گزری باتیں بیتی یادیں آخری حصہ
نگار اخبار میں ایک بزمِ نگار بھی قائم کی گئی تھی جس کی بڑی اہمیت ہوتی چلی گئی تھی
الیاس رشیدی نے ابن حسن نگار سے وہ رسالہ خرید لیا اور پھر اسے ایک فلمی اخبار کی صورت میں ہفتہ وار نکالنا شروع کردیا، یہ کراچی کا پہلا باقاعدہ اور شان دار فلمی اخبار تھا۔ پھر فلمی اخبار نگار نے خوب ترقی کی اور یہ پاکستان فلم انڈسٹری کا نمایندہ اخبار بن کر سارے پاکستان میں مشہور ہوتا چلا گیا، اس اخبار کی اشاعت اس زمانے میں بڑے بڑے سیاسی اخبارات سے بھی بڑھتی چلی گئی تھی۔
اس کے قارئین کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہوتی چلی گئی تھی۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری اس اخبار پر ناز کرنے لگی تھی اور پھر جب نگار اخبار نے پابندی کے ساتھ ہر سال نگار فلم ایوارڈز کا اجرا کیا تو نگار اخبار کی قدرومنزلت مزید بڑھتی چلی گئی تھی، نگار اخبار میں ہر فلم کی ریلیز پر نہ صرف بڑے بڑے اشتہارات چھپتے تھے بلکہ فلموں پر ماہرانہ انداز سے خوب صورت تبصرے بھی ہوا کرتے تھے اور فلم بین جو نگار اخبار کے قارئین بھی ہوتے تھے وہ نگار اخبار میں شایع ہوئے فلم پر کیے جانے والے تبصروں کی بنیاد پر فلمیں دیکھنے جاتے تھے اور اس اخبار میں اپنی رائے کا اظہار مراسلوں کی صورت میں کیا کرتے تھے۔
نگار اخبار میں ایک بزمِ نگار بھی قائم کی گئی تھی جس کی بڑی اہمیت ہوتی چلی گئی تھی۔ نگار کے قارئین ہر ریلیز شدہ فلم پر نگار میں کیے گئے فلم کے تبصرے کا انتظار کیا کرتے تھے اور جب نگار ویکلی کا سالانہ نمبر شایع ہوتا تھا تو اس کی سارے پاکستان میں بڑی ڈیمانڈ ہوتی تھی۔ نگار اخبار اور پاکستان فلم انڈسٹری دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔
اداکارہ شبنم اور اس کے شوہر موسیقار روبن گھوش کو کراچی اور پھر لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ کرنے میں الیاس رشیدی پیش پیش تھے اور پھر اداکارہ شبنم لاہور فلم انڈسٹری کی سرتاج اداکارہ بن گئی تھی، اگر فلم چکوری کی ہیروئن شبانہ کو بھی الیاس رشیدی جیسے دوست صحافی کی معاونت حاصل ہوتی۔ الیاس رشیدی نے اپنی کتاب '' گزری باتیں بیتی یادیں'' میں بڑے دلچسپ انداز میں چند فلمی فنکاروں کا تذکرہ کیا ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ یہ کتاب صرف ایک کتاب نہیں بلکہ فلمی دنیا کی ایک دستاویز ہے اس کتاب میں کئی ہیروز اور کئی ہیروئنوں کے بارے میں کہ وہ کس طرح فلمی دنیا میں اپنے کیریئر بنانے میں کیسے کیسے جتن کرتے رہے اس کتاب کے حسن کو ان قصوں نے اور بھی دوبالا کر دیا ہے۔ اس کتاب میں خاص طور پر خوبرو ہیرو اعجاز کی کہانی تو بہت ہی مزے دار ہے۔
وہ کتنے مراحل اور مشکلات سے گزرتے ہوئے فلمی دنیا کی آنکھ کا تارا بنا اور پھر کس طرح وہ ملکہ ترنم نور جہاں کے عشق میں گرفتار ہوا۔ کس طرح اس کی شادی میڈم نور جہاں سے ہوئی۔ میڈم نور جہاں کے پہلے شوہر فلم ساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے کن شرائط کے ساتھ نور جہاں کو طلاق دی اور الیاس رشیدی کی معاونت میں میڈم نور جہاں کا اعجاز سے عجلت میں نکاح پڑھایا گیا۔
یہ ساری یادیں اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہیں۔ آج نگار اخبار کی اشاعت کو پچھتر سال پورے ہونے جا رہے ہیں۔ الیاس رشیدی کے لگائے ہوئے اس پودے کو ان کے صاحبزادے اسلم الیاس رشیدی بڑی محنت اور جانفشانی سے پروان چڑھانے میں مصروف ہیں اور 2024 میں نگار اخبار کی پلاٹینم جوبلی منائیں گے۔ ہماری دعا ہے نگار اسی طرح ترقی کرتا رہے اور فلمی صحافت میں ایک نئی تاریخ رقم کرتا رہے۔