ذہنی صحت پر جنگ کے اثرات
تجزیہ نگارغزہ کے حالات کو ایک اور ہولو کاسٹ سے تشبیہ دے رہے ہیں
جنگوں کے حوالے سے انسانی نفسیات پیچیدہ دکھائی دیتی ہے، اس میں مختلف عوامل شامل ہیں۔ جیسے خوف، جارحیت اور صدمے کے اثرات وغیرہ۔ جنگ کے دنوں میں افراد کو شدید ذہنی تناؤ، اضطراب اور خطرے کے احساس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو نارمل رویوں کو متاثرکرتے ہیں۔
مزید برآں، جنگ کی نفسیات کے حوالے سے دشمن کی غیر انسانی رویے، اخلاقی اقدارکی پامالی اور فوجیوں اور شہریوں دونوں پر طویل مدتی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے عام آدمی کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوئی۔ معاشی مسائل، عدم تحفظ اور خوف میں اضافہ ہوا۔ ذہنی عارضے اینگزائٹی، ڈپریشن اور فوبیا جیسی علامات عام ہوئیں۔
ہمارا ملک افغانستان کے جنگی حالات کی وجہ سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ 1980 کی دہائی کے دوران اور خاص طور پر 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہوئی۔ اس وقت مہاجرین میں ذہنی صحت کے مسائل پائے گئے۔ جس میں ہجرت، کیمپ کی مشکل زندگی اور بڑے صدمے کا تجربہ شامل تھا۔ دنیا میں دہشت گردی، خانہ جنگی اور جنگوں کی وجہ سے ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے۔
دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونی والی جنگ سوشل میڈیا کے ذریعے، براہ راست ایک عام آدمی کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ خاص طور پر بچے اور نوجوان زیادہ متاثر ہوتے ہیں، وہ لوگ جو براہ راست جنگ میں گھرے ہوتے ہیں، ان کی ذہنی صحت کہیں زیادہ متاثر ہوتی ہے مگر جو دور سے تشدد، قتل و غارت گری اور انسانی اقدارکی پامالی کا مشاہدہ کرتے ہیں، اسے دوسرے درجے کا مشاہدہ (Second hand experience) کہا جاتا ہے۔ یہ مشاہدات نوعمری کے دوران ذہنوں پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں 40 ملین لوگ مارے گئے۔
دوسری جنگ عظیم انسانی تاریخ کا المناک تنازعہ تھا، جس میں 50 سے 85 ملین ہلاکتیں ہوئیں، جن میں زیادہ تر سوویت یونین اور چین کے شہری شامل تھے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ذہنی و جسمانی بیماریاں عروج پر تھیں۔ جنگ کے متاثرین ڈپریشن، اینگزائٹی اور پوسٹ ٹرومیٹک ڈس آرڈر جیسے ذہنی عارضوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) ایک ذہنی صحت کی حالت ہے جو کسی تکلیف دہ واقعے کا تجربہ کرنے یا اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد بڑھتی ہے۔
علامات میں فلیش بیکس، ڈراؤنے خواب اور شدید بے چینی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ پی ٹی ایس ڈی کو ماضی میں بہت سے ناموں سے جانا جاتا ہے، جنگ عظیم کے سالوں کے دوران '' شیل شاک'' اور دوسری جنگ عظیم کے بعد '' جنگی تھکاوٹ '' کا نام دیا گیا۔ایک تجزیے کے مطابق پی ٹی ایس ڈی صرف سابق فوجیوں کو نہیں ہوتا بلکہ یہ نفسیاتی عارضہ کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے۔
خواتین میں پی ٹی ایس ڈی سے متاثر ہونے کا امکان، مردوں کے مقابلے میں دگنا ہوتا ہے۔ امریکا کی اقلیتی نسلی گروہ میں اس عارضے کا تناسب زیادہ پایا گیا۔ نائن الیون کے بعد کی امریکی جنگوں نے افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، صومالیہ، فلپائن، لیبیا اور شام میں کم از کم 38 ملین افراد کو بے گھرکردیا، یہ تعداد پہلے ہونی والی جنگوں سے زیادہ ہے۔
مشرق وسطیٰ اور افغانستان کی جنگ کی تباہی کے اثرات کے بعد 24 فروری 2022 کو یوکرین میں جنگ کے آغازکے بعد سے، 8.2 ملین سے زیادہ یوکرینی یورپ بھر میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ ڈبلیو۔ ایچ کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ کو '' یورپی خطے میں لوگوں کی سب سے بڑی نقل و حرکت'' کے طور پر بیان کیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے۔ یوکرین کی ایک تہائی آبادی اندرونی پناہ گزینوں کے طور پر بے گھر ہو چکی ہے۔میڈیا کی کوریج کی وجہ سے اس جنگ نے تیزی سے عالمی توجہ حاصل کی اور اس نے پوری دنیا کے لوگوں کو نفسیاتی طور پر متاثرکیا۔ تاریخی تناظر میں یوکرین اور روس کی ایک ہزار سال سے زیادہ کی تاریخ مشترک ہے، جس میں یوکرین 1922 میں سوویت یونین میں ضم ہوا اور 1991 میں آزادی حاصل کی۔
یوکرین جنگ جسے پہلی،''سوشل میڈیا جنگ '' کا نام دیا گیا۔ اس جنگ کے پرتشدد واقعات کو ٹک ٹاک، ٹویٹر اور انسٹاگرام سے نشر کیا گیا۔ یہ وڈیوز ہیش ٹیگ کے ساتھ پوری دنیا میں وائرل ہوگئیں اور اسے فقط ایک دن میں ملین لوگوں نے دیکھا۔ جنگ، اپنے تباہ کن نتائج کے ساتھ، عام لوگوں کے ذہن پر ایک لازمی اثر چھوڑتی ہے۔ جنگ کے نفرت انگیز اثرات افراد، خاندانوں اور پوری کمیونٹیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
جنگ کا سب سے زیادہ واضح نفسیاتی اثر خوف اور صدمے کا تجربہ ہے۔ حملے کے مسلسل خطرے اور اس سے حاصل ہونے والے واقعات کی بنا پر تیز تنازعاتی رد عمل، فکری امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے افراد تباہی، جانی نقصان اور خوف اور عدم تحفظ کا نفسیاتی بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، جنگ کی بنا پر پیدا ہونے والے ہجرت سے ان متاثرین کو دکھ اور صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے شناخت کا نفسیاتی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔
بے گھر اور اندرونی طور پر ہجرت ہونے والے افراد مایوسی، ترک کرنے کا احساس اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کیفیات کا سامنا کرتے ہیں۔حال ہی میں فلسطین میں صیہونی افواج کی جانب سے بمباری اور زمینی فوج کا قتل عام دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور ان واقعات کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر دکھایا جا رہا ہے۔ اسپتالوں پر حملے اور عام شہریوں پر تشدد اور جنگ کے حوالے سے تشدد کے واقعات نے دنیا کے ضمیر کو بری طرح سے جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔
دنیا جو پہلے ہی یوکرین جنگ سے پریشان تھی، اب غزہ میں ہونی والی بربریت سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔ غزہ کے حالات نے امن پسند اور انسانی حقوق کی بات کرنے والے افراد پر نفسیاتی دباؤ ڈالا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم پر تحریرکیا جانے والا ادب، فلمیں اور تجزیے آج بھی ذہنی طور پر ہلا ڈالتے ہیں۔موجودہ دنیا میں، ہم انتہا پسندانہ نظریات دیکھتے ہیں جو اکثر مذہبی نظریے یا کسی نسلی گروہ کے تسلط سے منسوب ہیں۔ یہ انتہا پسندی جدید دنیا کا حصہ بن چکی ہے۔
1933 میں شروع ہونے والے، ایڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی نے ایک نسل پرستانہ نظریے کی پیروی کی، جس نے امن پسند سوچ کو نقصان پہنچایا۔ جس کے نتیجے میں عالمی جنگ، لاتعداد جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔
صیہونی سوچ بھی ماضی کے جنگی جرائم کی پیداوار ہے۔ تجزیہ نگارغزہ کے حالات کو ایک اور ہولو کاسٹ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال اور جنگی تشدد پر مبنی مناظر کی وجہ سے ذہنی صحت زوال پذیر ہے، جس کا ایک واضع حل اسکرین ٹائم کو محدود کرنے میں دکھائی دیتا ہے۔