غذائی درآمدات اور ان کی قیمت
یہاں قیمت میں اضافے یا کمی کا تعلق عالمی منڈی سے نہیں ہے
دکاندار سے کوکنگ آئل خرید رہا تھا کہ اس نے آگاہ کیا کہ 10 روپے فی لیٹرکا اضافہ ہو چکا ہے۔ مجھے تھوڑی سی حیرت ہوئی کہ اعداد و شمار تو کسی اور جانب اشارہ کر رہے ہیں، پھر ذہن میں گندم کے درآمدی اعداد و شمار نمایاں ہونے لگے کہ شاید آٹے کی قیمت میں کمی ہوئی ہو۔
چکی کے مالک سے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ دالوں کی درآمدی قیمت بھی کمی کا اشارہ کر رہی تھی، لیکن دکاندار دال کی قیمت کے معاملے میں ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ اب ہم ان قیمتوں کے درآمدی اعداد و شمار کو دیکھ لیتے ہیں۔
رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں کل 10 لاکھ 16 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر 96 کروڑ 43 لاکھ ڈالرز صرف ہوئے اور گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں 9 لاکھ 48 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر اخراجات کا تخمینہ ایک ارب 40 کروڑ 66 لاکھ ڈالر کا رہا اور یوں 44 کروڑ ڈالر کی بچت ہوئی، جب کہ بلحاظ مقدار 7.18 فی صد اضافی درآمد بھی کر لی اور یوں بلحاظ مالیت 31.45 فی صد کمی نوٹ کی گئی۔
اتنی کمی کے باوجود پاکستان کے غریب عوام کا کچھ نہ کچھ حق تو بنتا ہے کہ قیمت کم کی جاتی لیکن یہاں تو 10 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس طرح اربوں روپے کون لے اڑتا ہے، حکام بھی اس سے بے خبر ہیں۔
اب دال کا احوال ملاحظہ فرمائیں۔ ایک زمانہ تھا جب دال کو غریبوں کے گھر پر ہی جگہ ملتی تھی۔ اب تو دالیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ امیر بھی فخر سے دال پکواتا ہے۔
رواں مالی سال کے جولائی تا اکتوبر تک دالوں کی درآمدی مقدار 5 لاکھ 18 ہزار میٹرک ٹن رہی جس پر 32 کروڑ11 لاکھ 40 ہزار ڈالرز خرچ ہوئے اس کے بالمقابل گزشتہ سال جولائی تا اکتوبر دالوں کی درآمدی مقدار رہی 4 لاکھ 54 ہزار میٹرک ٹن جس پر اخراجات آئے 34 کروڑ85 لاکھ 43 ہزار ڈالرز اور یوں بلحاظ مقدار 14 فی صد اضافہ اور اضافی مقدار کے باوجود ادائیگی میں 8 فی صد کمی تو ببانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہے لیکن یہ کیسا تضاد ہے کہ دنیا میں قیمت کم ہو رہی ہے اور ملک میں جب غریب کے ساتھ امیر بھی اب گوشت کی طرف نہیں دیکھ رہا تو عوام کے لیے دالوں کی قیمت میں اضافہ کرنا یا کمی نہ کرنا آخر اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے۔
اگرچہ دالوں کی کھپت میں ملکی دالوں کی پیداوار کا زیادہ حصہ ہے، لیکن پھر بھی ہر سال 20 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد دالوں کی درآمد بھی ایک المیہ ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایسی زرعی پالیسی نافذ نہیں ہوسکی جسے کسان دوست کہا جائے، آخر اس وقت بھی کیا ہو رہا ہے؟ کھاد کی مصنوعی قلت پیدا کردی گئی ہے، گندم کے بیج بو دیے گئے اور اب اگر کھاد دستیاب نہیں ہوگی تو بمپر فصل کیسے حاصل ہوگی؟ ہمارے یہاں زرعی پلاننگ تو نہیں ہوتی لیکن آیندہ کے لیے مہنگائی کی پلاننگ ہو جاتی ہے۔
یعنی جب کھاد کی اشد ضرورت ہے پورے ملک میں اس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے آیندہ گندم کی بھرپور فصل سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف ہے اور پھر آیندہ مالی سال دھڑا دھڑ گندم درآمد ہوگی۔ ادھر ملک میں پھر گندم کی عارضی قلت پیدا کرکے دام بڑھا دیے جائیں گے۔ ایک دفعہ قیمت بڑھ جائے تو پھرکون گھٹاتا ہے کیونکہ یہاں ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔
جولائی 2022 تا اکتوبر 2022 کے دوران گیارہ لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد جس پر اخراجات آئے تھے 46 کروڑ6 لاکھ ڈالرز اور اس کے بالمقابل موجودہ مال سال یعنی جولائی 23 تا اکتوبر 2023 تک گندم کی درآمدی مقدار رہی 5 لاکھ 57 ہزار میٹرک ٹن جس پر اخراجات آئے، 16 کروڑ66 لاکھ 33ہزار ڈالرز اس کو تھوڑا یوں سمجھ لیتے ہیں کہ ساڑھے پانچ لاکھ ٹن گندم سے دگنی گندم گزشتہ مالی سال منگوائی تھی تو ادا کیے تھے 46 کروڑ ڈالر اور اس مرتبہ اگر درآمد کرتے تو ساڑھے 16 کروڑ کو بھی دگنا کر لیں یعنی 33 کروڑ ڈالر۔ صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ 13 کروڑ ڈالر کم ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ قیمت میں زبردست کمی ہوئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ملکی کھپت کا یہ معمولی حصہ ہے لیکن یہ مجموعے میں شامل ہو کر چکی آٹے کی قیمت کو 170 روپے فی کلو سے کم کر سکتی ہے، لیکن پاکستان میں کچھ عناصر کچھ حلقے ایسے ہیں جوکہ عالمی منڈی میں کسی بھی شے کی قیمت میں اضافے کو درآمدی مال پہنچنے سے پہلے ہی اضافی قیمت لاگو کر دیتے ہیں، لیکن کمی کو نافذ نہیں ہونے دیتے۔
اہل پاکستان ہر موقع پر درآمدی اشیا کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ عالمی منڈی میں قیمت بڑھ گئی لہٰذا بچوں کے لیے بند ڈبوں کے دودھ سے لے کر دالیں، گندم، کوکنگ آئل، چائے کی پتی، خشک میوہ جات یہاں تک کہ سینیٹری پائپ، ہارڈویئرکی بعض اشیا کے دام بڑھ جاتے ہیں۔
بس ایک ہی بات کہہ دی جاتی ہے کہ عالمی مارکیٹ عالمی منڈی میں قیمت بڑھ گئی یا پھر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اب اس کے امپورٹ کے دام بڑھ گئے ہیں حالانکہ دام بڑھنے کے بعد ابھی تک بڑھی ہوئی قیمت پر مال درآمد بھی نہیں کیا گیا، لیکن ملک میں قیمت میں اس طرح اضافے کو روکنے کے لیے، کنٹرول کرنے کے لیے، کوئی پرائس میکنزم پالیسی نہیں ہے۔
معلوم یہ ہوا کہ یہاں قیمت میں اضافے یا کمی کا تعلق عالمی منڈی سے نہیں ہے۔ بس طلب دیکھی جاتی ہے اس وقت کھاد کی طلب ہے، پریشان حال کسان کی ضرورت کھاد ہے، کیونکہ اس کے کھیتوں کی جان کھاد ہے لہٰذا مصنوعی قلت پیدا کردی گئی اور دام بڑھ گئے۔ آٹے کی قیمت کم نہیں ہوئی کیونکہ اس کی طلب میں قیمت میں اضافے کا کوئی اثر نہ ہوگا۔
کوکنگ آئل جنھوں نے جتنا خریدنا ہے وہ خریدیں گے۔ دالوں کی قیمت پچھلے سال کم تھی اب زیادہ ہے تو طلب میں کھپت میں کمی تو نہیں ہوئی کیونکہ غریب کے ساتھ اب امیر بھی دال کھا رہے ہیں، کیونکہ کھانا تو ہے کھائیں گے نہیں تو زندہ کیسے رہیں گے۔ اس طرح اربوں روپے غریب عوام کی جیب سے نکال لیے جاتے ہیں پھر بھی ان کے پیٹ نہیں بھرتے جب کہ غریب آدھی روٹی کھا کر دو گلاس پانی پی کر بھی اپنا پیٹ بھر لیتا ہے۔