پیپلز پارٹی اور بلوچستان
پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں بھی وفاق اور صوبہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے
پیپلز پارٹی نے اپنا چھتیسواں یومِ تاسیس 30نومبر کو پہلی دفعہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ میں منایا۔
اس یومِ تاسیس میں شرکت کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو اور شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کوئٹہ پہنچے، یوں ایک زوردار جلسہ ہوا، کئی بااثر سرداروں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا اور کئی چند ماہ قبل اپنے اعلان کے باوجود پیپلز پارٹی میں شامل نہ ہوئے۔
سابق صدر آصف زرداری نے کوئٹہ کے اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف بولنے والے سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور خیبرپختون خوا کے وسائل پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے تقریر میں یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں گیس، پٹرول اور معدنیات جو کچھ بھی ہے عوام کی ہے۔
زرداری صاحب نے اس جلسہ میں یہ وعدہ کیا کہ ایران سے گیس عوام تک خود پہنچائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی چارٹر آف اکانومی لائے گی۔
اگرچہ زرداری صاحب نے یہ بھی یاد دلایا کہ ان کے دور حکومت میں نیا این ایف سی ایوارڈ بنایا گیا، حقوقِ بلوچستان، سی پیک، ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی بنیاد رکھی گئی۔ بلاول بھٹو نے اس موقع پر کہا کہ انتقام کی سیاست اور نفرت کی سیاست ختم ہونی چاہیے۔
یوں مسلم لیگ کے مرد آہن میاں نواز شریف کی طرح پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے زوردار تقاریر تو کیں مگر بلوچستان کے حقیقی مسائل پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔
بلوچستان گزشتہ 23برسوں سے شدید بدامنی کا شکار ہے۔ بلوچستان میں ساحلی علاقہ مکران کے شہر تربت میں ہزاروں افراد جن میں خواتین بھی شامل ہیں ایک ہفتہ سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اس احتجاج میں ذکری، نمازی اور مذہبی اختلافات کو نظرانداز کرکے شریک ہیں۔
دوسری طرف افغانستان کی سرحد سے متصل شہر چمن کے بارڈر پر ہزاروں افراد دس دن سے وفاقی حکومت کی افغانستان سے متعلق ویزا پالیسی کی تبدیلی کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور بلوچستان کہانی بھی خوب عجیب قسم کی ہے۔ جب 1967 میں لاہور میں پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ کی اکثریتی جماعت تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن ذوالفقار علی بھٹو کی ساری توجہ پنجاب میں مقبولیت پر مرکوز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ون یونٹ کو توڑنے کی شق کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل نہیں کیا تھا۔
پیپلز پارٹی نے 1970ء کے منشور میں صوبائی خود مختاری پر زیادہ زور نہیں دیا تھا یہی وجہ ہے کہ بائیں بازو کے رہنما جام ساقی نے جب میر رسول بخش تالپور کی سفارش پر بھٹو صاحب کو حیدرآباد میں سندھ کنونشن میں مدعو کیا تو بھٹو صاحب نے اپنی تقریر میں ون یونٹ توڑنے پر توجہ نہیں دی۔
20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی تو ایک بلوچ سردار غوث بخش رئیسانی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا، یوں بلوچستان اسمبلی میں اکثریتی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کواعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جب 1973 کی آئین کی تیاری کے مراحل آئے تو پیپلز پارٹی نے نیشنل عوامی پارٹی کو صوبہ میں حکومت بنانے کی دعوت دی۔
یوں میر غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے مگر نو ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت توڑ دی گئی، یوں پی پی پی حکومت میں پہلا آپریشن ہوا۔بعدازاں جنرل ضیاء الحق نے اسیر بلوچ رہنماؤں کو رہا کیا۔
پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں صدر غلام اسحاق خان کے ایماء پر اس وقت کے گورنر نے صوبے کی اسمبلی توڑ دی، یہ اسمبلی 15دن بعد بحال ہوئی مگر وزیر اعلیٰ نواب اکبر بگٹی اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ایک سرد جنگ شروع ہوئی ۔
پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں بھی وفاق اور صوبہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔ جب بے نظیر بھٹو شہید 2007 میں خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے واپس وطن آئیں تو ان کے رویے میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی تھی۔ انھوں نے بلوچ منحرف سردار خیر بخش مری سمیت کئی اہم بلوچ رہنماؤں سے ملاقات کی تھیں۔ جب 2008 میں آصف زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو قومی اسمبلی نے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معذرت کی قرارداد منظور کی اور حقوق بلوچ کے نام سے ایک خصوصی پیکیج نافذ ہوا۔
پیپلز پارٹی نے دوسری دفعہ سردار اسلم رئیسانی کی قیادت میں حکومت بنائی تھی مگر یہ مکمل طور پر بلوچستان میں افراتفری کا دور تھا۔بلوچ سرمچاروں نے دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والے اساتذہ، پولیس افسروں، انتظامی افسران، ڈاکٹروں، صحافیوں اور خواتین وغیرہ کی ٹارگٹ کلنگ منظم طور پر شروع کی ہوئی تھی۔ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔ مسلح گروہوں نے ہزارہ برادری کے لوگوں پر حملے شروع کردیے۔
صوبہ میں مذہبی جنگجوؤں کے کئی گروہ بن گئے تھے جنہوں نے مخالفین کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا ہوا تھا۔
ہزارہ برادری کی عبادت گاہوں پر خودکش حملوں سے کئی درجن افراد ہلاک ہوگئے تھے مگر وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کئی ماہ تک صوبہ سنبھال نہیں پائے تھے البتہ پیپلز پارٹی کے دور میں آئین میں اٹھارہویں ترمیم ہوئی جس نے صوبوں کو حقیقی صوبائی خودمختاری دی مگر بلوچستان میں یہ آئینی ترمیم مکمل طور پر نافذ نہ ہوئی، مگر اسلام آباد میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں نے بلوچستان کے حقیقی نمایندوں کوانتخابات میں حصہ لینے کے لیے حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے بجائے الیکٹیبل کو اپنے ساتھ ملانے پر توجہ دی جو بلوچستان کے حقیقی مسائل کے حل سے زیادہ دیگر مفادات کو ترجیح دیتے تھے جس کے نتیجے میں ان حکومتوں اور بلوچستان کے عوام کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور صوبہ میں بدامنی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ صوبائی حکومت کی رٹ صرف کوئٹہ میونسپلٹی کی حدود تک محدود رہ گئی۔
صرف نیشنل پارٹی کے وزیر اعلی عبدالمالک بلوچ نے حالات کو بہتر بنانے کے لیے جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کیے تاکہ وہ وطن واپس آکر سیاسی دھارے میں شامل ہوجائیں مگر ان کی حکومت ختم کردی گئی۔ اس وقت بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔ خودکش حملوں، سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور ان کی ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے تاسیسی اجلاس میں ان اہم مسائل پر توجہ نہیں دی۔ بلوچستان کے مسئلہ کا حل عام معافی، صوبہ کو آئین میں خصوصی حیثیت دینا اور ترقیاتی منصوبوں میں بلوچستان کے عوام کی شرکت کی راہ میں رکاوٹوں کے خاتمہ میں مضمر ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اپنے گزشتہ دورہ میں بلوچستان کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے کے بجائے الیکٹیبل کو اپنے ساتھ ملانے پر توجہ دی تھی۔ اب پیپلز پارٹی نے بھی ویسا ہی طریقہ کار اختیار کیا ہے۔