انتخابات تاریخ کے تناظر میں
ہماری جمہوریت دراصل ہمارا ہی عکس ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہماری جمہوریت ہے
اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ ہم انتخابات کی طرف جارہے ہیں۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو 1970 کی دہائی میں ہونے والے انتخابات میں بالکل بھی اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان سے اس قدر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کریں گے۔ ان کی اطلاعات یہ تھیں کہ جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی نشستوں میں کوئی انیس، بیس کا ہی فرق ہوگا۔
عوامی لیگ کے بعد جماعتِ اسلامی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ضرور مگر انتخابات میں نشستیں حاصل نہ کرسکی۔ حالات کچھ اس طرح تبدیل ہوئے کہ عام انتخابات سے قبل شیخ مجیب نے مغربی پاکستان کا دورہ کیا تھا، وہ مشرقی پاکستان واپس گئے، اس دوران سمندری طوفان آیا جو بنگال کی تاریخ کا شاید بھیانک ترین طوفان تھا جس کی وجہ سے وہاں بڑے پیمانے پر تباہی آئی۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے اور لا کھوں لوگ بے گھر ہوئے۔
عوامی لیگ نے بڑی ہوشیاری سے یہ بیانیہ پروان چڑھایا کہ جنرل یحییٰ کی آمریت نے بنگالیوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ عوامی لیگ کا یہ بیانیہ برق رفتاری سے پھیلا۔ شاید اس میں حقیقت کو زیادہ بڑھا دیا گیا تھا۔ شیخ مجیب پہلے اگرتلہ کیس میں سیاسی منظر پرابھر کر سامنے آئے ، پھر وہ بڑے لیڈرکے طور پر عوام میں مقبول ہوئے۔ اس تاریخی پسِ منظر کا ہمیں بغور جائزہ لینا چاہیے کہ سترکی دہائی میں انتخابات ہوئے، مگر مغربی پاکستان پر قابض یحیٰ خان آمریت نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا ۔
اس سے پہلے کہ اس ڈورکو مزید الجھائیں، پاکستان کی سیاسی حالات کی طرف آتے ہیں۔کیا موجودہ انتخابات مزید ملتوی کیے جا سکتے ہیں؟ جی بالکل کیے تو جاسکتے ہیں مگر سپریم کورٹ کو آن بورڈ لیے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں اور اگرکیے بھی جائیں تو انتہائی مختصر مدت کے لیے ہی کیے جاسکتے ہیں۔ صرف 2007 میں انتخابات کو ملتوی کیا گیا تھا وہ بھی مختصر عرصے کے لیے، کیونکہ الیکشن مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوگئی تھی۔ اس وقت انتخابات کا ملتوی ہونا اتنا بڑا اپ سیٹ نہ تھا اور نہ ہی مشرقی یا مغربی پاکستان جیسا کوئی تضاد موجود ہے۔
1970 کے بعد پنجاب پہلی بار پنجاب بمقابلہ پنجاب تھا، ایک طرف جمہوری قوتیں نہیں جو آمرانہ طاقتوں سے نبرد آزما ہوں اور دوسری طرف آمرانہ سوچ کے حامل بااثر طبقے جن کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست تھیں اور جو افغان پالیسی کا تسلسل تھیں۔ اب ان کی سیاست کو کنٹرول کرنے کی طاقت کمزور ہوئی ہے، لہٰذا ایسا نظر آرہا ہے کہ میاں نوازشریف اس ملک کے نئے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں۔
عمران خان کی سیاسی قیادت ملک کو تباہی کے دہانے تک لے آئی۔ یقینا ان کی پاپولر سپورٹ بھی تھی مگر اب یہ تیزی سے رول بیک ہورہی ہے، کیونکہ اسٹبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا ان کے پاس کوئی حقیقی فلسفہ یا نظریہ موجود نہیں ہے۔
میاں صاحب بھی پنجاب سے ہیں، عمران خان بھی پنجاب سے ہیں لیکن دونوں کی ترجیحات، اہداف اور اسٹرٹیجی میں فرق آچکا ہے جب کہ اسٹبلشمنٹ پر فیڈریلسٹ سوچ کا غلبہ ہے۔
اس وقت اسٹبلشمنٹ کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت آسمان پر، نون لیگ پر بھی خوف ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کہیں سبقت نہ لے جائے، میرے حساب سے یہ سوچ غلط ہے۔
نگراں حکومت کے دور میں پاکستان کی معیشت سنبھل چکی ہے، اسٹاک ایکسچینج پچاس فیصد یا بیس ہزار پوائنٹ کی بلند ی پرگئی ہے۔ سیاسی استحکام بھی ہے ، پی ٹی آئی کی طرح غیر ذمے دار قیادت عام انتخابات میں جیت نہیں پائے گی۔
زمینی حقائق اس وقت یہ ہیں کہ پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ متصادم نہیں ہے، سیاسی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بچانا انتہائی ضروری ہے، یہی ہدف اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے۔ یہ تعمیرِ نو کا وقت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اقتدار سے محرومی کے بعد اس کا کردار، پھر بعض قانونی فیصلے اس ملک کی تباہی کے ضامن تھے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جارحیت کسی خانہ جنگی سے کم نہ تھی، بہت تباہی پھیلی۔ اب کھیل دہرایا نہیں جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں دو بڑے واقعات جو رونما ہوئے اور مثبت اثرات دیے ایک یہ کہ قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا اور دوسرے یہ کہ چیف جسٹس کا خود بینچ بنانے کا اختیار کم ہونا، پھر جنرل عاصم منیر کا آنا۔
اس معاشرے اور جمہوری قوتوں کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ اس ملک کو اس ڈگر پر لے آئیں جس پر ایک صحت مند معاشرے اور ریاست کو چلنا چاہیے۔ اسٹبلشمنٹ ایک رات میں سیاست سے دست بردار نہیں ہو سکتی، ایسا ہونا ایک غیر فطری سی بات ہے اور ہماری جمہوری قوتیں جو شرفاء کلاس پر مبنی ہے جو خود الیکٹبلز ہیں، یہ قوتیں سیاسی بیانیہ پرکم ان الیکٹبلزکے پیسوں پر زیادہ کھڑی ہیں۔
ہماری اشرافیہ میں ٹاٹا اور برلا جیسے قانون پسند اور محب الوطنی کاروباری نہیں ہیں، جو طویل محنت کی تاریخ رکھتے ہیں، یہ اچانک امیر نہیں ہوئے، ان کی کاروباری ترقی نسل در نسل محنت کا نتیجہ ہے۔ ہماری شرافیہ بغیر محنت کے اور ریاستی وسائل ہڑپنے کے نتیجہ میں پروان چڑھی ہے، یہی جمہوریت کا لبادہ اوڑھے، جمہوریت کی دشمن کا کردار ادا کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے داعی اسٹبلشمنٹ کے اتحاد میں رہے ہیں۔
کراچی سے ایک مڈل کلاس سیاست کی بازگشت اٹھی تھی، پہلے وہ ہماری اسٹبلشمنٹ کی ٹیم تھی پھر وہ باہر کے لوگوں کے لیے کام کرنے لگی۔ پی ٹی آئی نے بھی اپنا تعارف ایک مڈل کلاس اور الیکٹبلز سے آزاد سیاسی جماعت کے طور پر کرایا تھا، لیکن دونوں اسٹیبلشمنٹ سے ہی اقتدار حاصل کرتی رہیں۔
میاں نواز شریف نے بھی یہ تہیہ کرلیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینا ہے۔ ان کی پارٹی کے صدر بشیر میمن کو کوئی اور نہیں بس ملے تو تیغو خان تیغانی۔ میں اس پر تفصیلی بات نہیں کروں گا۔ ہماری بے نظیر صاحبہ کو بھی یہ خیال آیا تھا کہ اس علاقے میں بھاری اور قدآور شخص لایا جائے جو مہر قبیلے کی سیاسی بالادستی کا مقابلہ کرسکے۔ انھوں نے کسی اورکا نہیں بلکہ پیرآف بھر چونڈی عرف میاں مٹھوکا انتخاب کیا۔اس پر بھی کو ئی تفصیلی بحث نہیں۔سب کچھ لوگوں کے سامنے ہے۔
دراصل سیاسی جماعتوں کو ایسے ہی طاقتور لوگوں کی مدد چاہیے ہوتی جو الیکشن میں جیت سکے۔ یہاں ایسے شخص کے لیے انتخابات میں کوئی ووٹ نہیں ہے جن کے نظریات حیدر بخش جتوئی جیسے ہوں، نہرو جیسے ہوں یا پھر ولب بھائی پٹیل جیسے۔میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بلوچستان میں بھی ایسے ہی لوگ ملیں گے۔ ہماری جمہوریت دراصل ہمارا ہی عکس ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہماری جمہوریت ہے۔ معاشرہ عروج کے بجائے زوال کی طرف ہے اور نتیجہ کیا ہے معاشی بدحالی۔