معیشت کی بحالی اور عوامی مشکلات


Editorial November 23, 2023

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہشمند ہے، تاہم امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔

دوسری جانب نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ملک کے اہم معاشی اشاریوں میں بہتری آرہی ہے جس سے اقتصادی بحالی کی عکاسی ہو رہی ہے۔ روزگار میں اضافہ، اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کے منصوبوں کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ پاکستان ایک آزاد خارجہ اور اقتصادی پالیسی پر عمل پیرا ہے، پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی، باہمی تجارت اور روابط کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو غیر نتیجہ خیز علاقائی تنازعات میں مداخلت کرنے سے پہلے اپنے معاشی مفادات کو محفوظ بنانا چاہیے، یقیناً کشمیرکا معاملہ بھی اہم ہے۔

پاکستان میں آیندہ چند سالوں کے دوران دوست ممالک کی طرف سے لگ بھگ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے جس کے لیے نگران حکومت اور تمام ملکی ادارے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

دِگرگوں معاشی حالات اور دہشت گردی کے علاوہ ملک میں رائج '' سرخ فیتہ'' سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، اِس سے چھٹکارا پانے کے لیے ایس آئی ایف سی نے اپنے کام کا باقاعدہ آغازکردیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا سفارتی طور پرغیر جانبدار رہنا جغرافیائی اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے کافی ہے اور پاکستان کو اپنے اقتصادی اہداف پر پیش رفت کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے پاکستان کو مستحکم سیاسی اور معاشی صورت حال درکار ہوگی۔

پاکستان کے معاشی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، قرض کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینا پڑ رہے ہیں۔ منصوبوں کا مسئلہ نہیں اصل مشکل تو ان کا پایہ تکمیل تک نہ پہنچنا ہے جس کی بڑی وجہ پالیسی کے تسلسل کا فقدان ہے۔

ہر آنے والا جانے والے کی پالیسیوں کو ختم کرکے نئی پالیسی متعارف کرانے کو ہی کارکردگی گردانتا ہے۔ حقائق کی بنیاد پر منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی اقتصادی پالیسی کو بھی آنے والا ردی کی ٹوکری میں پھینک کر نئے سرے سے کام پر لگ جاتا ہے۔

معاشی زبوں حالی کے ایک نہایت مشکل دور سے گزرنے کے بعد قومی معیشت کی بحالی کی خبریں بلاشبہ پوری پاکستانی قوم کے لیے انتہائی حوصلہ افزاء ہیں۔ معاشی اشاریے قدرے بہتری کی جانب گامزن ہیں، منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ کے خلاف نگران حکومت کی جانب سے جو سخت ایکشن لیا گیا ہے۔

اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیںجب کہ حالیہ عرصے میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں جو واضح اور نمایاں کمی ہوئی، اس سے بھی مہنگائی میں کمی کے اثرات یقینی تھے، تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود عام آدمی کی معاشی سکت بہتر نہیں ہوسکی،گرانی کی لہر تھمنے میں نہیں آرہی اور عوام معاشی اشاریوں میں بہتری کے ریلیف سے محروم ہیں۔

دوسری جانب توانائی، بالخصوص بجلی وگیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے صنعتی و پیداواری شعبے سمیت عوام کو شدید متاثر کیا ہے۔ حکومت اس حوالے سے تاحال صرف تسلیاں دے رہی ہے اور عملی طور پر غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔

قومی معیشت پر قرضوں کا مسلسل بڑھتا بوجھ بھی ایک انتہائی لائقِ توجہ معاملہ ہے۔ ملک کی آبادی یقینی طور پر بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی معیشت پر منفی اثرات کا باعث بنتی ہے، آبادی میں اضافے سے آلودگی اور صحت کے مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ فی کس آمدنی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

زیادہ آبادی کے نتیجے میں قومی آمدنی افراد کے بڑے حصے پر تقسیم کی جاتی ہے، چونکہ اس انبوہ کثیر میں ہر فرد کو ملازمت مہیا کرنا ممکن نہیں ہوتا، نتیجتاً یہ بے روزگاری کا سبب بنتا ہے۔ اقتصادی مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔

اسی معاملے کا ایک اور پہلو افراط زر ہے۔ پاکستان میں افراط زرکی شرح اتنی زیادہ ہے کہ ایک غریب آدمی کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنا بہت مشکل ہے، آبادی کی شرح میں اضافے سے سامان اور خدمات کی طلب بڑھتی ہے جس سے بالآخر سامان اور خدمات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ غربت کے اس خوفناک چکر میں پھنسے بے چارے خاندانوں کی حالت ابتر ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے پاس دنیا کی سب سے بڑی '' ورکنگ ایج پاپولیشن '' تو ہے مگر اس سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ مشکل سے نکلنے کے لیے ایس آئی ایف سی زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات، کان کنی، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری لانے کے لیے پْرعزم دکھائی دے رہی ہے۔

فوجی قیادت بھی اِس میں نگران حکومت کی معاونت کر رہی ہے، اِسی تناظر میں آیندہ دس، بارہ سال کی منصوبہ بندی کا کام شروع کیا گیا ہے جو یقینا اچھی بات ہے، اگرچہ پالیسیاں بنانے کی مجاز منتخب حکومتیں ہی ہوا کرتی ہیں۔

جب ملک میں کوئی نئی حکومت آتی ہے اور پچھلی پالیسیوں کو چھوڑ کر اپنے معاشی ایجنڈے کو لاگوکرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشی استحکام متاثر ہوتا ہے اور ان معاشی ہچکیوں کے نتیجے میں قلیل مدتی پالیسیوں اور فوری اصلاحات تعطل کا شکار ہوتی ہیں۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق اس قسم کی صورتحال میں ایک ایسے مستحکم اور مستقل اقتصادی پالیسی فریم ورک کا ہونا ضروری ہے، جو سیاسی تبدیلیوں سے مشروط نہ ہو اور جو سرمایہ کاروں کو طویل مدتی منصوبہ بندی کے لیے درکار اعتماد فراہم کرسکے۔

ماہرین کے مطابق اقتصادی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے مجموعی اقتصادی ماڈل میں پائیدار اصلاحات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ برآمدات میں تنوع اور تجارت کو فروغ دینے سے پاکستان کو زرمبادلہ کمانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس ضمن میں اقتصادی پالیسیاں ایک طویل المدتی وژن کے ساتھ تیارکی جانی چاہئیں جس میں ملک کی اقتصادی صلاحیت، آبادیاتی رجحانات اور عالمی اقتصادی تبدیلیوں کو مدنظر رکھا جائے۔

اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرزکے درمیان چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی اداروں میں اعتماد پیدا کرنے اور معاشی پالیسیوں کو موثر طریقے سے لاگو کرنے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے خطے میں اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے، جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔

پاکستان سی پیک میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے، جوکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے اور سی پیک چین کے مغربی علاقوں کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے جوڑتا ہے، جس سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی ملتی ہے۔

پاکستان میں زرخیز زمینیں ہیں اور زراعت کے لیے سازگار آب و ہوا ہے۔ یہ شعبہ جی ڈی پی میں 19.2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور تقریباً 38.5 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ پاکستان خوراک اور فصلوں کے دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسر اور سپلائرز میں سے ایک ہے۔ پاکستان اس وقت سالانہ 4.4 بلین ڈالر مالیت کی زرعی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔

پاکستان میں ایک بڑی، نوجوان آبادی ہے جس میں ہنر مند افرادی قوت کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کی تقریباً 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمرکی ہے، جب کہ 29 فیصد کا تعلق 15 سے 29 سال کی عمر کے طبقے سے ہے۔

پاکستان قوت خرید کی برابری کے لحاظ سے دنیا کی 23 ویں بڑی معیشت ہے، جب کہ برائے نام جی ڈی پی کے لحاظ سے یہ 40 ویں بڑی معیشت ہے۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ قدرتی وسائل کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے وسائل سے مالا مال ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس کوئلہ، گیس، قیمتی پتھر، تانبا، نمک، معدنیات اور سونے کے وافر ذخائر ہیں۔ دیگر وسائل میں تیل، آئرن اور ایلومینیم شامل ہیں جو کسی بھی بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں۔

پاکستان میں خطے اور ایشیا کا ایک بڑا اقتصادی کھلاڑی ہونے کے تمام تقاضے ہیں اور اس کی اقتصادی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ اتحادی حکومت میں یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنایا جائے گا، نگران حکومت بھی اِسی اصول پر عمل پیرا ہے اور اِس کا اظہار بھی کر چکی ہے۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ آیندہ کی پیش بندی کوئی بھی کرے لیکن اِس کے لیے نہ صرف آج تک بننے والی تمام پالیسیوں کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے بلکہ کم از کم آیندہ پچیس سال بعد کی ملکی ضروریات اور اس وقت درپیش معاملات کا احاطہ بھی کیا جانا چاہیے۔

معاشی اشاریوں کے مسلسل بہتر ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے معاشی پالیسیوں کی آزمائش سے سیکھ کر اُن کی اصلاح کا عمل جاری رکھا جس کے مثبت نتائج منظر عام پر آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

تاہم معاشی ترقی کا اصل مقصد اس کے اثرات کا عوام تک منتقل کیا جانا، ان کی زندگیوں کو آسان بنانا اور ان کے معیار زندگی میں بہتری لانا ہونا چاہیے لہٰذا حکومت کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات عمل میں لانا ہوں گے اور مہنگائی و بیروزگاری پر قابو پانا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں