ہیں کواکب کچھ…
اس قوم کو غرور و تکبر اور ناشکری کے باعث کئی بار عذابوں میں مبتلا کیا گیا
فلسطین میں آج جو ہو رہا ہے، وہ ہماری ماڈرن دنیا کے سامنے ہو رہا ہے۔ یہ وہی جدت پسند، لبرل، ترقی یافتہ، رحم دل، سماجی ذمے داریوں کی علم بردار، عورتوں کے حقوق کے لیے سب سے آگے، یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق اور ان کی حفاظت کے لیے بے قرار یہ دنیا کہ اس دنیا کے بے انتہا بے پناہ رنگ و چہرے۔ ابھی او آئی سی کے عرب لیگ میں مسلم ممالک کے تمام حکمران جمع ہوئے۔ اپنے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا گیا، چلو جی ایک بڑی بیٹھک تو ہو گئی۔
اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس کے لیے اس کی اتنی حیثیت نہیں ہے، یہ درست ہے کہ اس کے پاس ڈالرز، پاؤنڈز، یوروز اور نہ جانے کتنی کرنسیوں کے انبار ہیں، پر اس کے پاس انسانی قوت کی کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹیکنیک کے اعتبار سے اسرائیل ایک ہارا ہوا فاشسٹ نظر آ رہا ہے جو مظلوموں، نہتوں کو زیر کرنے میں مصروف ہے، وہ اپنے ہونے والے نقصان کو چھپا کر اندر سے لرزتے کانپتے دل سے بظاہر سینہ تانتے آگے بڑھ رہا ہے۔
او آئی سی میں یقینا تمام حکمرانوں نے بہت اچھی اور وہ باتیں کیں جو یقینا غزہ کے لیے بہت اہم ہیں لیکن آج، ابھی اور اس وقت کے لیے کیا کیا جائے والی تحریک سمجھ نہ آئی لیکن دوسری جانب دیکھئے کہ اسرائیل کی امداد میں امریکا کے بعد اب برطانیہ بھی آگے بڑھ کر آگیا ہے۔
برطانوی بھارتی نژاد رشی سونک پہلے طیارہ بھر کر جنگی سامان کے ساتھ خود بھی اسرائیل درآمد ہوئے تھے کہ ان کے تئیں کفار کی مدد بڑا اہم اور انسانیت کا کام تھا جس کی بڑی خبریں دنیا بھر کے نیوز چینلز پر کور کی گئی تھیں، ویسے بھی بھارتی میڈیا اسرائیل کی کارگزاریوں سے زیادہ حماس کے مظالم ڈھونڈنے پر جتا رہتا ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے انہیں اسپانسر کیا جا رہا ہے۔
اب اس قدر بڑے سونے کے خزانے کا کام بھی کیا جو وقت پر کام نہ آئے، ویسے بھی بھارتی اسٹیج پر اس قسم کے کاموں میں ہرگز بھی پیچھے نہیں ہٹتے، شاید اسی لیے ہر چھوٹے بڑے چینل کے نمایندے دوڑے دوڑے اسرائیل جا رہے تھے۔
اسرائیل اور بھارت دوستی آج سے نہیں برسوں سے قائم ہے، اسرائیل نے راجستھان میں اپنی تجرباتی لیب قائم کر رکھی تھی، غزہ کو زیر کرنے کے منصوبے تو ویسے بھی ان کے دیرینہ ہی ہیں اور دوست مل جائے تو ساتھ آسان ہو جاتا ہے۔ دوست بھی ایسے کہ اب برطانیہ بھی امریکا کے بعد اسرائیل کی مدد کے لیے جاسوسی انجام دے گا۔ یہ کام تو پہلے ہی انجام دیتے آئے ہیں لیکن اب باضابطہ طور پر کھل کر اسے انجام دینے میدان میں اتر آئے ہیں۔ گویا آپ سوچتے رہئے ہم تو عمل کرنے اتر آئے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد پندرہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اکتالیس ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں، شہدا میں ساڑھے چھ ہزار سے زائد تو معصوم بچے ہی ہیں۔
اسرائیل کے جنگجوؤں کا کیا کہنا کہ ان کے مطابق الشفا اسپتال پر حملہ کرنا دراصل حماس کے لڑاکوؤں کو پکڑنا تھا اور اس جواز کے تحت انہوں نے حماس سے متعلق کتابچے اور کچھ کتب اور اسلحہ اکٹھا کر ہی لیا تھا جو بڑی جدوجہد کے بعد بی بی سی کے رپورٹر کو اپنے تئیں ثبوت کے طور پر دکھایا بھی گیا، گویا دنیا کو یہ بتا دینا کہ اسپتال پر حملہ کرنے کا کوئی جواز تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں سے اسرائیلی آرمی کو حماس کے حوالے سے کچھ بھی نہ ملا تھا۔
جاننے والے اور سمجھنے والے خوب جانچ چکے ہیں کہ اس اندھادھند بمباری اور نسل کشی کی داستان کیا ہے؟ اسرائیل کے اپنے مقاصد جس جنگ و جدل سے جڑے ہیں وہ ہے زمین کا حصول۔ اقوام متحدہ اور اس کے اراکین ادارے اور علم بردار جو تنخواہ دار ہیں اور اس کے کھاتے پر پلتے ہیں، مجبور ہیں اور یہ کیسی بے چارگی کا وقت ہے کہ انسان محض مادیت کے حصول اور ذاتی مفاد کی خاطر انسانوں کے خون کا الزام اپنے سر لے رہا ہے۔
یہ الزام نہیں بلکہ سیدھا جرم ہے جو بڑے بڑے ایوان اپنے کندھوں پر سنبھالے چل رہے ہیں۔ وہ انسان جو مظلوم، نہتے اور معصوم بچوں کے معصوم گوشے سنبھالے لاشوں کی صورت میں پڑے ہیں اور دنیا خاموش ہے۔
کیا اسرائیل موجودہ صورت حال میں حق دفاع رکھتا ہے؟ یہ کون سا دفاع ہے جو ان گنت بموں کو غزہ پر گرانے کے بعد بھی ختم نہیں ہو رہا اور اب اس جنگ کا مقصد کون سے عوامل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے؟ امریکا، برطانیہ اور فرانس اب کیا چاہتے ہیں؟ اسرائیل دنیا کا ایک تاریک نقطہ ہے جسے اس کی بے پناہ تجارت کے باعث بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے اس میں کیا فارمولا ہے؟
یہ صاف ظاہر ہے کہ ارض فلسطین ایک مقدس حیثیت رکھتی تھی اور ہنوز قائم ہے جس کے ذرے ذرے کی حفاظت اور اس کی خاطر جدوجہد کرنا اس مقصد کی راہ گزر کو شاد کرتی ہے لیکن بظاہر اس راستے میں خون بکھرا نظر آ رہا ہے۔ ہماری نظریں اسی خونی راہ گزر پر ہیں۔ یہ طے تھا کہ کتنے شہید اس مقدس مشن کے لیے اپنا نام لکھیں گے، یہ حکمت کہیں اور سے طے تھی ورنہ اسرائیل جیسی بے سروسامان قوم کی حیثیت ہی کیا تھی۔
قرآن پاک کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد (فرعون کے بعد) بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا لیکن ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ موخر کر کے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا۔ پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے، سورۃ الشعرا میں اس کا ذکر ہے۔
اس قوم کو غرور و تکبر اور ناشکری کے باعث کئی بار عذابوں میں مبتلا کیا گیا۔ پھر آج یہ کیا عجب ہے کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود وہ دولت و طاقت کے دیوتا بنے ہوئے ہیں۔ قانون قدرت اور قیامت کی نشانیوں میں سے بہت کچھ تو عیاں ہو ہی چکا ہے اور ابھی کچھ باقی ہے لیکن بات پھر وہی آتی ہے کہ کون نیکیوں میں اپنا حصہ ڈالتا ہے، کمزور، غریب لیکن اپنے رب پر بھرپور یقین رکھتے ہوئے بس اس کی جانب دیکھتا ہے، وہ کسی بڑے طاقتور ہاتھی سے ہرگز بھی مرغوب نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا جینا اور مرنا تو طے ہے پھر کیسی علت، کیسی جھجک، اور کون کسی کی طاقت اور رعب سے متاثر ہو کر نیکیوں سے پیچھے ہٹتا ہے گویا اسے اپنے رب پر یقین ہی نہیں کیونکہ اس کے دل میں تو چور دروازہ ہے اور چور زور زور سے سرکشی میں قہقہے لگا رہا ہے۔