خیبرپختونخوا میں پہلی بار خواجہ سراؤں کو تھانوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ
خواجہ سرا کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلیے تھانوں میں خصوصی ڈیسک بنایا جائے گا، جہاں خواجہ سراؤں کا نمائندہ معاون ہوگا
خیبرپختونخوا میں پہلی بار خواجہ سراؤں کی پولیس میں تعیناتی اور تھانوں میں خصوصی ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پشاور میں خواجہ سراء کمیونٹی کی مسائل کو حل کرنے لئے پہلا ٹرانس ڈیسک گلبہار پولیس اسٹیشن میں بنا دیا گیا جہاں تعلیم یافتہ خواجہ سرا تعینات ہوگا، ڈیسک پر تعیناتی کے لئے پشاور پولیس نے خواجہ سرا ایسوسی ایشن سے تین نام مانگ لئے جنکی ویری فیکیشن کے بعد رواں ہفتے پشاور میں پہلی بار تھانے کی سطح پر خواجہ سراؤں کو درپیش چلینجز ، سکیورٹی صورتحال ، ایف آئی آر کے اندارج کے لئے خواجہ سرا بطور معاونت کار تعینات ہوگا۔
ایس ایس پی آپریشنز پشاور کاشف آفتاب عباسی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ انکے لئے علیحدہ ڈیسک بنائیں جائیں، جس کی منظوری ہوگئی ہے خواجہ سرا کمیونٹی سے جیسے ہی نام ملیں گیں تین دنوں میں تعیناتی مکمل ہوجائے گی۔
کاشف عباسی نے بتایا کہ ضلع کی سطح پر خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لئے کمیٹی بھی بحال کر دی گئی ہے، چھ رکنی کمیٹی کی سربراہی ایس ایس پی آپریشنز کرینگے جبکہ ایس پی سکیورٹی ، ایس پی فقیر آباد ممبر ہونگے ڈسٹرک کمیٹی میں خواجہ سراؤں کے دو نمائندہ بھی شامل کر لئے گئے یہ کمیٹی ہر ماہ اجلاس کرے گی۔
خواجہ سراؤں کے خصوصی ڈیسک کے قیام کے ساتھ ساتھ پشاور میں پہلی بار خواجہ سراؤں کے لئے کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا، جس میں ضلع بھر کے خواجہ سراؤں نے شرکت کی۔
ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ٹرانس کمیونٹی خیبرپختونخوا کی صدر آرزو نے بتایا کہ 2013 سے اب صوبہ خیبرپختونخوا میں 100 سے زائد خواجہ سرا قتل ہو چکے ہیں ، ٹرانسجینڈر پر تشدد کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے خوش آئند بات ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی کے خصوصی ڈیسک قائم ہونگے لیکن انکی لمبے عرصے تک بحالی ہونی چائیے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی ٹرانسجینڈر ماہی گل نے بتایا کہ جب بھی کسی خواجہ سرا پر تشدد ہوتا ہے ایف آئی آر کا اندراج تو ہو جاتا ہے لیکن ملزمان جلد آزاد ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سرا پشاور میں کھلی کچہری پہلا مرحلہ ہے، صوبہ بھر میں ماہانہ ایسے اقدامات ہوئے تو یقینی طور پر خواجہ سراؤں کو اپنی آواز اٹھانے میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ ان پر تشدد کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔