نواب زادہ نصراللہ سیاست میں تہذیب کی اعلیٰ مثال آخری حصہ
ضرورت ہے کہ ہم نواب زادہ نصراللہ خان اور ان کے ہم عصر سیاسی رہنمائوں کو بار بار یاد کریں
نواب زادہ نصراللہ خان کی نوک زباں پر بلا مبالغہ اردو، فارسی، سرائیکی اور پنجابی کے ہزارہا اشعار ہوتے تھے۔ گفتگو کے دوران ہر دو تین جملوں کے بعد وہ کوئی ایسا برجستہ شعر سناتے کہ محفل وجد کرتی۔
مجھے بارہا ان کے نیاز حاصل ہوئے اور ہر مرتبہ میں برصغیرکی سیاست اور آزادی کی جدوجہد کے بارے میں ان سے کوئی نیا نکتہ سیکھ کر اٹھی۔ ہر مرتبہ میں نے ان سے میر، سودا، غالب، شاد، اقبال، یگانہ اور فیض کے اشعار سنے۔ وہ برصغیرکی ہندو مسلم مشترک تہذیب کے امانت دار تھے۔ اسی لیے انھیں راجہ رام نرائن موزوں، جکبست، تلوک چند محروم اور جگن ناتھ آزاد تک سب ہی کے اشعار ازبر تھے۔
وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ فرید اور سچل سرمست، غرض کون تھا جس کا کلام انھیں یاد نہ تھا۔ وہ خود بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ ان کے اشعار ہمیشہ سیاسی صورت حال کی خوبصورت عکاسی کیا کرتے تھے۔ ان کے چند اشعار پڑھیں تو لگتا ہے جیسے یہ حبیب جالب کی انقلابی شاعری ہے۔
کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں
اْن کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں
اس دورکوگئے زیادہ وقت نہیں ہوا جب بڑے سیاسی رہنما صاحب مطالعہ ہوتے تھے، بڑی عمدہ کتابیں تصنیف اور شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ خان ایک غزل اکثر سنایا کرتے تھے۔ جن کے اشعار درج ذیل ہیں:
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیشِ نظر سنتِ سجادِ ولی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے؟
اک برقِ بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ مری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
اردو صحافت پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ ان جید صحافیوں کا ذکرکرتے جنھوں نے اپنے قلم سے آزادی کی جنگ لڑی اور جن کے ناموں سے آج اردو صحافیوں کی نوجوان نسل واقف بھی نہیں۔ وہ ایک فرد نہیں انجمن، تنہا انسان نہیں ادارہ تھے۔ رواداری، تحمل، تدبر اورکسر نفسی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ وہ ہمیشہ حزب اختلاف میں رہے اس لیے کڑوی بات کہنے کے سوا ان کے پاس چارہ نہ تھا لیکن وہ اسی سخت بات کو نرم لہجے میں کہتے۔ کڑوی بات کو شیریں بیانی سے ادا کردینا ان کا خاصہ تھا۔
نواب زادہ نصراللہ نے برطانوی استعمار سے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی وہ زندگی کی آخری سانس تک عوام کے جمہوری حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ ان کی شان یہ تھی کہ وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنی بیماری، ضعیف العمری اور جسمانی کمزوری کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی ہمت نہیں ہاری۔ اپنے انتقال سے چند دن پہلے تک وہ فعال رہے اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا تھا۔
نواب زادہ صاحب جب تک زندہ رہے تمام سیاسی رہنمائوں اورکارکنوں کو تحمل اور برداشت کی تلقین کرتے رہے وہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو انھیں الوداع کہنے کے لیے ہزاروں لوگوں کے علاوہ تمام مکتبہ فکر کے سیاسی سربراہ اور مذہبی رہنما موجود تھے۔ ان کی نماز جنازہ مولانا فضل الرحمان نے پڑھائی۔ عوام نے انھیں بابائے جمہوریت کا لقب عطا کیا تھا۔
اس امر پر غور ضروری ہے کہ ہماری سیاست میں تہذیب اور شائستگی کی جگہ بدکلامی، غیر اخلاقی الزامات، بہتان طرازی اور سیاسی مخالفین کو برے القاب سے پکارنے کا رجحان کیوں پیدا ہوا ہے جب کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں اس نوعیت کی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل کے ارتقاکو روکا گیا اور ایسا کرنے کے لیے منتخب اور مقبول سیاسی قائدین کی ایک منصوبے کے تحت کردار کشی کی گئی۔
یہ عمل قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا، جو سیاسی رہنما تحریک پاکستان کے قائدین میں شامل تھے انھیں غدار، کاہل، سازشی جیسے القابات سے نوازا جانے لگا۔ اس مہم میں خواجہ ناظم الدین، محترمہ فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، جی ایم سید سمیت ان گنت رہنمائوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جس نے جمہوریت کی بات کی اسے نظریہ پاکستان کا مخالف قرار دیا گیا۔ جس نے وفاق پاکستان میں شامل اکائیوں کی داخلی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا اسے پاکستان کی سلامتی کا دشمن کہا گیا۔
یہ کس قدر زیادتی کی بات تھی کہ ماضی کے مشرقی پاکستان میں جب یہ مطالبہ کیا گیا کہ بنگالی بولنے والے پاکستانی اکثریت میں ہیں، ان کی زبان قیام پاکستان سے پہلے بنگال کی سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان تھی لہٰذا جب یہ جائز بات کہی گئی کہ اس کی حیثیت ختم نہ کی جائے اور اسے پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا جائے تو مطالبہ کرنے والوں پر ملک دشمنی کا لیبل چسپاں کیا گیا، انھیں گرفتار کیا گیا اور اپنے مطالبے کے لیے مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلا کر انھیں ہلاک تک کردیا گیا۔
یہ سلوک ان لوگوں کے ساتھ تھا جن کی جدوجہد، قربانیوں اور ووٹوں کے ذریعے ہمارا ملک وجود میں آیا تھا۔ ان غیر جمہوری اور ظالمانہ اقدامات نے بنگالی بولنے والے پاکستانیوں میں احساسی محرومی پیدا کیا، جب اظہارکے جمہوری حق کو دبایا گیا تو شدت پسندی ابھرنے لگی جو بالآخر ملک کی تقسیم پر منتج ہوئی۔ ایسا رویہ اس دور کے مغربی پاکستان میں بھی روا رکھا گیا۔ ون یونٹ کے ذریعے وفاقی اکائیوں کی صوبائی خود مختاری سلب کرنے کے خلاف جس نے بھی آواز بلند کی، اسے ریاست مخالف، غدار اور شرپسند کہہ کر پابند سلاسل کیا جانے لگا۔
اس عمل کے باعث موجودہ پاکستان کی وفاقی اکائیوں میں احساس بیگانگی پیدا ہوا جو آج تک ختم نہیں ہوسکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے مہذب رہنمائوں کی قدر نہیں کی گئی جس کی وجہ سے آج ہمارا سیاسی ماحول اس قدر پراگندہ ہوگیا ہے۔ لوگ سیاست کو عبادت کے بجائے تجارت سمجھنے لگے ہیں۔
نواب زادہ نصراللہ خان ہوں، خان عبد الغفار خان، عبد الصمد اچکزئی، جی ایم سید، مولانا مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی، غوث بخش خان بزنجو، خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل، اکبر بگٹی، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، کامریڈ امام علی نازش، شیخ مجیب الرحمان، عبدالحمید بھاشانی ہوں یا اس عہد کے دیگر رہنما سب نے ہمیشہ سیاست میں بے مثال تحمل، برداشت، بردباری اور رواداری کا عملی مظاہرکیا۔ ان کے بعد کی نسل نے بھی اس روایت کو بڑی حد تک برقرار رکھا، لیکن موجودہ دورکی سیاست میں بدتہذیبی اور عدم برداشت کے رویوں نے ماضی کی شاندار سیاسی اقدار کو تباہ کر دیا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ ہم نواب زادہ نصراللہ خان اور ان کے ہم عصر سیاسی رہنمائوں کو بار بار یاد کریں تاکہ ہماری سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور مستقبل کے ابھرتے ہوئے رہنمائوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ وہ ماضی کے ان عظیم سیاسی رہنمائوں کے '' وارث'' ہیں جنھوں نے ایک دوسرے کے نظریات کو مسترد کرنے کے باوجود باہمی احترام، ادب اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔