پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو محض نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ پاکستان بننے سے پہلے ہندو اور مسلمان جب ہندوستان میں اکٹھے رہتے تھے تو مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا، بالخصوص جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور انگریز اقتدار پر قابض ہوگئے تو اب وہ ہندوؤں کو نوازتے تھے۔
مسلمان ایک طرف تھے جبکہ ہندو اور انگریز دوسری طرف، جو مسلمانوں کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اب مسلمان یہ سمجھنے لگے تھے کہ ہم واقعی ایک الگ قوم ہیں اور باقی تمام دنیا کے کافر دوسری قوم۔ یہی نظریہ، نظریۂ پاکستان تھا، جسے دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دو قومی نظریہ ہمیں 1400 سال پہلے قرآن و سنت نے بھی دیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں باقی دنیا کے تمام کفار دوسری قوم ہیں۔
جب مسلمان ہندوستان میں کفار کے گٹھ جوڑ سے بہت تنگ آگئے تو انہوں نے ایک الگ وطن حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ انہوں نے دیکھا کہ یہاں ہم اپنے دین کے مطابق عمل نہیں کرسکتے اور اپنے دینی اصولوں اور احکامات کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے تو ہمیں ایک ایسا خطہ زمین چاہیے جہاں ہماری اپنی حکومت قائم ہو، جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں، اقتدار بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ وہاں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں، اپنے دین کے احکامات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال سکیں، ان کے قوانین اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں اور ان کا پورا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ نظر آئے۔
اگر تحریک پاکستان کے رہنماؤں کے بیانات دیکھیں جو کتابوں میں نقش ہوچکے ہیں تو ان میں بھی یہی ملے گا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگی، پاکستان کا آئین اور قانون اسلامی ہوگا۔ قائداعظم سے پوچھا جاتا کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا تو وہ کہتے تھے کہ ہمارا آئین تو 1300 سال پہلے ہی مقرر ہوچکا ہے اور وہ قرآن و سنت ہے۔ ان کی تمام تقاریر میں نظریہ اسلام اور پاکستان کا نظام اسلامی ہونا یہ چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں۔
لیکن جب پاکستان وجود میں آگیا تو بدقسمتی سے اس کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو اسلام کا محض نام ہی جانتے تھے، اسلام کے بارے میں انہیں کچھ علم نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہ ہوسکا اور پاکستان کو انہی مغربی قوانین کے مطابق چلایا جانے لگا جو انگریز ہمیں دے کر گئے تھے۔ انگریزوں نے جو نظام ہمیں دیا تھا ظاہر ہے کہ وہ اسلامی نظام تو ہوگا نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو دھوکا دینے کےلیے اس کے اندر کچھ اسلامی شقیں ڈال دیں کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یوں ہم نے اسے اسلامی جمہوریت کا نام دے دیا جو سراسر مغربی جمہوریت ہے۔ صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے کہ ہمارے ہاں اسلامی نظام ہے اور یہ اسلامی جمہوریت ہے۔ حالانکہ جمہوریت ایک الگ نظام ہے جو سراسر کفار کا وضع کردہ مغربی نظام ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اسلامی نظام ایک بالکل مختلف نظام ہے جس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔
ہم نے اسلامی نظریے کی بنیاد پر پاکستان مانگا تھا، جب اللہ رب العزت نے ہمیں پاکستان عطا کر دیا تو ہم نے اس کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے بجائے انگریزی اصولوں کے مطابق چلانا شروع کردیا، جس کی سزا ہمیں یہ ملی کہ ہم پوری دنیا میں ذلیل رسوا ہورہے ہیں۔ بیرون ممالک جائیں تو لوگ پاکستان کا نام سن کر حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہمارے گرین پاسپورٹ کی کوئی عزت نہیں۔ عرب ممالک کے عوام تک پاکستانیوں کو سرعام چور اور فراڈی کہتے ہیں۔ ہم دنیا میں بھیک مانگنے اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے، ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن گئی۔ یہ صرف اس لیے کہ ہم نے اللہ رب العزت سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اس ملک میں اسلامی نظام نافذ کریں گے، لیکن ہم نے اس کے بجائے انگریزی نظام نافذ کردیا تو آج ہم اس حال میں ہیں کہ ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
یہ یاد رکھیے کہ اس کے ذمے دار صرف حکمران نہیں۔ حکمرانوں پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے، ان سے بہت بڑی پوچھ ہوگی، انہیں سخت جواب دہی کرنا ہوگی، لیکن عوام بھی اس میں برابر کے ذمے دار ہیں کیونکہ جب ہم لوگ ووٹ دیتے ہیں تو ہم اس چیز کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہمارا امیدوار کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اگر ہم اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو جس امیدوار کو ہم ووٹ دے رہے ہیں اس کو اسلامی نظام کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں تو وہ اسلامی نظام کیسے نافذ کرسکتا ہے۔ وہ کیسے اسلام کے مطابق قانون سازی کرے گا، جسے اسلامی قوانین کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں؟
ہم محض اپنی رشتے داریوں اور تعلقات کو دیکھتے ہیں یا دو گلیوں کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں یا اپنی سیاسی جماعت، جس سے ہم وابستہ ہوں اس کی بنیاد پر ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے امیدوار کے اندر کتنی صلاحیتیں ہیں۔ وہ اس قابل بھی ہے کہ وہ اس ملک کو اسلامی ملک بنا سکے اور اس ملک کا نظام اسلامی اصولوں کے مطابق چلا سکے۔ ہم ایسا ہرگز نہیں کرتے۔ پورے ملک کا یہ المیہ ہے کہ ہم ہر حلقے میں ایسے ہی امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جن کو اسلام کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا بلکہ اکثریت تو ایسے بھی ہیں جنہیں دنیاوی علوم کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا، محض پیسے اور تعلقات کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں مگر پھر بھی ہم خود کو سدھارنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہم برابر اسی روش پر چلے جارہے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ یا تو ہم اسلامی نظام کا نام لینا ہی چھوڑ دیں اور پھر جیسا امیدوار چاہے سامنے آئے اس کو اپنی مرضی سے ووٹ دیں اور پھر جو ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر بن چکی ہے اس کو خاموشی سے بھگتتے رہیں اور کسی کو برا بھلا نہ کہیں۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا میں سکون سے رہیں، عزت کے ساتھ زندگی گزاریں، سر اٹھا کر جیئیں تو پھر اسلامی نظام کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اسلامی نظام نافذ کریں گے تو یہ سب کچھ ملے گا اور اسلامی نظام نافذ کرنے کےلیے ایسے امیدواروں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچانا ہوگا جنہیں اسلامی نظام کے بارے میں علم ہو، جو اسلامی نظام کو نافذ کرنا جانتے ہوں اور اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں۔ اس طرح ہمارا ملک ترقی بھی کرے گا، ہم دنیا میں عزت سے سر اٹھا کر بھی جی سکیں گے اور دنیا کی قیادت کے بھی قابل ہوسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔