معاشی صورتحال میں بہتری
گذشتہ دو سالوں سے روپے کی گراؤٹ نے پاکستانی عوام کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں
www.facebook.com/shah Naqvi
یہ بات خوش آیندہ ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کا دوسرا جائزہ منظور ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ کے بعد 7دسمبر کو 700ملین ڈالر کی دوسری قسط پاکستان کو مل جائے گی۔ گذشتہ چند دنوں سے دوبارہ روپے کی قدر میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔
گذشتہ دو سالوں سے روپے کی گراؤٹ نے پاکستانی عوام کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ لیکن اب ملکی معیشت میں بہتری کے اشارے دیکھنے میں آرہے ہیں اکتوبر کے مہینے میں ایکسپورٹس اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں 11فیصد اضافے کے باعث بیرونی قرضوں میں 7فیصد کمی آئی ہے۔
جو کم ہو کر 6230ارب پر آگئے ہیں۔ امید ہے کہ روپے کی قدر میں مزید بہتری آئے گی جب آئی ایم ایف کی طرف سے دسمبر کے پہلے ہفتے میں مزید امداد مل جائے گی۔ اس کے آثار ابھی سے نظر آنے لگے ہیں کہ اب روزانہ کے حساب سے روپیہ طاقتور اور ڈالر کمزور ہو رہا ہے۔ مقتدر حلقوں کی سرتوڑ کوشش سے جب سے افغانستان کو ڈالروں کی اسمگلنگ رکی ہے روپے نے ایک طویل عرصے کے بعد مضبوط ہونا شروع کیا ہے۔
امریکی جریدے بلوم برگ کے مطابق پاکستان سے روزانہ 50ملین ڈالر اسمگل ہو کر افغانستان جا رہے تھے۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے افغان معیشت کی حالت انتہائی دگر گوں ہے ۔ کیونکہ اس کی معیشت 30فیصد تک سکڑ چکی ہے۔ اور کم از کم 90فیصد افغان عوام خط غربت سے نیچے گر چکے ہیں۔
دوسرا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس اسمگلنگ کی وجہ سے بھی پاکستان کو ٹیکس کی مد میں ہزاروں ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ بہر حال اسمگلنگ غیر قانونی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر سختی سے قابو پانے سے پاکستانی معیشت دوبارہ سے سنبھلنا شروع اور روپیہ مضبوط ہونا شروع ہو گیا ہے۔
حکومتی کریک ڈاؤن اور ڈالر کی طلب میں کمی کی وجہ سے اس سال ستمبر میں فاریکس کمپنیوں نے 900ملین یعنی 90کروڑ ڈالر اسٹیٹ بینک کو فروخت کیے۔
ملکی ایکسپورٹس جس میں مسلسل کمی ہو رہی تھی اکتوبر کے مہینے میں بڑھ کر 2.7ارب ڈالر رہیں جو رواں مالی سال ایک مہینے میں سب سے زیادہ ہیں اسی دوران افراط زر میں بھی 4فیصد تک کمی آگئی جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے اپنی شرح سود 22فیصد پر برقرار رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج انڈیکس نے تاریخ کی بلند ترین سطح عبور کر لی ہے۔
ملکی ترسیلات زر جو ڈالر کے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹس میں 25-30 روپے کے فرق کے باعث بینکنگ چینل کی بجائے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے پاکستان آرہی تھیں۔ ہنڈی پر حکومتی کریک ڈاؤن کے باعث اکتوبر کے مہینے میں 12فیصد اضافے سے 2.5ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ترسیلات زر بھیجنے والے 6بڑے ممالک سے نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ سب سے زیادہ سعودی عرب سے ہوا۔ اس کے بعد بالترتیب متحدہ عرب امارات برطانیہ یورپی یونین اور امریکا ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر میں اضافے کی بنیادی وجہ غیر قانونی حوالہ اور ہنڈی کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن اور ڈالر کے بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹس کا فرق کم ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانی بینکنگ چینل کے ذریعے ترسیلات زر بھیجنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ترسیلات زر میں اضافے نے گذشتہ 10سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ریکارڈ کمی کی ہے ۔
جو ترسیلات زر میں مزید اضافے سے آنے والے مہینوں میں سرپلس ہو سکتا ہے یہ آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی ہے ۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے رئیل اسٹیٹ اور زرعی سیکٹر سے ٹیکسوں کی وصولی ،ریٹیلرز کو فکس ٹیکس نظام ، حکومتی اخراجات میں کمی اور آیندہ بجٹ میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے جب کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کے تحت گردشی قرضے کم کرنے کے لیے بجلی گیس اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے نرخوں میں اضافہ کر کے 400 ارب روپے کا بنیادی سرپلس حاصل کر لیا ہے۔
جب کہ تازہ ترین اطلاع کے مطابق پاکستان نے رواں مالی سال میں پٹرولیم لیوی وصولی کو مزید 920 ارب روپے تک بڑھانے کا آئی ایم ایف کے ساتھ وعدہ کیا ہے۔ جب کہ حکومت ہر لیٹر پٹرول اور ڈیزل پر 60روپے ٹیکس وصول کرتی ہے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پٹرولیم لیوی حکومت کے لیے ٹیکس وصولی کا واحد سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ آیندہ گرمیوں کا خوفناک تصور ذہن میں لائیں جب ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے ایک طرف ریکارڈ گرمی پڑے گی تو مہنگی بجلی گیس کے بل کیا قیامت نہیں ڈھائیں گے۔
رواں سردیوں میں بھی بل ہزاروں سے کم نہیں آئیں گے مسلسل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے۔