ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
لاہور آرٹ کونسل میں اب کے جو کانفرنس منعقد ہوئی ہے وہ عجب ہے۔
لاہور آرٹ کونسل میں اب کے جو کانفرنس منعقد ہوئی ہے وہ عجب ہے۔ کتنا عجب موضوع گفتگو ہے ''بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں۔'' ایک دل جلے شاعر نے تو یہی کہا تھا کہ ع
یاد نہ کر دل حزیں گزری ہوئی کہانیاں
لیکن دل حزیں کہاں باز آتا ہے۔ ہر پھر کر وہی گردان کہ ع
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
سو یار اس شان سے کانفرنس میں پہنچے کہ ان کی گودیں بیتی باتوں، گزری ہوئی وارداتوں اور نرالے تجزیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ یادوں کا ایک انبار لگ گیا کہ ان کا سمیٹنا مشکل ہو گیا۔ اور یادوں کا معاملہ یہ ہے کہ ع
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
لیکن یہاں کوئی دل عاشق بننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بیتے ہوئے دن سمٹنے کے لیے آمادہ ہی نہیں تھے۔ چھیڑنے کی دیر تھی پھر کیا تھا۔ جاری ہونے والے اس طرح جاری ہوئے کہ یادوں کا بیان شیطان کی آنت بن گیا۔ منتظم بے بس نظر آئے۔ کس کس کو روکیں اور کیسے روکیں کہ للہ بس کرو۔ سن لی تمہاری رام کہانی۔
اور سنانے والوں میں خالی ادیب تھوڑا ہی تھے۔ بلکہ ادیب تو کف افسوس ملتے ہی رہ گئے۔ وہ دوسرے تھے جنھیں آج بولنے اگلنے کا موقع ملا تھا۔ وہ اس موقعہ کو ہاتھ سے کیسے جانے دیتے۔ ادیب تو اپنی شاعری میں' اپنے افسانوں ناولوں میں اپنی آپ بیتیوں میں یہ کاروبار کرتے ہی رہتے ہیں لیکن سرکاری افسروں کو کب کب یہ موقعہ میسر آتا ہے۔ ہر شعبہ کا اور ہر محکمہ کا کوئی نہ کوئی دانہ یہاں موجود تھا اور چٹر بٹر کر رہا تھا۔ اب پتہ چلا کہ کسی عاقبت اندیش شاعر نے یاد ماضی کو عذاب کیوں گردانا تھا۔
ویسے ایسے موقعے کب کب آتے ہیں۔ کب کب ایسی تقریب پیدا ہوتی ہے کہ یار اکٹھے ہوں ہنسیں بولیں' اپنی کہیں دوسروں کی سنیں۔ یہ جو آجکل سیمیناروں' کانفرنسوں اور لٹریچر فیسٹیول نام کے اجتماعات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور کیسے زمانے میں شروع ہوا ہے جب دل زدوں کو اپنی جانوں کی پڑی ہوئی ہے۔ روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے' اور نیا گُل کِھلتا ہے۔ اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے' کیا ہونے والا ہے۔ ایسے میں ع
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
ادب کیا بیچتا ہے۔ شاعری کی کیا قیمت رہ گئی ہے۔ مگر عجائبات میں ایک عجوبہ یہ بھی ہے اور بہت بڑا عجوبہ کہ انھیں قیامتوں کے بیچ ادب کی محفلیں اتنی زور شور سے سجنی شروع ہوئی ہیں کہ ہر سیمینار اور ہر کانفرنس سچ مچ بین الاقوامی کانفرنس بن جاتی ہے۔ ذرا ان دنوں آرٹ کونسل میں جا کر دیکھو کہ کہاں کہاں سے پنچھی اڑ کر آئے ہیں اور اپنے اپنے رنگ سے چہک رہے ہیں' دلی سے' علی گڑھ سے' مشرقی پنجاب سے۔ اور پھر پاکستان کے قریب و دور مقامات سے۔ کراچی سے اتنے مہمان ہماری کانفرنسوں میں کب آ کر شریک ہوئے تھے۔ اب کے تو قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
پروفیسر سحر انصاری' انور شعور' مبین مرزا۔ بیبیوں کی قطار الگ زاہدہ حنا' فاطمہ حسن اور فاطمہ حسن کو محض فاطمہ حسن مت جانو۔ اب وہ جمیل الدین عالی ثانی بھی ہیں۔ بات یہ ہے پاکستان میں آ کر انجمن ترقی اردو کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کی بابائیت تو تھوڑے ہی دنوں میسر آئی۔ وہ گزر گئے تو پھر جمیل الدین عالی انجمن سے اس طرح پیوست ہوئے کہ وہ بابائے اردو نظر آنے لگے۔ اب وہ گوشہ نشین ہوئے ہیں تو فاطمہ حسن کو انھوں نے اپنی گدی سونپی ہے۔ تو آپ وہ فاطمہ حسن بھی ہیں اور جمیل الدین عالی ثانی بھی ہیں۔
ارے لیجیے ہم دلی اور علی گڑھ کے مہمانوں کو تو بھولے ہی جا رہے ہیں۔ دلی سے شمیم حنفی۔ ادھر علی گڑھ سے پروفیسر ابوالکلام قاسمی۔ وہ بھی نقاد یہ بھی نقاد۔ یک نہ شد دو شد۔ اصل میں اردو تنقید تو فی زمانہ ہندوستان ہی میں کچھ زیادہ زور دکھا رہی ہے۔
مگر ہم کہاں تک نام گناتے چلے جائیں۔ نام بہت ہیں۔ گننے کے لیے ہمارے پاس انگلیاں صرف دس ہیں۔ اور پھر مہمانوں کی ریل پیل اتنی ہے کہ ہر چہرہ نظر بھی نہیں آتا۔ جو نظر آ جاتا ہے وہ دم کے دم میں اوجھل ہو جاتا ہے۔ بھیڑ کی زد میں آ کر پھسلتا پھسلتا کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے۔
اور مقامیوں میں کوئی ملتان سے' کوئی بہاولپور سے' کوئی اسلام آباد سے پھر کوئی خیبرپختوں خوا سے' کوئی بلوچستان سے۔
سب اپنی اپنی یادوں سے اس طرح پُر ہیں راگ سے جیسے باجا۔ اور ابھی جیسا کہ عرض کیا کہ جس کی باری آتی ہے وہ ابلنے لگتا ہے اور اگلنا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارا آپ کا بچائو اس میں ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی کئی سیشن ہوتے ہیں۔ ہم کسی ایک ہی سیشن میں شرکت کر سکتے ہیں سو کرتے رہے ہیں۔ باقی جو متوازی اجلاسوں میں یادوں کا سیلاب امنڈ رہا ہوتا ہے اس سے محروم رہتے ہیں یا محفوظ۔ جو بھی سمجھو۔ اپنے اپنے رویے پر موقوف ہے۔ مگر ایک سیشن ایسا ہوا کہ اس میں تین سیشن جنھیں الگ الگ ایوانوں میں منعقد ہونا تھا یکجا کر دیا گیا۔ ہم اسی سیشن کی زد میں تھے۔ یعنی یادوں کے تین سیلاب اور ہماری اکیلی جان ناتواں اور سننے کے لیے صرف د کان۔
پھر وہی ہوا جو ایسے ہنگامہ پرور موقعوں پر ہوتا ہے۔ جن مقرروں یا مقالہ نگاروں کو یہ سمجھ کر محفوظ رکھا جاتا ہے کہ اس قیمتی مال کو آخر میں لائیں گے مگر آخر میں آ کر وقت کی قلت اتنی ہوتی ہے کہ اس مال کی قیمت خود بخود گر جاتی ہے۔ اب ہوا یہ کہ ان آخری لمحات میں جب شمیم حنفی نے اپنی یادوں کا بستہ کھولا ہوا تھا وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید کا ورود مسعود ہوا۔ ہر چند کہ شمیم حنفی اپنے پالے پر جمے رہے مگر رنگ محفل بدل چکا تھا۔ میڈیا والے کس کس گوشے سے نمودار ہوئے اور اسٹیج کی طرف امنڈ پڑے۔ کیمروں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ رپورٹروں نے اپنے قلم نکال لیے۔ سب گوش بر آواز۔ اور وہ جو سامعین اتنی دیر سے قطار اندر قطار بیٹھے تھے یک قلم ان کی حیثیت صفر ہو گئی۔
یہ نشست بہت لمبی کھنچی تھی اور اب تھکن کا شکار تھی لیکن آخری لمحوں میں کس طرح ایک نئی زندگی پیدا ہوئی ہے اور حرارت کی ایک نئی لہر۔ سو تقریب ایک گرما گرمی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی۔
کام وہ اچھا ہے جس کا کہ مآل اچھا ہے