حریفانہ انتخابی سیاست

اگلے الیکشن میں کون جیتے گا یہ دعویٰ ابھی کوئی بھی نہیں کرسکتاہے


Dr Mansoor Norani November 27, 2023
[email protected]

جیسے جیسے انتخابات میں پولنگ کا دن قریب آتا جارہاہے سیاسی جوڑتوڑاورایک دوسرے کے خلاف زبانی الزام تراشیاں بڑھتی جارہی ہیں۔

یہ کوئی حیرانی اوراچنبھے کی بات نہیں ہے۔ سیاست میں ایساہوتا رہتا ہے۔سولہ مہینوں تک پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن ایک ساتھ پچھلی حکومت میں شامل رہے ، وہ ایک دوسرے کی تعریفیں بھی کرتے دکھائی دیے۔

میاں شہباز شریف، بلاول زرداری کی بطور وزیر خارجہ کارکردگی پرانھیں خراج تحسین پیش کرتے رہے اوراسی طرح بلاول زرداری بھی شہباز شریف کے لیے تحسین آمیز کلمات ادا کرتے رہے اوریہاںتک بھی کہہ دیا کہ سندھ کو بھی میاں شہبازشریف کی طرح وزیراعلیٰ ملنا چاہیے،مگر جیسے ہی وہ سولہ مہینوں کا دور ختم ہوا اورنئے الیکشن ہوتے نظر آنے لگے اچانک پیپلز پارٹی کے لوگوں کے بیانوں میں بھی تبدیلی نظر آنے لگی ، خود اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی ہر ایک کارنر میٹنگ میں مسلم لیگ نون کو نشانہ بنانے لگے ، جواب میں مسلم لیگیوں کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی کلمات اداہوتے دکھائی دینے لگے۔

رفتہ رفتہ اس میںشدت اور تلخی بھی بڑھنے لگی ہے۔ بلاول زرداری اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ بھی نہیں ہے۔ کارکردگی کے معاملے میں وہ مسلم لیگ نون کامقابلہ تو کرسکتے نہیں ہیں۔

لہٰذا صرف ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ کسی طرح مسلم لیگ نون کو اپنی تنقید و تنقیص کا نشانہ بناتے رہیں۔ویسے بھی آج کل سیاسی میدان میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے میدان اتناصاف اورستھرا نہیں ہے اور وہ فی الحال مقابلہ کرتی بھی نظر نہیں آرہی ہے تو ایسے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس PTIکے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا یہی ایک آسان طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کو ہی مختلف طریقوں سے اپنے نشانے پر لیتی رہے۔

صوبہ پنجاب میں تاحال صرف دوہی سیاسی پارٹیاں عوام میں مقبول نظر آتی ہیں ایک مسلم لیگ نون اوردوسری PTI ۔مگرچونکہ پی ٹی آئی اس وقت عملی سیاست میں کوئی متحرک رول اداکرتی دکھائی نہیں دے رہی ہے تو پیپلزپارٹی ایک دوسرے آپشن کے طور پرمسلم لیگ نون کے مخالف ووٹروں کی ہمدردیاں اپنے نام کرنے کے مشن پرگامزن ہے اوریہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتاہے جب وہ بھرپور طریقے سے مسلم لیگ نون پر حملے کرتی رہے۔

بلاول زرداری آج سے کچھ عرصہ پہلے تک اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ چونکہ PTI نو مئی کے واقعا ت کے بعد مکافات عمل کے دور سے گذر رہی ہے اورمسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نوازشریف اپنے خلاف مقدمات کی وجہ سے خود ساختہ جلاوطنی میں بیرون ملک رہ رہے ہیں تو اُن کے لیے اسلام آباد کی حکومت حاصل کرلینا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ اُن دنوں ہمارے سیاسی مبصروں اورتجزیہ نگاروں کی رائے بھی کچھ اسی طرح کی تھی۔

آصف علی زرداری جو سیاسی جوڑتوڑ اورمفاہمت کے بادشاہ تصور کیے جاتے رہے ہیں یہ کہتے ہوئے بھی دکھائی دیے کہ اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوگا،مگر جیسے جیسے حالات نے کروٹیں بدلناشروع کی بلاول بھٹو کچھ مایوس ہونے لگے اوروہ پہلے لیول پلیئنگ فیلڈکاکارڈ استعمال کرنے لگے اور اب بابوں کی سیاست کے بارے میں تقریریں کرنے لگے۔حالانکہ لیول پلیئنگ فیلڈ کامسئلہ تو اس وقت PTI کو درپیش ہے نہ کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو۔ اور اسی طرح بابوں کی سیاست کے خلاف بھی اُن کے بیان سے جتنا مسلم لیگ متاثر ہوسکتی ہے اتنا خود اُن کے اپنی پارٹی کے بابے متاثر ہوسکتے ہیں۔

کیا بلاول بھٹو اپنی پارٹی کے بابوں کو اس بار الیکشن میں لڑنے کا ٹکٹ نہیں دینگے ۔جب کہ آصف علی زرداری نے حال ہی میں اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں یہ بات مکمل طور پرواضح کردی ہے کہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ صرف وہی دینگے ، بلکہ جناب بلاول زرداری بھی اپنے لیے ٹکٹ اسی بابا سے حاصل کرینگے۔وہ دراصل بابے کا لفظ استعمال کرکے ایک طرف میاں نوازشریف کو نشانہ بناناچاہتے ہیں تو دوسری طرف مولانافضل الرحمن کو۔ مولانا اگر اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت میں کھڑے ہوتے تو بلاول ایسا بیان شاید ہرگز نہ دیتے۔

فروری 2024 کے انتخابات کون جیتے گایہ ابھی واضح نہیں ہے۔مسلم لیگ نون کے اندر جو قوت اور گرمی میاں نوازشریف کے واپس آجانے سے پیدا ہوئی ہے اس کو دیکھ کریہ گمان ہونے لگاہے کہ وہ اگلاالیکشن جیت جائے گی، حالانکہ آصف علی زرداری نے اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرواکے میاں شہباز شریف کو اس لیے وزیراعظم بنوایاتھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اُس وقت ملکی معیشت کا جو حال تھا ایسے میں جو بھی شخص یہ ذمے داری سنبھالے گاعوام کے غیض وغضب کانشانہ بنے گااورہوا بھی یونہی، لوگ مہنگائی اوربیروزگاری سے تنگ آکر PTI کی بجائے مسلم لیگ نون کو برابھلا کہنے لگے۔ پیپلز پارٹی قائدین نے اپنی دانست میں ایک تیر سے دو شکار کیے تھے اورجس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے۔

عوام کی ایک بڑی تعداد مسلم لیگ نون سے دور ہوتی گئی اوراس کے لیے سیاسی میدان میں قدم جمانا ممکن دکھائی نہیں دے رہاتھا۔یہی وجہ ہے کہ زرداری یہ دعوے کرنے لگے کہ اگلا وزیراعظم بلاول ہوگا۔

اس وقت کسی کو بھی معلوم نہ تھاکہ ہواؤں کارخ اس طرح اچانک بدل جائے گا کہ زرداری صاحب بلوچستان کے جن سیاستدانوں پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے کہ اگلے انتخابات میں وہ اُنکی جھولی میں آگریں گے وہ سب کے سب مسلم لیگ نون سے جاملے ہیں۔ایسا ہی کچھ جنوبی پنجاب میں بھی دیکھاجارہا ہے۔ جو سیاسی مفاہمت اورسیاسی جوڑ توڑ کبھی آصف علی زرداری کامشغلہ ہواکرتاتھا آج وہ میاں نوازشریف کامشغلہ بن گیا ہے۔

سندھ صوبے میں بھی اس نے متحدہ اورGDA کے ساتھ اپنے رابطے مستحکم کرلیے ہیں ۔شاید اسی لیے بلاول زرداری بطور وزیراعظم اپنے مستقبل سے مایوس نظر آرہے ہیں۔

حالانکہ اُنکے پاس ابھی بہت وقت ہے۔ وہ ایک جواں سال سیاستدان ہیں اوریہ منصب سنبھالنے کے لیے اُن کے پاس بڑی عمر باقی ہے۔وہ ذرا صبر سے کام لیں اورمثبت سیاست کے ساتھ ساتھ سندھ صوبے میں کچھ کرکے دکھائیں تو جو مقبولیت میاں شہبازشریف کو پنجاب میں کارکردگی کی بدولت حاصل ہوئی ہے وہ بلاول بھٹو کے حصہ میں آسکتی ہے۔

اندرون سندھ کا جو حال ہے وہ وہاں کے باسی ہی جان سکتے ہیں۔ نہ سڑکیں ہیں، نہ اسکول اورنہ معیاری اسپتال ہیں۔ عوام انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔صرف NICVDاورگمبٹ اسپتال کی حالت بہتر کرلینے سے پندرہ بیس سالوں کی ناقص کارکردگی کا ازالہ نہیں ہوسکتاہے۔

اگلے الیکشن میں کون جیتے گا یہ دعویٰ ابھی کوئی بھی نہیں کرسکتاہے۔ دوماہ میں کیسی کیسی انہونیاں ممکن ہوسکتی ہیں اس وقت کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔ خود مسلم لیگ نون بھی اس خوش فہمی میں نہیں ہے۔

وہ اسی لیے دیگر سیاسی گروپوں سے اتحاد کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ نادیدہ قوتیں اگر اُن کے ساتھ کھڑی ہوتیں جیسے اُن کے مخالف سمجھتے اورکہتے دکھائی دیتے ہیں تو پھر اُنہیں یہ سب جتن کرنے کی کیاضرورت ہوتی۔ابھی بھی وقت ہے اورکب کس وقت پانسا پلٹ جائے کوئی کہہ نہیں سکتاہے،تمام پارٹیوں کے لیے میدان کھلا ہوا ہے۔ویسے بھی جو الیکشن جیتے گا اس کے لیے اِن کٹھن حالات میں حکومت کرنا اتنا سہل اورآسان بھی نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں