لاڈلہ

ایسا نہیں ہے کہ اسٹبلشمنٹ میاں صاحب کے ساتھ ہے لیکن وہ اے پولیٹکل ضرور ہے


جاوید قاضی November 19, 2023
[email protected]

کل چیئرمین پی ٹی آئی لاڈلے تھے، آج یہ بات نواز شریف کے لیے کہی جا رہی ہے مگر یہ بات کہنا سیاسی حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے کیونکہ نوے کی دہائی تک کی، اگر بات کی جائے تو کبھی بینظیر اور کبھی نواز شریف اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ رہے۔

بینظیر نے میاں صاحب کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا آغازکیا اور پھر بے نظیر سے چھٹکارا پانے کے لیے نواز شریف کو آگے لایا گیا مگر یہاں حکومت گرانے کا ہتھیار 58(2)(b) کو بنایا جو اس وقت شبِ خون مارنے کا آئینی طریقہ کار تھا، جب میاں صاحب کو بھاری مینڈیٹ ملا تو 58(2)(b) کو آئین کی شقوں نکال دیا گیا۔ ایسے بھی حالات آئے کہ دونوں سیاسی رہنماایک ساتھ کھڑے ہوئے، ق لیگ کی شکل میں کنگز پارٹی بنی اور دونوں ہی رہنما جلا وطن ہوئے۔

پی ٹی آئی کا دور حکومت میاں صاحب کے لیے انتہائی کٹھن تھا، مگر اس دور میں پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت کرتی رہی۔ پیپلز پارٹی نے ماضی میں چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر میاں صاحب کو رخصت کیا اور جب مقصد حاصل ہوگیا تو چیئرمین پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے خلاف ہوگئے تاہم دونوں میں کوئی سنجیدہ سیاسی ٹکراؤ نہ تھا، مگر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی ایک جمہوریت پسند پارٹی ہے، ان کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔

اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا پلڑا مسلم لیگ نون سے بھاری ہے۔ پیپلز پارٹی بارہا آمریت سے ٹکرائی ہے اور ان کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ ہاں ! مگر پی ٹی آئی کے دور میں ، نواز شریف کا پلڑا بھاری رہا۔ میاں صاحب نے ثابت کر دیا کہ ان کی جدوجہد کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اسٹبلشمنٹ کو خان صاحب کے دور ہی میں اس بات کا احساس شدت سے ہوچکا تھا کہ ان کے ساتھ بھی ہاتھ ہوگیا ہے ، چیئرمین پی ٹی آئی سسٹم میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

اب موجودہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اسٹبلشمنٹ سے ٹکراؤ کے موڈ میں نہیں ہے۔ نو مئی کے واقعے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاسی قوت کو شدید نقصان پہنچا ہے خاص کر پنجاب میں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی بکھر چکی ہے، پنجاب کا سیاسی خلاء کم ازکم پیپلز پارٹی تو پر نہیں کرسکتی، اس خلاء کو بھرنے کے لیے ''استحکام پارٹی'' موجود ہے جو ماضی میں ق لیگ تھی۔

باقی رہا سوال چیئرمین پی ٹی آئی کے پاپولر ووٹ کا تو وہ ریاست کی پالیسی سے متصادم ہے، میں لٰہذا اب اسٹبلشمنٹ کے پاس جو آپشن ہے وہ میاں نواز شریف ہیں، وہ لاڈلے تو نہیں مگر مجبوری ہیں۔

آج اسٹبلشمنٹ روایتی سوچ کی حامل نہیں بلکہ ریفارمزکی طرف گامزن ہے۔ اس وقت پاکستان کا فوکس خارجہ پالیسی پر ہے، اس میں بنیادی تبدیلیوں پر غورکیا جا رہا ہے، یعنی اس وقت پاکستان خارجہ پالیسی میں Paradigm Shift آ رہا ہے اور پاکستان اب سرد جنگ کے دور کے نظریات سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔اس وقت میاں صاحب کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ غیر فطری ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ میاں صاحب بھی جرنیلوں کے فرنٹ میں تھے مگر انھوں نے جنرل ضیاء کی باقیات سے بتدریج اپنے آپ کو باہر نکالنے کی پالیسی اختیار کیے رکھی ۔ اس خلاء کو چیئرمین پی ٹی آئی نے پرکیا کیونکہ وہ خود اس باقیات کا حصہ تھے، ان کے ساتھ تھے، جنرل حمید گل اور افغان پالیسی کے چیمپیئنز جو سٹسم کے اندر بھی تھے اور باہر بھی پاور فل تھے۔

پیپلز پارٹی '' پرو لیفٹ'' ماڈریٹ سیاست کرتی آرہی ہے جب کہ میاں صاحب '' پرو رائٹ'' ماڈریٹ سیاست کے نمایندہ ہیں، مگر اب سندھ بنیاد پرستی کی آماجگاہ ہے، اندرون سندھ کی سیاست، زرعی معیشت اور معاشرت پر '' سیاسی پیر اور خود کو سید'' کہلانے والے گھرانوںکی اجارہ داری ہے۔

روایتی جاگیردار گھرانوں کے ساتھ ان کا اتحاد ہے، اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بڑے بڑے صحت کے مرکز ضرور بنائے ہیں،لیکن ان سرکاری اداروں پر سیاسی جاگیرداروں کی اجارہ داری ہے۔ اندروں سندھ کے متعدد اسکولز پرگھوسٹ ٹیچرز سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے ہیں۔ سیاسی پیروں اور وڈیروں کے تسلط میں صوبائی ، اضلاعی اور بلدیاتی اداروں کی جو تباہی ہوئی، وہ سب کے سامنے ہے۔

پوسٹنگ، ٹرانسفرز اور پروموشنز سندھ میں ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ بلڈرز مافیازکو زمینیں ہتھیانے کی کھلی چھٹی ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے رخصت ہونے کے بعد پی ڈی ایم نے وفاق میں حکومت بنائی، اس میں پیپلز پارٹی بھی شریک تھی، پھر مسلم لیگ یا شہباز شریف کی کارکردکی پر تنقید کرنا، دوعملی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

پنجاب اورکے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی، چیئرمین پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی حکومتوں کی طاقت کے زور پر وفاقی حکومت گرانے کے لیے کبھی ایک لانگ مارچ، کبھی دوسرا مارچ،کبھی دھرنے، کبھی جلسے، اعلیٰ عدلیہ میں درخواستوں پر درخواستیں، پورا سٹسم مفلوج اورمعیشت تباہ کردی گئی، لہٰذا پی ایم ایل این پر تنقید منطقی اعتبار سے درست نہیں ہے۔

میاں صاحب بلوچستان میں پیپلز پارٹی سے پہلے پہنچ گئے۔ میاں صاحب کے عزائم تو یہی ہیں کہ وہ قطعی اکثریت سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں جائیں تاکہ مسلم لیگ ن سادہ اکثریت کی بنیاد پر تنہا حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے، اگر ایسا نہ ہو سکا تو وہ چھوٹے چھوٹے گروپوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی جائے نہ کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ۔

جب خان صاحب کے بارے میں اسٹبلشمنٹ نے یہ تاثر دیا کہ حکومت ان کو دی جارہی ہے تو تمام الیکٹبلز ان کی پارٹی میں شامل ہوگئے ، خصوصاً سرائیکی بیلٹ۔ یہی اسٹرٹیجی ذوالفقارعلی بھٹو کی بھی تھی، بینظیر اور آصف زرداری کی یہی پالیسی رہی۔

ایسا نہیں ہے کہ اسٹبلشمنٹ میاں صاحب کے ساتھ ہے لیکن وہ اے پولیٹکل ضرور ہے اور میاں صاحب کی حالیہ پالیسی میں انھیں کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا ، اس وقت اسٹبلشمنٹ ریفارمزکے ایجنڈے کی طرف مائل ہے اور میاں صاحب بھی اسی راستے پر جانا چاہتے ہیں۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے اپنے ٹارگٹس محدود کر لیے ہیں ، پاکستان کو بچانے کا مشن مکمل کرنا اولین ٹارگٹ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں