گھاٹے کا سودا
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے وہی لوگ صبر وشکر کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں جو قناعت پسند ہیں
آج کا دور مہنگائی کا بدترین دور ہے کسی زمانے میں دالیں بے حد سستی ہوتی تھیں اور دالوں کو غریبوں کا کھانا کہا جاتا تھا اور مرغی کھانے کو لوگ ترستے تھے کہ ان کی پہنچ سے دور تھی لیکن اب گوشت اور دالوں کی قیمتیں تقریباً برابر ہیں۔ ان دنوں گوشت بھی خراب اور بغیر حلال کیے بیچا جاتا ہے، گدھے اور مردہ جانوروں کے گوشت کی خرید و فروخت عام سی بات ہوگئی ہے، بات گوشت کی چل رہی تھی تو عرض یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے انسانوں کا گوشت بھی کھانا شروع کردیا ہے۔
پنجاب میں پچھلے دنوں دو بھائیوں نے مردہ بچے کو قبر سے نکالا اور اس بچے کے گوشت سے شکم سیر کیے وہ پہلے بھی پکڑے جاچکے تھے، معمولی سی سزا کے بعد پھر چھوڑ دیے گئے ایسے لوگوں کو تو فوراً گولی مار دینا چاہیے کہ ان کا اگلا نشانہ نہ جانے کون سا زندہ و مردہ انسان بنے، بہرحال گوشت خوروں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آدم خور بہت سے ملکوں میں پائے جاتے ہیں ہمارے ملک میں ایسے ایسے ضمیر فروش ہیں جو چوہے کا گوشت بھی فروخت کرنے سے باز نہ آئے، اور سموسے بھی چوہے کے گوشت سے بننے لگے جنھیں کھا کر طلباوطالبات بیمار پڑگئے۔
اس وقت ایک خاص نکتے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ آپ کسی بھی دکان سے مرغی کا گوشت خریدیں یا اپنے سامنے ذبح کرائیں، قصاب غلطی سے بھی اللہ اکبر نہیں کہتے اگر ٹوکا جائے تو فرماتے ہیں کہ دل میں پڑھ لیتے ہیں، عبادت یا کوئی بھی قرآنی آیات، کا منہ سے الفاظ کو ادا کرنا لازمی ہے، ورنہ عبادت قبول نہیں ہوتی، بے شمار لوگ ایسے ہیں جو منہ ہی منہ یا دل میں آیات ربانی کو ادا کرلیتے ہیں اور نماز پڑھتے وقت بھی ان کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ کیا ایسی عبادات کو اللہ تعالیٰ قبول کر لیتے ہیں ،یہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔
سورۃ المائدہ آیت 3 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ''مسلمانو! حرام تم پر کیا گیا ہے مردار اور خون اور سورکا گوشت اور وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے نامزد کردیا گیا ہو، اور جو گلا گھوٹنے سے مرگیا ہو اور جو چوٹ سے مرا ہو اور جو لڑھک کر مر جائے اور جو ٹکر سے مرجائے اور جسے زندہ درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ البتہ وہ حلال ہے جسے اس کے مرنے سے پہلے ذبح کرلیا ہو۔ اور جو کوئی بھوک سے مجبور ہو اور وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو اور حرام چیز کھالے تو اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے''۔
اور جس جانور پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے ہرگز نہ کھاؤ اور اس کا کھانا یقیناً نافرمانی کی بات ہے۔ (سورۃ انعام121)
ایک تو گوشت مہنگا ہے خصوصاً بکرے اور گائے کا، اب رہ گئی مرغی تو اسے بھی تین اور ساڑھے تین سو روپے کلو کردیا گیا ہے، مجبوری میں ہر چیز مہنگی خریدنی پڑتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اللہ اکبر کو ادا کیے بغیر ذبح کرنا مسلمانوں کے ساتھ بے حد زیادتی ہے اس طرح حلال چیز کو حرام کردیا گیا ہے اور ساتھ میں سخت ترین گناہ بھی۔
مسلمان کے لیے حرام چیز کو کھانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے لیکن اس زمانے میں مسلمان نام کے ہی ہیں وہ تکبیر کہے نہ کہے انھیں مسئلہ نہیں، بس کھانے سے مطلب ہے، حلال و حرام کے مسئلے سے قطع نظر بے شمار لوگ ایسے ہیں جو زیادہ سے زیادہ کھاتے ہیں رزق حلال ہو یا حرام انھیں کھانے سے مطلب ہے۔ اور بعد میں خوب پانی پیتے ہیں اور بیماری کو دعوت دیتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کھانے سے پہلے پانی پینا شفا ہے درمیان میں دوا اور آخر میں پانی پینا وبا ہے، لیکن ہم سب بے احتیاطی اور صحت کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ سے وباؤں کو اپنا مہمان بنا لیتے ہیں، بعض اوقات یہ ہی دکھ بیماری میزبان بن جاتے ہیں، دواؤں اور سرجری کے ذریعے ان کی خاطر مدارت کیے جائیے۔
ایک طرف گرانی کا زہر مفلوک الحال طبقے کی رگوں میں پہنچا دیا ہے تو دوسری طرف صاحب حیثیت کا یہ حال ہے کہ مرغن چیزیں کھانے سے باز نہیں آتے ہیں اور دن میں تین بار نہیں بلکہ ہر گھنٹے بعد کچھ نہ کچھ کھاتے ہی رہتے ہیں ۔ اپنے اس طرز سے وہ ڈاکٹروں کو اپنی رقم کا کثیر حصہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جب کہ کم خوراکی پر قطعی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اس حوالے سے شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ عجم کے ایک بادشاہ نے ایک عقلمند اور تجربہ کار طبیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا وہ حکیم صادق کئی برس تک دیارعرب میں مقیم رہا لیکن اس کے پاس علاج و معالجے کے لیے کوئی شخص نہ آیا۔
ان حالات میں وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا مسئلہ بیان کیا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی بھی مریض میرے پاس نہ آیا، اور میں جس خدمت کی غرض سے آیا تھا، اس سے محروم ہی رہا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے صاحب! اس جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ یہ جب تک بھوک کی شدت اور غلبہ نہ ہو وہ لوگ کچھ نہیں کھاتے ہیں اور جب کھانا کھانے بیٹھتے ہیں اور تھوڑی بھوک رہ جاتی ہے تو اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں، یہ سن کر عجمی حکیم نے کہا کہ یہی تو ان لوگوں کی تندرستی کا موجب ہے، تھوڑا کھانا بیماریوں سے جان چھڑانے کے مترادف ہے جب کہ بسیار خور محض منہ کے ذائقے اور زیادہ سے زیادہ کھانے کی ہوس کے باعث اپنی صحت گنوا دیتا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے وہی لوگ صبر وشکر کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں جو قناعت پسند ہیں۔ جنھیں دنیا جیسی حقیر شے کو حاصل کرنے کی تمنا نہیں ہے اور جو اس بات سے واقف ہیں کہ بے شک یہ دنیا تو ایک سرائے کی مانند ہے جہاں مسافر ایک رات، یا کئی دن رات قیام کرتا ہے اور آخر کار اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے۔ ہر شخص سوئے عدم خالی ہاتھ ہی روانہ ہوتا ہے، لیکن نادان ہیں وہ لوگ جو دنیا سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ مال و متاع جو اس نے بے ایمانی کرکے بنایا تھا دوسرے کی دولت کو ہتھیا لیا تھا۔ یتیم کے مال کو ہڑپ کرگیا تھا سب کچھ ادھر ہی رہ جائے گا اور وہ اس وقت بالکل تنہا ہوگا جب وہ اندھیری کوٹھری میں بند کردیا جائے گا اور کراماً کاتبین کے جوابات دینے میں اپنے آپ کو بے بس پائے گا۔ پھر اس وقت پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
بہتر یہی ہے کہ زندگی کے دکھ صبر وشکر کے ساتھ برداشت کرلینا چاہیے اور امانت و دیانت کو اپنانا ہی عقلمندی ہے۔
ہمارے ملک کے حکمران آخر کب تک مظلوموں کو ظلم کی چکی میں پیسیں گے اور ان کے منہ سے نوالہ چھیننے کا اہتمام کریں گے؟ حکومت جانے کے بعد وہ ہمیشہ برے ناموں سے یاد رکھے جاتے ہیں اور مخلوق خدا کی خدمت نہ کرکے گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔