مخاصمانہ سیاست
نیک نیتی سے اگر کام کیاجائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ عوام کی مقبولیت حاصل نہ ہوسکے
پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں۔اُن کی سیاست کا محورہی ایک دوسرے کی مخالفت ہے، وہ جب تک ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ کرلیں اُن کی سیاسی تسکین نہیں ہوتی۔2022 میں PTIکی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے روح رواں آصف علی زرداری تھے۔
اس وقت مسلم لیگ نون اس تحریک کے حق میں نہ تھی، اس کا خیال تھا کہ اُن دنوں جو سیاسی حالات تھے ایسے میں عدم اعتماد کی تحریک شاید ہی کامیاب ہوپائے۔ویسے بھی پاکستان میں عدم اعتماد کی کسی تحریک کو اس سے پہلے کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی ۔
اسی تناظر میں وہ ہچکچاہٹ اورتذبذب کا شکار تھی، مگر یہ تحریک بہر حال کامیاب ہوئی اورزرداری صاحب نے اس مختصر عرصہ کی حکمرانی کا طوق میاں شہباز شریف کے گلے میں ڈال دیا۔اسے تاج کہنا شایداس لیے بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس وقت ملک کے جو معاشی حالات تھے ایسے میں چند ماہ کی حکومت کی ذمے داری لینا اپنے لیے ایک مصیبت کھڑی کرنا تھا۔
زرداری صاحب جنھیں ہم ہمیشہ ایک ذہین سیاستدان کے نام سے جانتے ہیں انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی جناب شہبازشریف کو اس کے لیے راضی اوررضامند کر ہی لیا۔وہ ایک تیر سے دوشکارکھیلنا چاہتے تھے اوراپنی اس تدبیر میں وہ کامیاب بھی ہوگئے۔
میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بناکر اُن پر احسان بھی کردیا اور ساتھ ہی ساتھ مسلم لیگ نون کی عوامی مقبولیت پر کاری ضرب بھی لگادی۔پی ڈی ایم کی اس عارضی حکومت میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ساتھ ملکر حکومت بھی بنائی اوربلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بھی بنوا لیا۔اُن دنوں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی تعریف میں خوب بیان بازی بھی کرتی رہیں اوراس عارضی اقتدار کے مزے بھی لوٹتی رہیں۔
ا گست 2023 میں جیسے ہی اُن کا یہ دور اپنے اختتام کو پہنچاپیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے بیانوں میں تلخی ظاہر ہونے لگی۔رفتہ رفتہ یہ تلخی بڑھنے لگی اور چھوٹے سیاستدانوں کے بعد مرکزی قیادت کے حامل لوگوں میں بھی عام ہونے لگی اوراب یہ حال ہے کہ بلاول زرداری کا کوئی دن ایسا نہیں جاتاجب وہ مسلم لیگ نون کو اپنے نشانے پرنہ لیتے ہوں۔
کہنے کو وہ پرانی اورنفرت والی سیاست کے بہت بڑے مخالف نظر آتے ہیں لیکن نفرت بھرے بیانوں سے بھی وہ باز نہیں آتے ہیں۔ مسلم لیگ نون نے ابھی تک قدرے احتیاط سے کام لیا ہواہے اوراپنی طرف سے حملے کرنے کے بجائے وہ صرف دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔
ستر سالہ باباؤں کے بارے میں بھی اس نے کوئی بیان نہیں دیاہے بلکہ یہ کام بلاول بھٹو نے ہی شروع کیاہوا ہے۔پرانی سیاست کو بلاول بھٹو نفرت کی سیاست کانام دے رہے ہیں جب کہ نفرت کی سیاست کے امین بھی آج کل وہی بنے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی توپیںاس سلسلے میں ابھی تک خاموش ہیں،جب کہ ساری گولہ باری پیپلز پارٹی اوراس کی قیادت کی جانب سے ہی کی جارہی ہے۔
بلاول بھٹو کی مجبوری ہے کہ پنجاب میں انھیں جس شکست کا اندیشہ ہے اس کی وجہ صرف اورصرف مسلم لیگ نون یاPTI ہی ہے۔یہ دونوں پارٹیاں ابھی تک صوبہ پنجاب میں بہت مقبول ہیں۔ اِن کے ہوتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کاکامیاب ہوجانا تقریباً ناممکن ہے۔
پیپلزپارٹی کی قیادت کو سنجیدگی سے سوچناچاہیے کہ اس کی اس غیر مقبولیت کی اصل وجہ کیاہے۔وہاں مسلم لیگ نون نے ڈیلیور کیاہے، جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو 2008 سے لے کر 2013 تک ایک سنہری موقعہ ملاتھا کہ وہ کچھ کرکے دکھاتی ، وہ چاہتی تو مسلم لیگ ن سے زیادہ کام کرسکتی تھی مگر اس نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ بلکہ عوامی اہمیت کے کسی منصوبے پرکام ہی نہیں کیا۔
نہ ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ کیا اورنہ لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے کم کیے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے اسے 2013 کے انتخابات میں مکمل طور پررد کردیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پندرہ سالوں سے مسلسل سندھ میں حکومت کر رہی ہے لیکن اس نے یہاں بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیںکیا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کا مالی فائدہ اس نے دونوں ہاتھوں سے ضرور سمیٹا لیکن اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچائے۔
عوام کی حالت جو پہلے تھی وہی رہی بلکہ شاید اس سے بھی بدتر ہوگئی۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کریڈٹ وہ اپنے نام کرتی ہے لیکن اس مد میں قومی خزانے کو470ارب روپے کا سالانہ ٹیکہ ہرسال لگاکر بھی وہ عوام کی حالت نہیں بدل پائی ہے۔
اِن 470ارب روپوں سے سوچا جائے تو ہم ہرسال 470کارخانے یا ملیں لگاسکتے ہیں اور اسطرح اپنے لوگوں کو باعزت روزگار بھی فراہم کرسکتے ہیں ناکہ انھیں ہرماہ چند ہزار روپے دیکربھیک اور امداد کا عادی بنادیں۔
یہ سب وژن اور ارادوں کی بات ہے۔نیک نیتی سے اگر کام کیاجائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ عوام کی مقبولیت حاصل نہ ہوسکے۔ترکیہ کے طیب اردگان بیس سالوں سے مسلسل کیوں عوام میں مقبول اور ہر دل عزیز ہیں، کیونکہ انھوں نے وہ کام کرکے دکھائے ہیںجو ان کے پیش رونہ کرسکے۔خالی خولی سیاسی بیانوں سے عوام کی پذیرائی نہیںمل سکتی ہے۔ نفرت اوراشتعال کی سیاست کرنا سب سے آسان حربہ ہوتاہے،یہ کام تو ہرکوئی کرسکتاہے۔
بلاول بھٹواپنی سیاسی مہم میں ابھی تک کوئی منشوربھی پیش نہیں کرسکے ہیں۔ انھیں بتانا ہوگا کہ وہ اگر برسراقتدار آگئے تو اس ملک اوراس کے عوام کی حالت کیسے بہتر کر پائیںگے، وہ جب بلوچستان گئے تو وہاں اپنے ایک سیاسی جلسے میں نوجوانوں کے لیے یوتھ کارڈ کے اجرا کا وعدہ کرلیا۔ یعنی بے نظیر انکم سپورٹ کی طرح ایک اور احساس محرومی والاکارڈ۔پتا نہیں ہم اِن امدادی کارڈوں کی سیاست سے کب باہر نکل کر کوئی روشن مستقبل کے پروگراموں پرتوجہ دینگے۔
PTI نے بھی اپنے پونے چار سالہ دور میں کوئی بڑا منصوبہ پیش نہیں کیا، وہ لنگر خانوںاورشیلٹر ہومز جیسے کاموں پر کریڈٹ لیتی رہی۔ایسے منصوبے جنھیں چلاکوئی اور ویلفیئر تنظیم رہی تھی اورکریڈٹ خان صاحب اپنے نام کررہے تھے ۔
اسی طرح انھوں نے صحت کارڈ کے نام سے بھی ایک کارڈ بناڈالا تھا۔ جس کامقصد ٹیکس دہنددگان کا پیسہ جعلی بلوں کی مد میں پرائیویٹ اسپتالوں کو منتقل کرنا تھا۔ایسی اسکیمیں چور معاشرے میں کبھی بھی کامیاب نہیں سکتی ہیں۔ ہمیں پہلے اس ملک سے چوری اورکرپشن ختم کرنا ہوگی۔اُن کے دور میں کرپشن ختم کرنے کا واویلا تو بہت مچایاگیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دور میں کرپشن کم ہونے کے بجائے مزید بڑھی ہی تھی۔
بلاول بھٹو سیاسی بیانوں میں تلخی اور اضطراب بڑھانے کے بجائے کوئی تعمیری سوچ کے حامل بیانوں کو اپنائیں تو شاید اُن کے لیے بہتر ہوگا۔
جس نفرت کی سیاست کی خاتمہ کی باتیں وہ زبانی وکلامی تو بہت کرتے دکھائی دیتے ہیں حقیقتاً وہ خود اس کے بہت بڑے امین بنے ہوئے ہیں ۔ لگتا ہے وہ اسے ختم کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ صرف سو لہ ماہ کی عارضی حکومت میں انھوں نے کچھ بریک لگایاہواتھا لیکن اب تو کوئی دن ایسا نہیں جاتاجس روز انھوں نے کوئی نفرت انگیز بیان نہ دیا ہو۔