18 ویں ترمیم اور وفاقیت
اب نگراں حکومت کے مالیاتی مشیر ڈاکٹر وقار مسعود نے بھی اس ترمیم کے تحت قومی مالیاتی ایوارڈ میں تبدیلی کی تجویز دی ہے
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت کا ایک کارنامہ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم تھی۔ یہ ترمیم 1940میں لاہور میں منظور کی جانے والی قرردادِ لاہور (جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے معروف ہوئی) کی رو کے مطابق ہے، مگر جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے اس ترمیم کے خاتمہ کے لیے آوازیں آنے لگتی ہیں۔
تحریک انصاف کی قیادت مسلسل 18ویں ترمیم کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی رہی ہے، اب نگراں حکومت کے مالیاتی مشیر ڈاکٹر وقار مسعود نے بھی اس ترمیم کے تحت قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) میں تبدیلی کی تجویز دی ہے۔
یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت 18ویں ترمیم کے خاتمہ پر متفق ہوگئی ہے مگر اب مسلم لیگ ن کے منشور کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی نے اس خبر کی تردید کی ہے۔
آئین کی اس 18ویں ترمیم وفاق کی آمدنی میں صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد ہے۔ یہ بھی تجویز زیر غور ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن NFC کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ صوبوں کو منتقل ہونے والی آمدنی سے بلدیاتی اداروں کو بھی حصہ منتقل ہوسکے۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے آئین میں ترمیم ضروری ہے، یوں پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام کے منتخب اراکین نے اس ترمیم پر اتفاق کیا اور پہلی دفعہ صوبوں کو حقوق حاصل ہوئے جو حقیقی وفاق کے لوازمات کے لیے ضروری تھے۔
صوبائی خودمختاری کا ایک تاریخی پس منظر ہے، جب آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو چھوٹے صوبوں کے مسلمان مسلم لیگ کے قیام میں پیش پیش تھے، یوں مسلم لیگ نے نئے صوبوں کے قیام اور صوبوں کے حقوق سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔
اس جدوجہد کا ثمر 23 مارچ 1940 کو لاہور سے مسلم لیگ کے اساسی اجلاس میںمنظور کردہ قرارداد کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ قرارداد ،قرارداد لاہور کے نام سے منسوب ہوئی۔
پاکستان بننے کے بعد اس قرارداد میں مسلمانوں کی اکثریت والے صوبوں کی کنفیڈریشن پر مشتمل ملک کے قیام کا مطالبہ کیا گیاتھا، یوں آل انڈیا مسلم لیگ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی آواز بن گئی۔
آل انڈیا کانگریس مضبوط مرکز کی داعی ہوگئی مگر تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ جب اگست 1947میں متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور دنیا کے نقشہ پر بھارت اور پاکستان ابھرے تو کانگریس کی قیادت نے بصیرت کا اظہار کرتے ہوئے صوبوں کے حقوق (بھارتی آئین میں صوبوں کا نام ریاست رکھا تھا) کے لیے بھارتی یونین کے آئین میں اہم شقیں شامل کی گئیں مگر پاکستان میں مسلم لیگ ن نے اپنے منشور سے انحراف کرتے ہوئے مضبوط مرکز کا نعرہ بلند کیا۔
پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نئی ریاست کے گورنر جنرل بن گئے۔ سب سے پہلے صوبہ سرحد میں کانگریس کی ڈاکٹر خان کی قیادت میں قائم حکومت کو برطرف کیا گیا، پھر سندھ میں وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کو برطرف کیا گیا۔
بیرسٹر محمد علی جناح نے اکثریتی آبادی کی زبان بنگالی زبان کو نظرانداز کرتے ہوئے اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ اس فیصلہ کا مشرقی بنگال میں شدید ردعمل ہوا۔ مشرقی بنگال میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کے لیے ایک مضبوط تحریک شروع ہوئی۔ ڈھاکا کے طلبہ نے اس تحریک میں بنیادی کردار ادا کیا۔
پولیس نے 24 فروری 1952 کو احتجاج کرنے والے طلبہ پر فائرنگ کی۔ تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈھاکاکے طلبہ کی اس جدوجہد کے حوالے سے یونیسکو نے 24 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
مشرقی بنگال میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ کی مخالف جماعتوں کا اتحاد جگتو فرنٹ قائم ہوا۔ جگتو فرنٹ کا منشور جو 24 نکات پر مشتمل تھا میں سماجی و صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا گیا۔
جگتو فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی مگر کراچی میں قائم مرکزی حکومت نے 9 ماہ بعد اس حکومت کو برطرف کیا۔ 1972 میں بلوچستان کی اکثریتی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی۔
اس صوبائی حکومت میں میر غوث بخش بزنجو گورنر اور عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ تھے مگر بھٹو حکومت نے 9 ماہ بعد اس حکومت کو برطرف کیا، یوں بلوچستان ایک بحران کا شکار ہوا اور یہ اب تک جاری ہے۔
وفاقیت کے ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے 18ویں ترمیم کی طرح کا معاہدہ 1970 میں ہوجاتا تو ملک تقسیم نہیں ہوتا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 18ویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا ۔
پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں کئی وزارتیں کچھ ناموں کی تبدیلی سے قائم ہوئیں مگر پھر بھی قومی مالیاتی کمیشن کے نئے فارمولہ کے تحت صوبوں کی آمدن میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔
اس ترمیم کے تحت ہر صوبہ کا اپنا مالیاتی کمیشن قائم ہوجاتا مگر صوبوں کی خودمختاری کی داعی پیپلز پارٹی نے بھی صوبہ میں قومی مالیاتی کمیشن قائم نہیں کیا۔ 18ویں ترمیم کی سب سے زیادہ مخالف تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا بیانیہ تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے لیے فارمولہ کے تحت وفاق کے فنڈز کم ہوگئے ہیں۔
تحریک انصاف کے بعض رہنما تو صدارتی نظام کی وکالت کرتے تھے مگر ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا اور بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالیاتی اختیارات مکمل طور پر نہیں دیے۔ میاں شہباز شریف کو بلدیاتی امور کے لیے کمپنیاں بنانے کا فارمولہ مل گیا یوں چند شہروں میں تو ترقی ہوئی مگر شہباز شریف کے رخصت ہوتے ہی صورتحال خراب ہوگئی۔
پیپلز پارٹی کے 1988کے منشور میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس منشور کو سنجیدہ نہیں لیا، یوں سندھ ترقی کے معاملہ میں پیچھے رہ گیا۔
ایم کیو ایم کی قیادت نے یہ مطالبہ کرنا شروع کیا کہ 18ویں ترمیم میں بلدیاتی اداروں کو خودمختار بنانے کی شق شامل کی جائے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کا 18ویں ترمیم پر نظرثانی نہ کرنے کا فیصلہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ میاں نواز شریف مستقبل میں کسی دباؤ پر صوبائی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔