ادبی تنقید کی ضرورت کیوں
بعض لوگ تنقید نگاروں سے ناراض رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جن سے تخلیق نہ بن پڑے وہ تنقید کی دکان کھول لیتا ہے
ادب کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اس کی حیثیت ہماری زندگی میں روز مرہ کی ضرورت زندگی جیسی نہیں ہے اس کا درجہ وہ نہیں ہے جو ہماری زندگی میں غم روزگار کا ہے۔
یہ ایک قسم کی ذہنی عیاشی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔یہ ایک غلط تصور ہے، اس غلط تصورکا نتیجہ ہے کہ ادب جس کا زندگی سے چولی دامن کا ساتھ ہے، زندگی سے بے تعلق ہوگیا ہے، اس کے نتیجے میں مادیت کو فروغ حاصل ہوا ہے، انسان کی زندگی بے سکون ہوکر بے معنی بن کر رہ گئی ہے۔
ادب کا بنیادی فریضہ انسان میں احساس کی قوت کو جگانا ہے یوں ایک ادیب اپنے فن کے ذریعے بے جان اشیا تک میں روح پھونک کر انھیں زندہ کر دیتا ہے۔ اس کے فن کی بدولت سمندر باتیں کرتا ہے۔ صحرا اپنی جانب بلاتے ہیں پتھر اور پہاڑ ذی روح بن کر اس سے مکالمہ کرتے ہیں۔
نباتات اور حیوانات انسانی سطح پر آ کر انسانی محسوسات کا اظہار کرنے لگتے ہیں، گویا الفاظ محض ذریعہ نہیں رہتے بلکہ خود زندہ ہوکر اپنے وجود کا احساس دلانے لگتے ہیں یہ جز بندی فلسفے کی طرح عقلی سطح پر نہیں بلکہ احساس کی سطح پر ہوتی ہے۔جس طرح زندگی کو سمجھنے کا فریضہ ادب انجام دیتا ہے، اس طرح ادب کو سمجھنے کا فریضہ '' تنقید نگار'' انجام دیتا ہے۔
ایک عام قاری ادب کی ماہیت اور ادبی اظہار سے متعلق مسائل سے واقفیت کے بغیر اپنے جمالیاتی ذوق جو انسان کے اندر فطرتاً موجود ہوتا ہے، اس صلاحیت کی بنیاد پر شعر و ادب کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا ردعمل ظاہر کرسکتا ہے مگر وہ اپنی پسند یا ناپسند کے اسباب کی وضاحت سے قاصر رہتا ہے یہ فریضہ تنقید نگار انجام دیتا ہے جس طرح ادیبوں اور شاعروں کی حساسیت زندگی کے ناقابل گرفت پہلوؤں کو گرفت میں لے لیتی ہے، اس طرح تنقید نگار اپنے تنقیدی شعورکی بدولت ادب کی باریک ترین خوبیوں اور خامیوں کو شعور کے دائرے میں لا کر واضح کر دیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بیشتر تنقید نگار اپنا یہ اہم فریضہ ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں، عام طور پر ان تنقیدوں میں سطحی قسم کے لفظی تجزیے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، روایتی فنی مہارت کی بدولت اپنی ساری محنت اور کاوش کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ تنقید محض نمود و نمائش بن کر رہ جاتی ہے۔ تنقید نگار کی ادب پر گہری نظر نہ رکھنے کے سبب جزوی چیزیں اصل سے زیادہ اہمیت اختیار کر لیتی ہیں جس نتیجے میں ہمارے ہاں کی تنقید بے فائدہ اور بانجھ ثابت ہوتی ہیں۔
ہماری تنقید زیادہ تر شاعری کی رہی ہے اس نے نثر پر وہ توجہ نہیں کی جس کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ تہذیبی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا اظہار نثر میں ہوتا ہے۔ اس لیے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ناول، ڈرامہ، افسانہ اور دیگر ادبی اصناف وغیرہ پر لکھی گئی ادبی تحریروں کے تنقیدی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جائے تاکہ ادب کا قاری اس سے مستفید ہو۔ آج کے نقاد کو اپنا وجود ثابت کرنا ہے تو اسے ادبی فنون کو سیکھنا ہوگا۔
تنقیدی ادب دور کی کوڑی تلاش کرنے کا نام نہیں۔ تنقید ادب کو کسی معین مقصد سے پڑھنے اور اس کی خوبی اور خامی کو مدنظر رکھ کر ان پر اپنے تاثر کا اظہار یا رائے دینے کا نام ہے۔ ادب پارے کی خوبی اور خامی پر رائے دینا کسی اصول کی روشنی میں خواہ وہ اصول معاشرتی ہو یا سیاسی عقلی ہو یا فلسفیانہ تنقید نگار کو چاہیے کہ اقدار اور جمالیاتی عنصر اور اس کے حسن کاری کو اولین درجہ دے تاکہ پڑھنے والے کو مذکورہ تصنیف واضح تر اور زیادہ قابل قبول ہو جائے۔
تنقید کا اصل کام ذوق کی تربیت، زبان کا صحیح استعمال اچھے برے ادب کی پہچان اور مصنف کے ادبی مرتبے کا تعین کرنا ہے۔ ہر دورکی تہذیب کی کچھ قدریں ہوتی ہیں، جن کے معیار سے تہذیب کو پرکھا جاتا ہے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ یہ قدریں روایت کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں، جن میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ بعض زندہ رہتی ہیں بعض ختم ہو جاتی ہیں جو زندہ رہتی ہیں وہ تہذیبی سرمایہ بن جاتی ہیں یہ تہذیبی سرمایہ ہماری سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور ادبی زندگی کے ہر رخ کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔
ادب میں تنقید نگار انھی تہذیبی سرمایہ کو اہمیت دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ قدریں جو اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، تنقید کے اصول ان پوشیدہ قدروں کو اجاگر کرتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ نقاد کو فطری اور سماجی علوم انسانی تمدنی تاریخ زبان کی پیدائش اور نشوونما کی تاریخ کے مطالعے کے بغیر تنقید کے میدان میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔
اس کے علاوہ کئی علوم مثلاً فلسفہ، نفسیات، نثری اور شعری ادب کی خوبیوں اور خامیوں پر گہری نظر رکھ سکے گا۔تنقید نگاری میں تنقید نگارکے تعصب کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ تنقید نگار ادب میں نفسیاتی اصولوں اور ریاضی کے فارمولوں کا اطلاق کر کے معین اور فطری جواب دے، کیونکہ ادب کے نتائج سائنس کی طرح قابل تصدیق نہیں ہوتے، اس لیے تنقید کو مکمل سائنس نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بعض لوگ تنقید نگاروں سے ناراض رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جن سے تخلیق نہ بن پڑے وہ تنقید کی دکان کھول لیتا ہے۔ ان عناصر کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کو سوچنے سمجھنے کا انداز شعر و ادب پر اثرانداز ہوتا ہے چونکہ انسان اور انسانی زندگی کے مسائل اور فکری رویہ ادب کی تخلیق متعین کرتے ہیں۔ اس لیے انسانی فکر کے وہ بہت سے رجحانات جو بظاہر ادبی نہیں ہوتے مگر ادب کی تخلیق کیے جانے کے محرکات ضرور بن جاتے ہیں۔
تنقید اپنا مواد جذبہ زندگی سے لیتی ہے، اس لیے اسے تخلیق کا نام دیا جاسکتا ہے۔ تخلیق کوئی سطحی اور سرسری شے ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک فطری عمل انسانی ہے تھوڑی سی بھی تہذیب جس سوسائٹی میں موجود ہوگی وہاں اس عمل کا پایا جانا ضروری ہے۔تنقید کے بغیر ادب ایک ایسا باغ ہے جس میں درختوں کی کثرت ہے مگر موزونیت اور قرینے کا پتا نہیں اس لیے تنقید کو ادب کی مہک قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔