ہٹلر اور نیتن یاہو میں کیا فرق ہے
حماس نے اچانک حملہ کرکے اسرائیل کو حق دفاع کا موقعہ بخش دیا
تاریخ کسی ظالم حکمران کو معاف نہیں کرتی۔ ظالم کے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا تذکرہ ویسے ہی کیا جاتا ہے جیساکہ وہ انسانوں کے ساتھ روا رکھتا تھا۔
چنگیز خان، ہلاکو خان وغیرہ گوکہ اپنے زمانے کے زبردست طاقتور اور شان و شوکت کے حامل حکمران تھے مگر ساتھ ہی حد سے بڑھ کر ظالم و جابر تھے۔ آج تاریخ میں ہم ان کے ظلم و ستم کے قصے پڑھ کر کانپ اٹھتے ہیں۔ اسی طرح ہٹلر کو بھی اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے تاریخ ایک ظالم حکمران کا خطاب دیتی ہے تاہم ہٹلر، چنگیز خان اور ہلاکو خان سے اس طرح مختلف تھا کہ وہ عام انسانوں کا قاتل نہیں تھا۔
اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے یہودیوں کی نسل کشی کی تھی، کیا آج وہی کام نیتن یاہو انجام نہیں دے رہا ہے تو پھر ہٹلر اور نیتن یاہو میں کیا فرق ہے؟ غزہ میں نیتن یاہو جس بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے حالیہ دور میں ویسی بربریت کہیں اور نظر نہیں آتی۔ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بارہ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں چھ ہزار سے زائد بچے ہیں۔ اس نے اسپتالوں کو چھوڑا ہے اور نہ عبادت گاہوں کو۔ کھنڈر رہائشی عمارتوں کو دیکھو تو ایسا لگتا ہے جیسے خوف ناک زلزلے نے سب کچھ تباہ و برباد کر دیا ہے۔
پوری دنیا میں اس بربریت کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں جنگ روکنے کے لیے قراردادیں پاس ہو رہی ہیں۔ اسلامی ممالک نے بھی اپنی بیٹھک بلا کر جنگ روکنے کی استدعا کی ہے۔ ویٹی کن سٹی سے پوپ فرانسس بھی دو مرتبہ جنگ روکنے کی اپیل کرچکے ہیں مگر نیتن یاہوکہتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ جنگ نہیں روکے گا۔ حال ہی میں اس کے وزیر دفاع یووگیلنٹ نے حزب اللہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے حماس کا سا طریقہ اختیارکیا تو بیروت کو غزہ بنا دیا جائے گا۔
اس سے قبل موصوف غزہ پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ نیتن یاہو ایسا قدم بھی اٹھا سکتا ہے کیونکہ لگتا ہے اس کی رگوں میں شدت پسندوں کا خون بہہ رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں تو الہامی کتابوں میں بھی تنبیہ کا انداز استعمال کیا گیا ہے۔ اس قوم نے ظلم کی اس حد تک انتہا کر دی تھی کہ ان کی ہدایت کے لیے جو نبی بھیجے گئے، انھوں نے ان تک کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا تھا۔
اس وقت مغربی ممالک یہودیوں کو ہولوکاسٹ کی وجہ سے قابل رحم خیال کرتے ہیں اور ان کی اسی حالت پر ترس کھا کر ان بے وطنوں کو سر چھپانے کے لیے اسرائیل جیسا ناجائز ملک بنا کر دیا تھا۔ اس سے فلسطینیوں کی سراسر حق تلفی ہوئی کیونکہ وہ پورے فلسطین کے مالک تھے۔
مغربی ممالک کی یہودیوں کے ساتھ مہربانی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے یہودیوں سے ہٹلر کے خلاف جاسوسی کا کام لیا تھا جس سے جرمنی کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچا کہ اسے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ ظلم کی انتہا کردی تھی تو پھر یہاں نیتن یاہو نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و جبر کی انتہا کردی ہے جب کہ فلسطینی یہودیوں کی طرح کسی عالمی سازش کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ پہلے سے طے شدہ دو ریاستی فارمولے کو اسرائیل سے منوانا چاہتے ہیں مگر نیتن یاہو تو پورے فلسطین پر قبضہ جمانے کے لیے کوشاں ہے۔
لگتا ہے وہ غزہ پر پے درپے فضائی حملے کر کے فلسطینیوں کو خوف زدہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ غزہ کو خالی کرا سکے اسے بھی ہتھیا سکے، لگتا ہے امریکا بھی دو ریاستی فارمولے پر اسی وقت اسرائیل کو مجبور کرے گا جب غزہ پر اسرائیل قبضہ کر چکے گا۔
امریکی حکومت نہ صرف اسرائیلی حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے بلکہ اسے پورے غزہ پر قبضے کی ترغیب دے رہی ہے، امریکا چاہتا ہے کہ پورے غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہو جائے تاکہ غزہ کے تیل اور گیس کے ذخائر کے ساتھ پوری ساحلی پٹی اسرائیل کے قبضے میں آجائے اس طرح ہمیشہ کے لیے اسرائیل کی سلامتی کو محفوظ بنایا جائے۔
کیا عرب ممالک اور فلسطین اتھارٹی امریکا کے اس سازشی فارمولے کو قبول کرسکتے ہیں۔ یہ نہ صرف فلسطینیوں کے وجود کے خلاف ہے بلکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل پہلے ہی اوسلو میں طے پا چکا ہے اور معاہدے پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ اس معاہدے پر اس وقت کے اسرائیل کے وزیر اعظم روبن اسحاق نے دستخط کیے تھے۔ وہ اس مسئلے کا پائیدار حل چاہتے تھے تاکہ فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان روز روز کی محاذ آرائی ختم ہو سکے۔
اس معاہدے کے تحت اسرائیلی اور فلسطینی دونوں قومیں یقینی طور پر امن و سکون کے ساتھ رہ سکتی تھیں اور جنگ و جدل سے بچ سکتی تھیں مگر افسوس کہ نیتن یاہو اور اس کے ہمنوا شدت پسند ٹولے کو یہ پر امن معاہدہ پسند نہیں آیا اور اس کی پاداش میں روبن اسحاق کو قتل کرا دیا گیا۔ اسرائیل کا امن پسند طبقہ اب بھی دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد چاہتا ہے مگر نیتن یاہو اور اس کا امن کا دشمن ٹولہ فلسطینیوں کو فلسطین سے بے دخل کرکے پورے فلسطین کو اسرائیل بنانا چاہتا ہے۔
نیتن یاہو کا وزیر دفاع یووگیلنٹ ان دہشت گردوں میں شامل ہے جو روبن اسحاق کے قتل میں بھی ملوث بتائے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں نیتن یاہو پر جنگ روکنے کے لیے مسلسل عالمی دباؤ پڑ رہا ہے مگر لگتا ہے وہ گیلنٹ جیسے انتہا پسندوں کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ اگر اس نے جنگ روکی تو اس کا بھی روبن اسحاق جیسا حشر کر دیا جائے گا۔
ہم یہاں گیلنٹ کی مثال بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل سے دے سکتے ہیں جو آر ایس ایس جیسی دہشت گرد تنظیم کا آلہ کار ہوتے ہوئے کانگریس میں بھی اپنی جگا بنا چکا تھا اس کی مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں سے گاندھی اور نہرو بھی ناراض تھے مگر وہ اسے کابینہ سے علیحدہ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ اس انتہا پسند شخص سے دشمنی مول لینا موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا اور یہی ہوا کہ گاندھی کے بعض قومی یکجہتی کے بیانات پر انھیں قتل کرا دیا گیا تھا جس کا الزام خود مولانا ابوالکلام آزاد نے سردار پٹیل پر لگایا تھا۔
آج بی جے پی والے سردار پٹیل کو اپنا قومی ہیرو مانتے ہیں اس سے ثابت ہو گیا کہ وہ آر ایس ایس کا بندہ تھا مگر جسے کانگریس میں خود گاندھی لے کر آئے تھے پھر وہی شخص ان کی موت کا سبب بنا۔ اسی شخص کے انتہا پسندانہ بیانات کی وجہ سے ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور جو بالآخر تقسیم ہند کا سبب بنا۔ غزہ میں جاری جنگ کو روکنے کے سلسلے میں گزشتہ دنوں ریاض میں عرب لیگ اور او آئی سی کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔
ایران اور ایک دو ممالک نے جنگ بند نہ کرنے کی صورت میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑنے اور اسے تیل کی سپلائی روکنے کی تجویز پیش کی تھی افسوس کہ اس تجویز کو رد کر دیا گیا۔ نیتن یاہو سے جنگ روکنے کا مطالبہ ضرور کیا گیا مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ جنگ اب بھی بہ دستور جاری ہے۔ ایک دو دن کے وقفے سے کیا فرق پڑے گا جنگ کو دراصل مستقل طور پر بند ہونا چاہیے تاکہ غزہ کے تباہ حال لوگ کچھ سکون لے سکیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ حماس نے جنگ چھیڑ کر خود نیتن یاہو کو موقع مہیا کیا اگر وہ اسرائیل پر میزائلوں کی برسات نہ کرتی تو اسرائیل کی ہمت نہیں تھی کہ وہ غزہ پر ایسے بھیانک حملے کرتا جس سے ہزاروں لوگ شہید ہوتے اور رہائشی علاقہ کھنڈر بن جاتا۔ حماس نے بے شک بہت سا اسلحہ جمع کر لیا تھا مگر اسے حملے کے بجائے دفاع کے لیے استعمال کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ حماس نے اچانک حملہ کرکے اسرائیل کو حق دفاع کا موقعہ بخش دیا جس کی آڑ میں نیتن یاہو کو غزہ کو تباہ کرنے کا موقع مل گیا۔
مغربی ممالک اسرائیل کی اس لیے بھی مذمت نہیں کر رہے ہیں کیونکہ پہل حماس کی جانب سے ہوئی ہے اور اس طرح حماس نے خود اسرائیل کو مظلوم بنا دیا ہے۔ بدقسمتی سے اس جنگ نے اب اسرائیل کو پہلے سے زیادہ خود سر بنا دیا ہے وہ اب خود کو اتنا طاقتور سمجھنے لگا ہے کہ اب لگتا ہے فلسطین کا مسئلہ اس کی ہی شرائط پر حل ہوگا۔