے معیشت ترقی کرے گی اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی۔ پاکستان کو غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، سر جوڑ کر ملک کو معاشی تباہی سے نکالنے کے لیے چارٹر آف دی اکانومی پر عمل درآمد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔