نواب زادہ نصراللہ سیاست میں تہذیب کی اعلیٰ مثال پہلا حصہ
نواب زادہ صاحب بھرپور انداز میں اپنا موقف پیش کرتے وقت بھی اپنے مخالف کا نام بڑے احترام سے لیا کرتے تھے
ہماری سیاسی تاریخ کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ ملک کے وجود میں آنے کے بعد سے سیاسی محاذ آرائی اور ٹکراؤ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک ختم نہیں ہوسکا ہے۔
تخلیق پاکستان کے فوراً بعد مشرقی بازو یعنی مشرقی پاکستان میں بے چینی کا آغاز ہوا۔ ابتداء زبان کے مسئلے سے ہوئی۔ کئی برسوں تک بنگالی زبان کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان تسلیم نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں نو تشکیل ریاست کے دونوں بازو ایک دوسرے سے متصادم ہوگئے۔
بہت سی جانوں کے اتلاف کے بعد بالاخر بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینا پڑا۔ یہ مسئلہ تو حل ہوگیا لیکن اس کے نتیجے میں جو سیاسی محاذ آرائی پیدا ہوئی وہ 1971میں پاکستان کے دو لخت ہونے پر اپنے انجام کو پہنچی۔ امید یہی تھی کہ اس بڑے المیے سے سبق سیکھ کر سیاسی ٹکراؤ کے اسباب ختم کر دیے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
جمہوریت کی نفی، سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے جسے ایک حقیقی وفاقی جمہوری نظام کو مستحکم بنا کر ختم کیا جاسکتا ہے۔ 1971 کے بعد باقی ماندہ یعنی موجودہ پاکستان میں کبھی وفاقی جمہوری نظام کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا جس کے نتیجے میں اس سیاسی محاذ آرائی اور عدم رواداری کا خاتمہ نہیں ہوسکا جس کا آغاز 1947 سے ہی ہوگیا تھا۔
پچھلے چند برسوں میں سیاست میں عدم برداشت، نفرت اور شدید تقسیم کا ایسا خطرناک رجحان پیدا ہوا ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ ایک ایسا پرخطر دور ہے جس میں ریاست کے ہر ادارے اور طبقے بالخصوص نوجوانوں میں سیاسی انتہا پسندی عروج پر پہنچی نظر آتی ہے۔
متذکرہ بالا ماحول میں اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہیے کہ پاکستان کے سیاستدانوں نے مشکل ترین ادوار میں بھی برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کیا اور سیاسی اخلاقیات کی ہمیشہ پاسداری کی۔ اس حوالے سے میں نواب زادہ نصر اللہ خان کی مثال اپنے نوجوانوں، سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کے سامنے پیش کرنا چاہوں گی۔ نواب زادہ نصراللہ خان سیاست میں تہذیب اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ایک مثالی نمونہ تھے۔
ان کے نزدیک سیاست عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ ان کا ایمان تھا کہ سیاست شرافت اور شائستگی کا نام ہے۔ ان کی شخصیت بھی تہذیب، تدبر، معاملہ فہمی اور شائستگی کا بے مثال نمونہ تھی۔ وہ پاکستان کے ان قومی سیاسی رہنماؤں میں تھے جنھوں نے حد سے بڑھی محاذ آرائی اور سیاسی کشیدگی کے ماحول میں بھی اپنے بدترین سیاسی مخالف کے لیے کوئی نازیبا بات نہیں کہی۔
ہمارے نوجوان سیاسی کارکن ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نواب زادہ صاحب بھرپور انداز میں اپنا موقف پیش کرتے وقت بھی اپنے مخالف کا نام بڑے احترام سے لیا کرتے تھے یہ جان کر آپ کو شاید حیرت ہوگی کہ انھوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کسی پر کبھی کوئی تہمت نہیں لگائی۔
وہ اپنے دور کے ہر آمر کے خلاف ڈٹ گئے اور تمام سیاسی تحریکوں میں بھرپورکردار ادا کیا۔ جنرل ایوب خان کی جانب سے جب سیاستدانوں کی گول میزکانفرنس بلائی گئی تو اس کانفرنس میں نواب زادہ نصراللہ نے حزب اختلاف کی قیادت کی تھی۔
یہ وہ کانفرنس تھی جس میں مولانا مودودی، چوہدری محمد علی اور شیخ مجیب الرحمان سمیت ملک کے تمام بڑے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ جنرل ایوب کے خلاف جب محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑا تو انھوں نے مادر ملت کی انتخابی مہم کی سرکردگی کی ۔
جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو انھوں نے بحالی جمہوریت کی تحریک ( ایم آر ڈی) کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایم آر ڈی میں ان تمام سیاسی جماعتوں کو متحد کر دیا تھا جو ماضی میں پیپلز پارٹی کی بدترین مخالف تھیں۔
ان کے سیاسی تدبر اور دانش کی مثال یہ تھی جنرل مشرف نے جب 12 اکتوبر 1999 کو منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تو انھوں نے اے آر ڈی ( اتحاد برائے بحالی جمہوریت) تشکیل دی اور اس وقت کے دو سب سے بڑے سیاسی حریفوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اور جب بھی اس اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے کئی مرتبہ استعفیٰ دے کر دباؤ ڈالا اور اے آر ڈی کو مضبوط سیاسی اتحاد بنا دیا۔
یہ بات بھی یاد دلانی ضروری ہے کہ نواب زادہ صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی۔ وہ خفیہ اور پس پردہ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار ان سے خفیہ مذاکرات کرنے چاہے تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ '' جمہوریت پر شب خون مارنے والوں سے رات کی تاریکی میں نہیں مل سکتا اور کوئی بات قوم سے نہیں چھپا سکتا، جو کہنا ہے سب کے سامنے کہو۔''
سیاست ایک ایسا خار زار ہے جہاں بڑے بڑوں کے دامن الجھتے دیکھے ہیں، لیکن کچھ بڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان کانٹوں بھری راہ سے بھی اپنے آپ کو سلامت نکال لے جاتے ہیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان ایسے ہی قدآور سیاستدان اور انسان تھے۔ جس مسند سے وہ اٹھ کر گئے وہاں اب کوئی دوسرا نہیں بیٹھ سکتا، بیٹھے بھی کیسے کہ کوئی ان جیسا ہی نہیں۔ ہمارے یہاں سیاست دانوں کا قامت عموماً ان کے منصب سے متعین ہوتا ہے۔
یہ حساب لگایا جاتا ہے کہ موصوف کتنی مرتبہ وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ یا کم از کم وزیر بے قلم دان ہوئے۔ اور اگر یہ بھی گرہ میں نہیں تو پھر کم سے کم مجلس شوریٰ کی رکنیت اور سینیٹ کے رکن ہونے کو ہی بڑی بات سمجھا جاتا ہے۔
ان تمام معاملات کے برعکس نواب زادہ نہ کبھی وزیر ہوئے نہ مشیر یا سفیر رہے۔ انھوں نے نہ کبھی گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا اور نہ کبھی ان کے لیے توپوں کی سلامی ہوئی، نہ ان کے ساتھ بندوق بردار محافظ چلے اور نہ جاہ و حشم سے ان کا علاقہ تھا۔
اپنے علاقے خان گڑھ میں ہوتے تو پلنگ، مونڈھے، کرسی یا صوفے پر بیٹھے آنے والوں کی مدارات موسم کے پھل، شربت، چائے، کافی اور انواع و اقسام کے کھانوں سے کرتے۔ گھر سے باہر جاتے تو ایک حقہ بردار ساتھ ہوتا۔ میزبان جہاں بٹھاتا وہیں بیٹھ جاتے، کسی کروفر اور شان و شکوہ کے بغیر وہ جگہ ان کے وجود سے سج جاتی۔
ان کی جوانی کا جوش احراری سیاست کی نذر ہوا۔ برطانوی سامراج کو ہندوستان سے نکالنا ان کا اور دوسرے احراریوں کا اور بہت سی سیاسی جماعتوں کی زندگی کا مقصد تھا۔ نوجوان نواب زادہ نے صعوبتیں سہیں، جیل گئے۔ خان گڑھ کے نوابوں کا چشم و چراغ تھے۔
ان کے بزرگوں نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ان کالخت جگر، نور نظر جیل کی کال کوٹھریوں کا روشن چراغ بن جائے گا۔ ان کے مزاج میں انحراف تھا۔ خمیر میں تھا کہ ہمیشہ حزب اختلاف میں رہیں۔ سو آزادی کے بعد بھی لیلیٰ اقدار سے ان کا کبھی وصل و وصال نہ ہوا۔
ایوب خان کے عہد سے آخری سانس تک ان کی زندگی آمریت سے لڑتے ہوئے گزری۔ وہ جمہوریت کی زلفِ گرہ کے اسیر تھے اور اسی کی آرزو کرتے ہوئے رخصت ہوئے کہ وہ سیاست دانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو سیاست کو عبادت تصور کرتی تھی۔
ان لوگوں کے لیے عام آدمی کے دکھ میں شرکت اور اس کی خدمت کا ذریعہ سیاست تھی۔ یہ لوگ جو برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے انھوں نے سیاسی جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ رقم کی۔ یہ وضع دار اور دلدار لوگ اب عنقا ہیں۔ نواب زادہ اس نسل کے آخری فرد تھے ۔ (جاری ہے)