احساس عدم تحفظ تشدد و ہراسانی کی شکار خواتین ملزمان کیخلاف کارروائی سے گریز پر مجبور
لیگل ایڈ اور متعلقہ سرکاری اورغیرسرکاری اداروں کی وجہ سے خواتین کو ہمت اورحوصلہ ملا ہے ، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس
احساس عدم تحفظ کی وجہ سے تشدد و ہراسانی کی شکار خواتین ملزمان کے خلاف کارروائی سے مجبوراً گریز کرنے لگی ہیں۔
خواتین کی خودمختاری اور تحفظ سے متعلق متعدد اقدامات کے باوجود آج بھی گھریلوتشدد اور ہراسانی کی شکار ہونے والی خواتین کی بڑی تعداد ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے گریز کرتے ہوئے ملزمان سے مجبوراً صلح کرتی ہیں۔
28 سالہ ریحانہ گل لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کی رہائشی ہیں۔ چند ہفتے قبل انہیں ان کے شوہر اور دیگرسسرالی رشتے داروں نے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ریحانہ گل کے مطابق ان کا ایک بازو ٹوٹ گیا اور چہرے و سر پرکافی چوٹیں آئیں، تاہم انہوں نے اپنے شوہر سمیت دیگرملزمان کو معاف کردیا اوران سے صلح کرلی تھی۔
ریحانہ گل نے بتایا ان کی 5 سال قبل محمدریحان سے شادی ہوئی تھی۔ان کا ڈیڑھ سال کا ایک بیٹا بھی ہے۔ ریحانہ گل کا کہنا تھا کہ خاندان کے بزرگوں اور رشتے داروں نے ان کی صلح کروادی تھی۔
ریحانہ گل کی طرح سیکڑوں خواتین اور بھی ایسی ہیں جو گھریلوتشدد اورہراسانی کا شکار ہوتی ہیں لیکن خاندانی دباؤ، رشتے داری اور مختلف مجبوریوں کی بنا پر وہ ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی سے گریزاں ہوتی ہیں اور ان سے صلح کرلیتی ہیں۔
اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ،گلبرگ لاہور سیدہ شہربانو نقوی کہتی ہیں کہ خواتین پرتشدد کے معمولی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور فریقین صلح کرلیتے ہیں۔ جو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سے بھی 60 فیصد واقعات میں مقدمہ درج ہونے سے قبل فریقین میں صلح ہو جاتی ہے۔
سیدہ شہربانونقوی کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کی صلح کرنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ان کی معاشی مجبوری، خاندانی رشتے داری، بچے اورسب سے بڑھ کر اونرشپ ہے۔ جو خواتین خود معاشی طور پر مضبوط اورخودمختار ہیں وہ ملزمان خواہ ان کا کوئی قریبی رشتے دارہی کیوں نہ ہواس کے خلاف کارروائی کرتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیگل ایڈ اورتحفظ فراہم کرنیوالے سرکاری اورغیرسرکاری اداروں کی وجہ سے بھی خواتین کو ہمت اورحوصلہ ملا ہے ۔
واہگہ ٹاؤن کی مقامی یونین کونسل کے سابق چیئرمین راشدکرامت بٹ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گھروں میں چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے اورتناؤ معمول کی بات ہے۔خواتین کو مختلف وجوہات کی بنا پر مارپیٹ اورتشددکانشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ایسے واقعات میں سب سے پہلے یونین کونسل ،مصالحتی کونسل کا کردار اداکرتی ہے۔ فریقین کا مؤقف سنا جاتا ہے اورپھرکوئی فیصلہ ہوتاہے۔ یونین کونسل میں عموماً طلاق ،خلع، جہیز کے سامان کی واپسی جیسے کیس آتے ہیں۔ راشد کرامت بٹ نے کہا کہ فریقین کا موقف سننے کے بعد مظلوم کی دادرسی کی جاتی ہے اوراگر فریقین مصالحتی کونسل کے مشورے کو نہیں مانتے توپھر قانون اورعدالت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران خواتین پرتشدد،ہراسانی اوراغوا کے 10365 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ ان میں خواتین کے اغوا کے 5551، جسمانی تشدد کے 2818، جنسی زیادتی کے 1111، اغوا کے 613 اور گھریلو بدسلوکی کے 219 واقعات شامل ہیں، تاہم ایس ایس ڈی او کا کہنا ہے کہ یہ حقیقی واقعات کی تعداد رپورٹ شدہ واقعات سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔
چیئرپرسن قومی کمیشن برائے وقار نسواں نیلوفر بختیار کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے اوران سے خواتین کے خلاف صنفی تشدد کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف صنفی تشدد کو کم کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ مظالم کا شکار ہونیوالی خواتین کی زندگیوں کولاحق خطرات سے بچانا ہو گا۔ فوری عدالتی احتساب اور انصاف کی فراہمی ہی سے ظلم اور بدترین تشدد کے اس سلسلے کو روکا جا سکتا ہے۔