خودکشی قضاوقدرِالٰہی سے انحراف کا نتیجہ
اس اقدام کے بارے میں اللہ کا دین کیا کہتا ہے؟
ہرانسان کو کائناتِ رنگ و بو میں خوشی، سکون وراحت اور تن درستی کے ساتھ ساتھ تکلیف و مصیبت، پریشانی وآفت اور بیماری ومشقت سے بھی واسطہ پڑتاہے، اور یہ سب حالات اللہ تعالی کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں جس پر بندۂ مومن کو کامل یقین اور مکمل اعتماد ہونا چاہیے:
ارشاد ربانی ہے: آپ کہہ دیجیے کہ اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے سوائے کوئی اور تکلیف پہنچ ہی نہیں سکتی۔ (سورۃتوبہ51)
حالات موافق وسازگار ہوں یا مخالف و ناساز گار دونوں صورتوں میں ایک ایمان والے کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟ قرآن و حدیث میں اس حوالے سے بھرپور راہ نمائی موجود ہے۔
بندۂ مومن اور اس کا معاملہ
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے، وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔ (صحیح مسلم)
اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسندیدگی کے طور پر مومن کے حال پر تعجب کا اظہار فرمایا ہے؛ کیوں کہ وہ بدلتے حالات اور دنیاوی اتار چڑھاؤ میں خیروفلاح اور کام یابی کا مستحق بن سکتا ہے اور یہ خیر صرف اور صرف مومن ہی کو حاصل ہے۔
پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالی نے مومن کے ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی مقدر فرمایا ہے۔ اگر اسے کوئی تنگی ومصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کی تقدیر پر صابر، اس کی طرف سے کشادگی کا منتظر اور اس سے اجر و ثواب کا امیدوار رہتا ہے، تو یہ بات اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔
نیز اگر کوئی خوش کن بات پیش آتی ہے مثلاً کوئی دینی نعمت کا حصول ہوتا ہے، جیسے علم یا عمل صالح یا پھر کوئی دنیوی نعمت ملتی ہے، جیسے مال، اولاد اور جائیداد وغیرہ اور وہ اس پر شکرگزار ہوتا ہے، بایں طور کہ اللہ عز و جل کی اطاعت پر کاربند رہتا ہے اور زبان و دل سے اس کی حمد بیان کرتا ہے، تو یہ بات بھی اس کے لیے باعثِ خیر ہوتی ہے۔
خود کشی کیا ہے؟
خودکشی، بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے، یہ کم زور ومایوس لوگوں کے لیے زندگی کے مسائل و مشکلات، آزمائشوں اور ذمے داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کا ایک غیراسلامی، غیراخلاقی اور غیرقانونی طریقہ ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت پوری دنیا کے محروم القسمت لوگوں میں اپنی ذمے داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کم زوری کے باعث خود کشی کا رجحان آئے دن بڑھتا جارہا ہے۔ مغربی ممالک میں تو اخلاقی اور سماجی نظام کے انتشار کے سبب خودکشی کے واقعات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ خودکشی کو انسان کا نجی حق تسلیم کیا جائے۔
زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر موجودہ مغربی نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ وہ اس دعوے ہی کو تسلیم نہیں کرتا کہ انسان اس دنیا میں کسی بھی چیز کا حتٰی کہ اپنی ذات کا مطلق مالک ہے اور وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔
اس کے نزدیک یہ پوری دنیا اللہ تعالی کی پیدا کردہ ہے اور وہ اسے چلارہا ہے؛ اس لیے وہی اس کا حقیقی مالک بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا ہے بلکہ اللہ تعالی نے اس کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس کے لیے سامان زیست فراہم کیا ہے۔ اس لیے وہی اس کی ذات پر مالکانہ اقتدار بھی رکھتا ہے۔
انسان اپنی ذات یا اپنے کسی اقدام کے بارے میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا، ورنہ اس کی حیثیت اس مجرم کی ہوگی جو دوسرے کی چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرے اور ان کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرے؛ لہٰذا انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اسے کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے، جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ زندگی کب واپس لی جائے گی۔
کلام اللہ میں خود کشی کی ممانعت
زمانۂ جاہلیت میں لوگ تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے؛ تاکہ وہ ان کی پرورش کے بوجھ سے آزاد رہیں؛ مگر اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس فعل کو حرام قرار دیا اور فرمایا: ''اورنہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے، ہم ہی روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی، بے شک ان کا مارنا بڑی خطا ہے (بنی اسرائیل:31)
ایک اور مقام پر اسی بات کو اس طرح بیان کیاگیا ہے:''اور اپنی اولادوں کو مال میں کمی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ (انعام:15)
دونوں آیتوں میں الگ الگ دو طرح کے لوگوں سے خطاب کیاگیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو فی الحال مفلس تو نہیں ہیں؛ مگر ڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہوں گے تو ان کو کہاں سے کھلائیں گے؛ جب کہ دوسرے طبقے کو جو فی الحال مفلس ہے عیال سے پہلے ہی اپنی روٹی کی فکر دامن گیر ہوگئی ہے؛ اس لیے ایک جگہ خشی املاق اور دوسری جگہ من املاق کے ذریعہ خبردار کیاگیا کہ تم کو رزق کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔
اسی طرح صراحتاً ایک مقام پر خودکشی سے منع کرتے ہوئے فرمایا،''تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔'' (النسائ:29) دوسری جگہ فرمایا: ''تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔'' (البقرۃ:195)
اس طرح کے اور بہت سے احکام قرآن مجید میں موجود ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کو اس بات کا اختیار ہی نہیں ہے کہ کب اپنی جان لے، ہاں انسان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اور اس میں کوئی تصرف نہ کرے۔
احادیث رسول میں خود کشی کی مذمت
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور اس کا امیر انصار کے ایک آدمی کو مقرر فرمایا اور لشکر کو یہ حکم دیا کہ وہ امیر کے احکام سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔
(اتفاق سے) وہ امیر ان پر کسی چیز سے ناراض ہوگیا اور اس نے کہا: میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ لشکر نے لکڑیاں جمع کیں تو اس نے کہا: ان میں آگ جلاؤ۔ انہوں نے آگ جلائی تو امیر نے کہا: کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لوگوں کو میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں! امیر نے حکم دیا: تو پھر اس آگ کے اندر کود جاؤ۔ راوی بیان کرتے ہیں: اِس پر وہ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
ان میں سے بعض نے کہا: آگ ہی سے بچنے کے لیے تو ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ہے (پھر کیوں اس میں داخل ہوں)؟ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھے کہ امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھا دی گئی۔
پس جب وہ لوٹے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو کبھی اس سے باہر نہ نکلتے کیوںکہ اطاعت تو صرف نیک باتوں میں لازم ہے۔ (مسلم، باب وجوب طاعۃ الامرائ، 3 : 1469، رقم : 184)
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کے متعلق سخت تہدید پر مشتمل وعید بیان فرماتے ہوئے فرمایا: جس نے گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو مار ڈالا، وہ دوزخ میں بھی گلا گھونٹے گا، اور جس نے نیزہ مار کر اپنے آپ کو ہلاک کیا اسے دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو نیزہ مارنے کا عذاب دیا جائے گا۔ (کنزالعمال)
یعنی خودکشی کی بنا پر مصائب و مشکلات سے چھٹکارا نہیں ملے گا، بلکہ دنیا میں جس چیز سے اورجس انداز سے خودکشی کرے گا آخرت میں اسی انداز کا عذاب دیا جائے گا، جسے جزاء من جنس العمل کہا جاتا ہے۔
اسی طرح حضرت جابررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت طفیل بن عمرودوسی کے ساتھ ان کی قوم کے ایک اور شخص نے بھی مدینہ طیبہ ہجرت کی، یہاں یہ دوسرے شخص بیمار پڑگئے، تکلیف کی شدت کے باعث ان سے صبر نہ ہوسکا اور انہوں نے ایک ہتھیار سے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ لیے، رگیں کٹ گئیں اور خون اتنا بہہ گیا کہ انتقال ہو گیا۔
حضرت طفیل نے بعد میں ان کو خواب میں دیکھا کہ ایمان پر خاتمہ اور ہجرت کی وجہ سے بہتر حالت میں ہیں؛ مگر ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے ہیں، حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے ان سے خواب میں پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ ان صاحب نے کہا: اللہ تعالی نے ایمان اور ہجرت کی برکت سے مجھے معاف کردیا، مغفرت تو ہوگئی، لیکن میرے ہاتھوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ جس چیز کو تم نے خود بگاڑ لیا ہے میں اسے درست نہیں کرتا۔ حضرت طفیل نے یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا، توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی: یاالہی!ان کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔ (صحیح مسلم :311)
اس سے معلوم ہوا کہ خودکشی کرنا اگرچہ سنگین جرم اور بہت ہی سخت گناہ و عذاب کا باعث ہے؛ لیکن خودکشی کرنے والے کا خاتمہ ایمان پر ہو تو اس کی معافی اور بخشش ہوجائے گی اور خودکشی کرنے والے کے لیے دعائے مغفرت و ایصال ثواب بھی کرنا چاہیے، بلکہ وہ اس کا بہت زیادہ محتاج ہوتا ہے۔
خودکشی کے اسباب اور ان کا سدباب
حوادث زمانہ کا ظہور ہر شخص کے حق میں یکساں نہیں ہوتا، کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو بڑی سی بڑی تکلیف بھی برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور کچھ لوگ معمولی حادثے سے پریشان ہوکر جزع فزع پر اتر آتے ہیں۔ مگر زندگی کے سفر میں کام یاب شخص وہ ہے جو ہمت وحوصلے کے ساتھ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور دل ہارنے کے بجائے پامردی و استقلال کا ثبوت پیش کرے۔
غور کیا جائے تو مسلمانوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے اسباب میں ایک اہم و بنیادی سبب اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر ان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے۔
جو لوگ آزمائش میں پورے اترتے ہیں وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہوجاتے ہیں وہ خودکشی کو راہِ نجات سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ اپنا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ و برباد کر لیتے ہیں۔
انسان کو اللہ پر مکمل بھروسا ہونا چاہیے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سب تکلیفوں اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے کے سربرآوردہ افراد، والدین اور سرپرستوں کا کلیدی رول ہوتا ہے کہ وہ پریشان حالوں کو سمجھائیں، انہیں حوصلہ دیں اور ان کی ہر ممکن اعانت کریں، تاکہ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔
ویسے تو خودکشی کے مختلف اسباب وعلل ہوسکتے ہیں؛ جن میں چند یہ ہیں: (1) معاشی مشکلات (3) رشتوں کی ناچاقی واختلافات (4) ظلم و بدسلوکی (5) تشدد وبے راہ روی (6)حقوق کی پامالی (7) جہیز اور ناجائز مطالبات کا رواج وغیرہ۔
ہم مانتے ہیں کہ حالات کے ستائے ہوئے افراد ہی خودکشی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں؛ لیکن یہ زندہ حقیقت ہے کہ اس کا واحد حل ''صبرو ثبات'' اور ''قوتِ برداشت'' ہے۔ اور سب سے عظیم قوت صبر والوں کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔ ایسے انعام سے منہ موڑ کر جہنمی عمل کو گلے لگانا کتنی کم ظرفی اور کیسی محرومی کی بات ہے۔
اس رخ سے بھی معاشرے کے مردوخواتین کو غور کرنا چاہیے کہ ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، صبر وشکر والوں کے لیے انعامات کی بشارتیں موجود ہیں۔ آخرت کی فلاح سے منہ موڑ لینا خلافِ عقل بات ہے؛ اس لیے خدارا! کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے یہ غور کرلیں کہ اس میں آخرت کا نفع ہے یا نقصان، اور اللہ و رسولﷺ کی رضاہے یا ناراضی۔
یہ زندگی اور ہمارا پورا وجوداللہ تعالی کی امانت ہے، اورممکنہ حد تک اس کی حفاظت کرنا ہماری ذمے داری اور اسلامی، فطری، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ فقہی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ انسانی جان ربِ کریم کی عطا کی ہوئی ایک ایسی امانت ہے جس کا تحفظ بہرصورت لازم اور ضروری ہے، مصائب و مشکلات کی اندھیریاں ہوں یا مجبوریوں اور ناامیدیوں کی تاریکیاں، اس عظیم امانت الٰہی کو خودکشی کے ذریعے لمحوں میں ضائع کردینا نہ تو اسلام میں جائز ہے نہ انسانیت کی نظر میں مستحسن ہے۔
اسی لیے ایسے کسی بھی عمل کی اسلام میں اجازت نہیں جو بے مقصد ہو، صحت یا زندگی کے لیے مضرت رساں ہو اور انسانی وجود اور زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہو، بلکہ جان بچانے کے لیے بوقت ضرورت اور بقدرِضرورت ایسی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے جو اصلاً ناجائز اور حرام ہیں۔
پھر انسان کے لیے من جانب اللہ اس کے جسم و جان کی حفاظت کے لیے جو اسباب مہیا ہیں ان کی مثال کسی مخلوق میں نہیں ملتی، اس کے باوجود اگر کوئی اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے تو یہ ایسا جرم ہے جو دنیا اور عقبیٰ دونوں میں مجرم کو محروم کردیتا ہے اور کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔
اللہ تعالیٰ اس قبیح فعل سے ہر ایک کی حفاظت فرمائے اور ہر ایک کو شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)