کراچی کب چلے گا

ٹارگٹ کلنگ سے کوئی محفوظ نہیں عام شہری کے علاوہ مذہبی و سیاسی رہنما غرض ہر شخص و ادارہ ٹارگٹ کلرز کے نشانے پر ہے۔


MJ Gohar May 26, 2014

ISLAMABAD: آپ ملک کی سیاسی و معاشی زندگی کے مدوجزر کے تناظر میں کراچی کے عملی کردار کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ شہر قائد اپنی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کے باعث ملکی معیشت کی شہ رگ کہلاتا ہے۔

یہاں بڑے بڑے صنعتی و تجارتی مراکز ہیں۔ ملک کی اہم بندرگاہیں، مدر انڈسٹری اسٹیل ملز، ایئرپورٹ اور سب سے بڑی یونیورسٹی بھی کراچی میں ہے۔ تاریخی عمارتوں کا حامل روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی تجارتی، صنعتی و کاروباری شعبے میں بڑی کامیابیوں اور سب سے زیادہ ریونیو دینے کی وجہ سے ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ بعینہ شہر قائد کو ملک کی سیاسی سرگرمیوں کا بھی بیرومیٹر کہا جاتا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے اسی شہر میں جنم لیا یہیں آخری سانسیں لیں ان کی آخری آرام گاہ بھی اسی شہر میں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو ملک کے پہلے دارالحکومت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح نے بھی اسی شہر کو اپنی سیاست کا محور و مرکز بنایا اور یہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ملک کی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس نے کراچی میں قدم جمانے اور یہاں جلسے، جلوس کرنے و ریلیاں نکالنے کی آرزو نہ کی ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملک کی سیاسی و عسکری حکومت کے خلاف احتجاجی تحریکوں نے اسی شہر کراچی میں جنم لیا جن کی دہشت سے اقتدار کے ایوان لرزتے رہے۔ ایوبی آمریت کے خلاف کراچی سے اٹھنے والی تحریک نے انھیں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا گویا کراچی ملکی معیشت و سیاست کے میدان کا شہ سوار ہے اس پس منظر میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کا یہ کہنا ہرگز غلط نہیں کہ کراچی چلے گا تو ملک چلے گا یعنی کراچی کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ کراچی کا امن پورے ملک کا امن ہے اور کراچی میں ہونے والی ہلچل پورے ملک میں جل تھل کردیتی ہے اور نظم حکومت تہہ و بالا ہوجاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس زمینی حقیقت کو جاننے کے باوجود حکمراں کراچی جیسے اہم ترین شہر کو چلانے کی سنجیدہ اور نتیجہ خیزکوششیں کیوں نہیں کرتے ایک عشرے سے زائد وقت گزر چکا ہے کراچی میں آگ و خون کا کھیل پوری شدومد کے ساتھ جاری ہے اور حکمراں طبقہ اس بھیانک کھیل کو روکنے کے لیے ٹھوس ، قابل عمل اور جامع حکمت عملی کی بجائے محض جزوقتی اور بودے اقدامات کے ذریعے اپنے سر سے بوجھ اتارنے کا دکھاوا کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بدامنی کے عفریت نے شہر قائد کو اپنے خون آشام پنجوں میں بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ کراچی میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنم لینے والے چھوٹے چھوٹے جرائم پیشہ پریشر گروپوں نے آج بڑے مافیاز کی شکل اختیار کرلی ہے۔ بارودکی طاقت اور اپنے سرپرستوں کی آشیرباد سے چاروں طرف ہاتھ پاؤں پھیلا کر پورے شہرکو یرغمال بنا رکھا ہے۔

اس پہ مستزاد اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے لمبی رینج اور اثرورسوخ رکھنے والے گروپوں نے کسی نہ کسی تنظیم، جماعت اور طاقت ور بااختیار حلقوں کا شلٹر بھی حاصل کرلیا ہے تاکہ بوقت ضرورت ان کے جرائم کو بے نقاب کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جاسکے۔ میاں نواز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد کراچی کے اسٹیک ہولڈرز کے باہمی مشاورت سے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی سرپرستی میں شہر قائد میں امن کے قیام کی خاطر جرائم پیشہ افراد کے خلاف تین مرحلوں پر مشتمل آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران اس آپریشن کے دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں اور اب کراچی آپریشن کے تیسرے اور آخری مرحلے کی منظوری دینے اور اہم فیصلوں کے لیے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں گزشتہ ہفتے کراچی میں اہم اجلاس ہوا۔ جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور سابق صدر جناب آصف علی زرداری نے بھی شرکت کی۔ گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ بھی مذکورہ اجلاس میں موجود تھے۔

مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ اجلاس میں سول و عسکری قیادت اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پی پی پی کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ایک قطار میں موجودگی سے میڈیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اہم قومی معاملات پر ملک کی عسکری و سیاسی قوتیں ایک صفحے پر ہیں۔ کراچی کا مسئلہ گمبھیر ہے یہاں امن کا قیام تمام قومی اداروں اور افراد کی خواہش ہے کیونکہ کراچی کے امن سے ہی پورے ملک کا امن و سکون وابستہ ہے۔اگرچہ شہر قائد میں پولیس و رینجرز کو ہی امن قائم کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔

تاہم فوج بھی پوری ذمے داری و فرض شناسی کے ساتھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تکنیکی معاونت فراہم کر رہی ہے جیساکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ سو فیصد خلوص کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے حکومت سے مکمل تعاون کریں گے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ وزیر اعظم کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ مذکورہ اجلاس میں کراچی آپریشن کے آخری مرحلے کی منظوری دی گئی ہے۔ اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن بلا امتیاز اور بغیر کسی دباؤ کے جاری رکھا جائے گا اور ملزمان کی سیاسی سرپرستی کرنے والے افراد اور جماعتوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے گی اس ضمن میں پولیس کو فری ہینڈ دیا جائے گا جب کہ عسکری و انٹیلی جنس ادارے رینجرز پولیس کو مکمل معاونت فراہم کریں گے۔ آپریشن سے متعلق شکایات کے ازالے اور غیر قانونی سم بند کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ حتمی مرحلہ متنازعہ نہ رہے اور شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔

کراچی آپریشن کو شروع ہوئے چھ سات ماہ ہوچکے ہیں اس عرصے میں رینجرز ترجمان کے مطابق 12 دہشت گرد،142 ٹارگٹ کلرز، 102 بھتہ خور، 27 اغوا کار سمیت 22 سو سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن کے قبضے سے 4 ہزار ہتھیار برآمد ہوئے جب کہ رینجرز کے مقابلے میں 115 ملزمان ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود کراچی میں امن کا قیام ہنوز تشنہ تعبیر ہے آج بھی 10/5 افراد کے قتل کی خبریں روزانہ شایع ہو رہی ہیں یہ شہر اب قبضہ مافیاز، ٹارگٹ کلرز، رہزنوں، لٹیروں، بھتہ خوروں، اغوا کاروں، لسانی و فرقہ وارانہ متعصبوں اور منشیات و اسلحہ فروشوں سمیت ہر قسم کے جرائم کرنے والوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں سے فرار ہوکر آنے والوں نے بھی شہر قائد میں مستقل ڈیرے ڈال لیے ہیں کراچی کے بعض علاقے مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہیں۔

شہر کو مقتل بنانے میں وہ بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ سے کوئی محفوظ نہیں عام شہری کے علاوہ مذہبی و سیاسی رہنما، کارکن، وکلا، ججز، تاجر، اساتذہ، سماجی رہنما، ڈاکٹرز، صحافی، میڈیا ہاؤسز، مساجد اور امام بارگاہیں غرض ہر شخص و ادارہ ٹارگٹ کلرز کے نشانے پر ہے۔ شہر آگ و خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ امن قائم کرنے کی ہر کوشش ناکام نظر آتی ہے لوگ زندگی کا تحفظ مانگ رہے ہیں۔ ابھی چار روز قبل جناح اسپتال کراچی کے ایم ایل او ڈاکٹر منظور میمن کو قتل کردیا گیا جس پر کراچی و سندھ کے تمام ڈاکٹر سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور سندھ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے تمام ایم ایل اوز کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

سندھ حکومت نے کراچی کے امن کے لیے انسداد دہشت گردی کے نام سے ایک نیا محکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آگ و خون کا کھیل کراچی تا خیبر پھیلتا جا رہا ہے، قاتل آزاد عوام محصور ہوتے جا رہے ہیں۔ ملتان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن راشد رحمن ایڈوکیٹ کے قتل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی و سماجی رہنما سراپا احتجاج ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے راشد رحمن کے قتل کی ایوان بالا میں شدید مذمت کی۔ ان مخدوش حالات میں وزیر اعظم ملک کے نظم و نسق کو پرامن طریقے سے چلانا چاہتے ہیں تو پہلے سنجیدگی کے ساتھ کراچی کو چلانا پڑے گا لیکن سوال وہی ہے کہ کراچی کب چلے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں