فیض کار زار صحافت میں آخری حصہ
فیض جانتے تھے کہ امن کا مسئلہ انصاف، مساوات، آزادی اور اجتماعی خوشحالی سے جڑا ہوا ہے
سید سبطِ حسن نے صحافت کی دنیا میں ان کے ساتھ کام کیا تھا وہ فیض صاحب کی صحافتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
'' فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انھوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انھوں نے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف بھی نہ لکھا۔ بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی۔ اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انھوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دلچسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے کر پڑھتے تھے۔''
سب سے مقبول اور معتبر ہفت روزہ رسالوں میں '' لیل و نہار '' کا مقام بہت نمایاں ہے۔ یہ ہفت روزہ 1957 میں شایع ہونا شروع ہوا تھا۔ اس کے ابتدائی شماروں پر فیض صاحب کا نام مدیر کے طور پر شایع ہوا لیکن چند ماہ بعد ان کا نام چیف ایڈیٹر اور سبط حسن کا نام مدیر کی حیثیت سے شایع ہونے لگا۔
فیض صاحب کی زیر ادارت پی پی ایل کے اخباروں اور رسائل نے ملکی صحافت میں اہم مقام حاصل کر لیا۔ ان پرچوں نے نہ صرف نئے صحافتی رجحانات متعارف کروائے بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستانی صحافت کا نام روشن کیا۔ '' لیل و نہار'' پر پابندی لگادی گئی تھی۔ 1970 کو '' لیل و نہار'' دوبارہ جاری ہوا تو فیض صاحب اس کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے یہ رسالہ ڈیڑھ سال تک نکلتا رہا۔
نئے حالات میں فیض صاحب نے ' لیل و نہار' کا نیا مزاج بنایا اور خود اداریے لکھے، سیدہ برجیس بانو کے مطابق 'لیل و نہار' میں تقریباً 139 اداریے فیض صاحب کے تحریر کردہ ہیں جن میں ملکی و غیر ملکی اہمیت کے بہت سے مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ 1970 کے انتخابات میں انھوں نے زیادہ تر اداریوں میں الیکشن کی اہمیت، انتخابی مہم، سیاسی پارٹیوں کا منشور وکردار، مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی رنجشیں جیسے مسائل کو موضوع بحث بنایا۔
دنیا میں جب نو آبادیاتی نظام کے خلاف قومی آزادی کی جنگیں کامیاب ہو رہی تھیں تو افرو ایشین رائٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے '' لوٹس'' نامی رسالہ نکالا گیا جو تین زبانوں میں مصر، لبنان اور جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک سے شایع کیا جاتا تھا۔
بیروت سے نکلنے والے شمارے کے مدیر فیض احمد فیض تھے۔ انھوں نے اس دور میں بیروت میں بیٹھ کر صحافت کی جب اس شہر میں موت کا بسیرا تھا اور وہاں صدیوں سے آباد خاندان بھی اس شہر کو چھوڑنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ خاک اور خون میں ڈوبے اس شہر کی ایک تباہ شدہ عمارت میں بیٹھ کر وہ فلسطین کی آزادی کے لیے علمی اور ادبی جریدے '' لوٹس'' کے لیے کام کرتے رہے۔
میں یہاں فیض صاحب کے اس اداریے کا حوالہ دینا چاہوں گی جو چار مارچ 1948 کو روزنامہ امروز میں شایع ہوا تھا۔ اسے پڑھ کر مدیر کے منصب پر پہنچنے والا ہر صحافی اداریہ نویسی کی نزاکتوں اور باریکیوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ فیض صاحب لکھتے ہیں۔
''ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پڑھنے والے اپنے دیس اور باقی دنیا کے حالات کا صحیح اور بے لاگ اندازہ کرسکیں۔ اس کے لیے کسی خاص عقیدے یا نقطۂ نظر کو ان پر ٹھونسنے کے لیے خبروں میں ملمع اور رنگ سازی سے احتراز کیا جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں دنیا کی کوئی قوم اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ چن کر بسر اوقات نہیں کرسکتی۔ اس لیے پاکستان کے عوام کو اپنے مسائل اور سیاسی مسلک کو ایک حد تک باقی دنیا کے مسائل اور مسالک سے منطبق کرنا ہوگا اس کے لیے دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی نقشے پر ان کی نظر جمی ہونی چاہیے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی دولت ہمارے وسیع میدان، فلک آشنا پہاڑ، ہمارے لہلہاتے ہوئے کھیت، بہتے ہوئے دریا، ہماری مدفون معدنیات یا معلوم دنیوی ذخائر نہیں، ہماری سب سے بڑی دولت ہمارے عوام ہیں۔ پاکستان کی عظمت اور خوشحال کا وارثِ اول بھی انھی کو ہونا چاہیے۔ اس لیے ہمیں لازم ہے کہ ہر سیاسی و سماجی یا اقتصادی مسئلہ کو ان ہی شاکر اور بے زبان عوام کی نظر سے دیکھیں اور ان کے مسائل لاتعداد ہیں۔
ہمارا ایمان ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ اول پاکستان کے عوام کے سیاسی اور جمہوری حقوق کا پورا تحفظ ہو۔ دوم پاکستان کے مادی ذرایع اور ذخائر کی پوری درآمد اور اکتساب اور منصفانہ تقسیم کی جائے۔ یہ دونوں باتیں اس وقت تک ممکن نہیں جب تک داخلی اور خارجی طور پر امن و آشتی کی بنیادیں استوار نہ ہوں۔''
فیض جانتے تھے کہ امن کا مسئلہ انصاف، مساوات، آزادی اور اجتماعی خوشحالی سے جڑا ہوا ہے۔ کسی بھی خطے کے ناراض لوگوں کو سماجی انصاف، مساوی مواقع اور مناسب روزگار، انھیں عزت نفس اور تحریر و تقریر کی آزادی فراہم کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ اس نکتے سے آگاہ تھے اور اسی لیے ان تمام سیاسی معاملات کو اپنی شاعری میں یوں بیان کرتے رہے کہ انقلاب اور آزادی نے ایک پری کا روپ دھارا جو ہر گھر کا پھیرا لگائے گی جو محروموں اور مجبوروں کو چین آرام سے آشنا کرے گی۔
فیض صاحب سے آخری ملاقات عجب طور ہوئی۔ سردیوں کی شام تھی۔ سات بجے کے لگ بھگ کچھ لکھتے لکھتے ایک کتاب کی فوری ضرورت پڑی۔ مجھے یاد تھا کہ وہ کتاب غالب لائبریری میں ہے۔ لائبریری کے بند ہونے کا وقت قریب تھا اور علاقے میں کرفیو لگنے کا وقت بھی ہوچلا تھا۔ غالب لائبریری ناظم آباد میں ہے اور ناظم آباد شہر کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جو عموماً فساد زدہ رہتے ہیں۔ ایسے کڑے وقت میں ندیم اختر نے حسب عادت مشکل کشائی کی اور آندھی اور طوفان کی طرح گاڑی اڑا کر مجھے غالب لائبریری لے گئے۔
میں جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر پہنچی تو دروازے کے سامنے ہی بڑی میز کے گرد پڑی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر فیض صاحب بیٹھے تھے۔ ساتھ میں شان الحق حقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشفق خواجہ، ڈاکٹر معین الدین عقیل اورکچھ لوگ بھی تھے۔ غالب لائبریری کے روح رواں اور فیض صاحب کے عاشق مرزا ظفر الحسن راہئ ملکِ عدم ہوچکے تھے اور میٹنگ ان کی رخصت سے پیدا ہونے والے مسائل کو سلجھانے اور غالب لائبریری کو مناسب طور پر چلاتے رہنے کے لیے ہورہی تھی۔
فیض صاحب کو دیکھتے ہی مجھ پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ اس مرتبہ فیض صاحب کو شہر میں آئے ہوئے دو ڈھائی ہفتے گزر چکے تھے لیکن میں ابھی تک ان کی مزاج پُرسی کو نہیں گئی تھی۔ میں نے انھیں اور سب کو آداب کیا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے،گلے لگایا، پیشانی چومی۔ ملاقات نہ کرنے کی شکایت کی پھر کہنے لگے '' ہم کل جار ہے ہیں۔ اب اگلے مہینے آئیں گے۔ تمہارے لیے ایک تحفہ خیال میں ہے۔ آنے پر دیں گے۔''
میں نے گھبراہٹ میں جانے ان سے کیا کہا۔ تحفہ دینے کے وعدے کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ مجھے کچھ یاد نہیں۔ ان سے رخصت ہوکر جس کتاب کی تلاش میں آئی تھی اسے ڈھونڈنے میں لگ گئی اور وہ چلے گئے۔ اس لمحے میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھا کہ انھیں آخری بار دیکھا ہے۔
ان کی موت کے مہینے یا شاید ڈیڑھ مہینے بعد ایک روز اچانک نصیر ترابی کا فون آیا۔ اس فون سے مجھے اندازہ ہوا کہ فیض صاحب وعدے کے کتنے کھرے تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ میرے لیے کون سا تحفہ ان کے خیال میں تھا۔ نصیر نے بتایا کہ ختم ہونے سے ایک روز پہلے میری کہانی '' بود و نبود کا آشوب'' کا انگریزی ترجمہ "The Torture of To Be or Not To Be" کے عنوان سے Lotus کے لیے مکمل کیا تھا۔ یہ ان کے قلم سے نکلنے والی آخری تحریر تھی۔ ایلس فیض کو اس کا ڈرافٹ ٹائپ کے لیے دیا تھا لیکن موت نے ٹائپ شدہ مسودہ دیکھنے کی مہلت نہ دی۔
یہ سب کچھ جان کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے فیض صاحب نے غالب لائبریری کی چھت کے نیچے میری پیشانی چوم کر جب ' تحفے' کا وعدہ کیا تھا تو دراصل بزبانِ خامشی انھوں نے مجھ سے ایک وعدہ بھی لیا تھا۔ اپنا قبلہ درست رکھنے اور مظلوموں کے قبیلے سے جڑے ہوئے رہنے کا وعدہ، قلم سے رشتہ استوار رکھنے اور انسانوں کے لیے لکھتے رہنے کا وعدہ۔ میں آج بھی وہ وعدہ نبھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔