کہیں آپ بھی یہ غلطیاں تو نہیں کر رہے

وہ عادات جو آپ کی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں!


تحریم قاضی December 10, 2023
وہ عادات جو آپ کی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں! ۔ فوٹو : فائل

ہم روزمرہ زندگی میں بے شمار ایسے کام کرتے ہیں جن کے پیچھے یہ سوچ ہوتی ہے کہ وہ ہماری تندرستی کاباعث بنیں گے۔ لیکن ہر بار ہم صحیح نہیں ہوتے۔انسان کے اندر اپنی صحت کی بہتری اور جدید رجحانات کو لے کر جستجو ہوتی ہے کہ وہ خود کو بہتر سے بہترین کی جانب لے جائے۔

فیٹنس انڈسٹری کا دور دورہ ہے اور یہاں آپ کو فوری وزن کم کرنے، قوت و ہمت کو بڑھانے اور صحت مند زندگی گزارنے کے خوشنما دعوے جگہ جگہ ملتے ہیں۔یہ رجحانات ڈیٹوکس چائے سے لے کر سخت ڈائٹ پلانز تک مارکیٹنگ کرتے ہیں جس کا محرک صحت کا حصول ہوتا ہے۔یہ اشتہارات اس قدر خوش کن اور دلفریب معلوم ہوتے ہیں کہ لوگ بھاگ بھاگ کر ان چیزوںکو خریدنے لگتے ہیں۔

یہ جانے اور سمجھے بنا کہ ان سے ممکنہ نقصانات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ضروری نہیںکہ جس پروڈکٹ کو آپ خرید رہے ہیں وہ آپ کو تندرستی سے روشناس کرائے۔ بلکہ وسیع النظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ مصنوعی اشیاء غذائیت کی کمی،غیرپائیدار عادات اور مضر صحت اثرات سے بھی دوچار کر سکتی ہیں۔ہر چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اس کے منفی و مثبت اثرات کا جائزہ لینا چاہئے۔ آئیے جانتے ہیںکچھ ایسی عادات کے حوالے سے جو بظاہر تو صحت بخش معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ ہماری صحت کے لئے سود مند نہیںہوتیں۔

ورزش

یہ تو ہم سب نے سن رکھا ہے کہ ورزش کرنا ایک مفید عمل ہے جو ہماری ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر بناتا ہے۔لیکن کوئی بھی چیز اگر اعتدال سے نہ کی جائے تو اس کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے کہ اگر ورزش کثرت سے کی جائے تو یہ صحت کے لئے خطرناک نتائج دے سکتی ہے۔

اپنی جسمانی حدود سے تجاویز کرتے ہوئے ورزش کرنا سنگین مسائل سے دوچار کر سکتا ہے جیسا کہ پٹھوں میں کھیچاؤ، جوڑوں کا درد اور چوٹیں، بعض صورتوں میں تو اوور ٹریننگ سنڈوم بھی ہوسکتا ہے ۔یہ سنڈوم ورزش کرتے ہوئے درست اینگلز کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے پٹھوںمیں شدید درد سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ ورزش نہ کرنے اور بیٹھے رہنے والے طرزِ زندگی کے بھی اپنے نقصانات ہیں۔جسمانی مشقت کا نہ ہونا وزن میں اضافے ، امراض قلب اور دائمی بیماریوںکا باؑعث بنتا ہے۔ورزش اور آرام میں توازن پیدا کرنا اہم ہے۔

ہمارے جسم کو صحت یابی اور مرمت کے لئے مناسب وقت درکار ہوتا ہے، اور ایک متوازن نقطہ نظر اس کو یقینی بناتا ہے کہ جسمانی سرگرمیوں سے کیسے فائدہ اٹھا کر ممکنہ منفی نتائج کو کم کرنا ہے۔جسم کو آرام اور ورزش کے درمیان ہم آہنگی سے ہمکنار کرنا نا صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کو فروغ دیتا ہے ۔ جو کہ ایک پائیدار، جامع اور صحت مند طرز زندگی کے مطمع نظر کو فروغ دیتا ہے۔

اپنے معمولات زندگی میں ورزش کو ایک متوازن طرز سے اختیار کرنا آپ کو لطف اندوز کرتا ہے۔چاہے یہ چہل قدمی کی صورت ہو، سائیکلنگ کی، یوگاکی یا کسی بھی ایسی سرگرمی کی جو آپ کی دلچسپیوںسے میل کھاتی ہو۔آجکل ٹیکنالوجی نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں جیسا کہ سیڑھیاں چڑھنا ایک قسم کی جسمانی ورزش ہے جس کی جگہ اب لفٹ نے لے لی ہے۔یوں ہی خواتین کے لئے گھر کے بہت سے کاموں میں جسمانی ورزش کے مواقع موجود ہیںجیسے لانڈری کرنا، برتن دھونا، آٹا گوندھنا لیکن اس سب کے لئے اب مشینیں آگئی ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ طرز زندگی میں بدلاؤ تو آتا ہی ہے اس میں اہم یہ ہے کہ اپنے معمول میں ورزش کو ضرور شامل کی جائے اور اس میں جارحانہ طرز عمل اپنانے کے بجائے اعتدال برتا جائے۔

اگر جم یا فٹنس سینٹر جائیں تو ماہرین سے مشورہ کریں اور باقاعدہ ٹریننگ لیں کہ آپ کو کس قسم کا ورک آوٹ کرنا ہے۔عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ ورزش کی ضرورت موٹاپے کا شکار ہونے پر ہی پڑتی ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہرانسان کو تندرست رہنے کے لئے جسمانی مشقت درکار ہوتی ہے اور ورزش اس ضمن میںاہم کردار ادا کرتی ہے۔اگر جسم کی ضرورت کے مطابق ورزش کی جائے تو اس کے فوائد دیر پا ہوتے ہیں۔ جو آپ کو تا دیر تازہ دم اور جوان رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

غذا

غذاء یعنی ڈائیٹ کا ہماری زندگی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمارا کھانا پینا ہماری جسمانی صحت کی ضمانت ہے۔اچھی اور متوازن غذا انسان کو صحت مند بناتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس غذا کی سخت پابندی جسے عام طور پر انتہائی شدت سے کی جانے والی ڈائیٹنگ کے نام سے جانا جاتا ہے ذہنی و جسمانی صحت کے لئے مضر ہے۔ایسی سخت ڈائیٹ جسم کو ان خاص غذاء اجزاء سے محروم کر دیتی ہے جو کہ مجموعی صحت کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔



اس طرح ایسی سخت ڈائیٹنگ جسم میں منفی جذبات کو تحریک دیتی ہے جو کہ اینگرائیٹی کا باعث بن سکتے ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق اگر جسم کو ایک تناسب سے خوراک نہیں ملتی تو اس سے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جیسے کے ذہنی دباؤ، جو بعض اوقات غیر معمولی کھانے کی عادات کو جنم دیتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ لوگ بہت زیادہ کھانے لگتے ہیں اور کچھ کھانے سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔

یہ ڈائیٹس کچھ عرصے کے لئے تو بھلی معلوم ہوتی ہیں اور ان کے وقتی فوائد بھی دکھائی دیتے ہیں مگر طویل مدت میں یہ نا پائیدار نتائج دیتی ہیں۔ جوکہ مطلوبہ نتائج برقرار رکھنے کے لئے ناکافی ہیں۔خوراک کے انتخاب میں توازن برقرار رکھنا ،غذائیت کو یقینی بنانا ہی صحت کے لئے ایک درست فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ خوراک کی متنوع اقسام کا انتخاب جسم کو ضروری وٹامنز، معدنیات اور دیگر اہم غذائی اجزاء ہی صحت کی ضمانت ہیں۔ڈائیٹنگ کے برعکس ایک متوازن غذا کو اپنی روٹین میں شامل کرنا ، قدرت کے ذائقوں اور نعمتوںکو چکھنا ، فروٹس، سبزیوں، پروٹین، اناج، کاربوہائیڈریٹس اور دیگر کا مناسب استعمال ناصرف صحت پر اچھا اثر ڈالے گا بلکہ مزاج پر بھی اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈاکٹر

ہمارے ہاں ایک خیال یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس اسی صورت ہی جانا ہے جب آپ بیمار ہوں۔جب تک بیماری شدت اختیار نہ کر لے معالج سے رابطہ کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن دیکھا جائے تو سال میں ایک یا دو مرتبہ ڈاکٹر سے ایک ریگولر چیک اپ کروانا احتیاطی نگہداشت کے زمرے میں آتا ہے۔

یہ مستقبل میں آنے والے سنگین خطرات سے بچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ایسا کرنے سے وقت کے ساتھ جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہی ، بیماریوںکی شناخت اور صحت کو بہتر کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔یہ صحت کے مسائل کو حل کرنے کا بہترین اور آسان طریقہ ہے جس میںآپ کے کم سے کم وسائل استعمال ہوتے ہیں اور بیماریوںس ے لڑنے کی پیشگی اطلاع بھی ملتی ہے۔جیسے کچھ بیماریاں دائمی ہوتی ہیں وہ جانے کب سے ہمارے اندر پل رہی ہوتی ہیں اور ہم ان سے بے خبرہوتے ہیں۔ لیکن اگر ریگولر چیک اپ ہو تو ان کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔

جیسا کہ بلڈ پریشر، بلڈ شوگر، کولسٹرول لیول کو ابتدائی سطح پر جانچا جاسکتا ہے۔اگر سال میںایک مرتبہ ٹیسٹس کر والیئے جائیں تو امراض قلب، کینسر، شوگر اور دیگر بیماریوں کی تشخیص ہو سکتی ہے۔اسی طرح ویکسینیشن کروانے سے بھی وبائی امراض سے بچا جاسکتا ہے۔احتیاطی نگہداشت کو ایک مثبت نقطہ نظر کے طور پور اپنانا ، متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش اور ذہنی دباؤ سے بچنے کی تدابیر ایک صحت مند طرزِزندگی کے ضمانتی اقدامات میں سے اہم قدم ہیں۔

مثبت طرزِ عمل و فکر

ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ مثبت رہنا اور سوچنا ہی زندگی کو خوشگوار بنا تا ہے۔ جو کہ بہت حد تک درست بھی ہے۔ بلا شبہ،مثبت سوچ مثبت کردار کو جنم دیتی ہے۔لیکن انسان کو اللّٰہ نے مختلف جذبات دے کر بھیجا ہے۔ اور کوئی بھی صناع اپنی صناعی میں جو رنگ بھرتا ہے وہ بے مقصد اور بلا ضرورت نہیں ہوتے۔ مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب کسی بھی جذبے میں شدت ہو چاہے وہ منفی ہو یا مثبت۔ جب افراد حقیقی منفی جذبات کو مسلسل رد کرنے کی کوشش کریں تو اس سے ایک ایسے دکھاوے کا سلسلہ جنم لیتا ہے۔

جو کہ انسان کی خوشیوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔جب کوئی خود پر مثبت ہونے کا ٹیگ لگانے کی کوشش میں دبے ہوئے جذبات و احساسات کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے تناؤ اور تنہائی جنم لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ پریشر کہ لوگ ان کے منفی جذبات کو ناپسند کریں گے ان کو اپنے حقیقی جذبات کے سرعام اظہار کرنے سے روکتا ہے۔مثبت رویے کے اس اظہار کو ہم زہریلی مثبت سوچ کا نام دے سکتے ہیں۔ جو کہ انسان کو ذاتی طور پر تباہ کر دیتی ہے۔یہ انسان کے اندر احساس ، باہمی ہمدردی کی کمی اور اپنے حقیقی احساسات وجذبات کو سمجھنے میں دشواری پید اکر دیتی ہے۔

اہم یہ بات سمجھنا ہے کہ ہم انسان ہیں اور ہمارے اندر احساسات و جذبا ت کا ایک متنوع سمندر ہے جس میں مختلف لہریں اٹھتی ہیں اور بعض اوقات سیلانی ریلوں کی صورت بھی نکلتی ہیں جو کہ نارمل ہیںاگر اس پر بند باندھنے کی اور مصنوعی طورپر روکنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا منفی رد عمل سامنے آئے گا۔ ہماری ضروریات، عادات، خواہشات اور نظریات کی ایک دنیا ہمارے اندر بستی ہے اور اس دنیا سے آگاہی ہماری اپنی ذات کے سکون کے لئے اہم ہے۔

جہاں مثبت جذبات ہمیں خوشی اور سکون دیتے ہیں وہیں منفی جذبات ہماری خود نموئی اور اپنے اندرلچک پیدا کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔اپنے قدرتی جذبات کو بلاوجہ دبانا ذہنی آسودگی کو سٹریس ، اینگرائٹی یہاں تک کہ جسمانی صحت کے مسائل کی جانب دھکیلتا ہے۔اپنے جذبات سے آگاہی ناصرف ہمیں خود کو اور دوسروں کو وسیع کینوس میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ، ہمددری، ذہانت،تجسس، مضبوط باہمی روابط اور زندگی میں درپیش مختلف مشکلات و مصائب سے نبٹنے میں مدد دیتی ہے۔



تنہائی

تنہائی کو لوگ اکثر اس بات سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہ خود آگاہی کے لئے موثر ہے۔ تنہائی میں انسان خود کو بہتر انداز سے جانچ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وسیع النظرمیں تنہائی انسان کو انسانی میل جول سے ملنے والے فوائد سے محروم کر دیتی ہے۔جس سے اس کے اندر اکیلا پن، ڈپریشن اور شدید ذہنی دباؤ جیسی کیفیات جنم لیتی ہیں۔اور ایک تنہائی کا دورانیہ طویل ہوجائے تو منفی خیالات کی یلغار، خود اعتمادی کی کمی اور سماجی نشوونما روک جاتی ہے۔مشہور یونائی فلسفی ارسطو نے کہا تھا،''انسان سماجی حیوان ہے'' جو کہ درست ہے۔ انسان کا انسان کے ساتھ رابطہ معاشرتی تانے بانے کو بننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انسان کو اللّٰہ نے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے لئے اس کی ضروریات کو مختلف ذرائع میں بانٹ رکھا ہے ۔ کیونکہ قدرت بھی باہمی تعلق کی پذیرائی اور خود انحصاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ ہر چیز ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے ۔

قدرت کا یہ چکر کائنات کے نظام کو بیلنس کئے ہوئے ہے۔جہاں یہ بیلنس خراب ہوگا انتشار ہوگا۔ اب جس انسان کو انسان سے تعلق اور میل جول کے لئے بنایا گیا ہے وہ خود کو یکتا مان لے اور خود کو تنہائی میں دھکیل دے تو اس کے منفی اثرات تو مرتب ہوں گے۔ تنہائی کا شکار افراد کو ایک متوازن طرزِ زندگی سے محرومی تحفے میں ملتی ہے۔ ایسے افراد کو معاشرتی روابط میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ ذاتی نشوونما کے عمل کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ایک تحقیق میں تو یہاں تک کہا گیا کہ تنہائی صحت کے لئے اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنا بیک وقت دس سگریٹ پینا۔تنہائی کے ان مٖضر اثرات سے بچنے کے لئے اپنے معمولات زندگی میں باقاعدگی، سماجی سرگرمیوں میں شمولیت اور میل جول ناگزیر ہے۔

اس ضمن میں اپنے رجحانات سے وابستہ مشاغل کو اپنایا جاسکتا ہے جیسے کلب، جم، مخصوص کلاسز یا سماجی سرگرمیوں سے وابستہ گروپوں کو جوائن کیا جاسکتا ہے۔یہاں آپ کو ناصرف ہم خیال لوگ ملیں گے بلکہ آپ کو اچھے دوست بھی مل سکتے ہیں۔کمیونٹی ایونٹس میں مشٖغول ہونے اور رضاکارانہ طور پر کام کرنے سے صرف آپ کی تنہائی جاتی رہے گی بلکہ معاشرے کے لئے کچھ مثبت کرنے پر سکون بھی ملے گا۔فیملی اوردوستوں کے ساتھ وقت گزارنا مثبت جذبات کو فروغ دیتا ہے۔

سستی

عموماً لوگ کام کے بعد آرام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔آرام کرنا بلاشبہ ضروری ہے لیکن کچھ لوگ حد سے زیادہ آرام کے قائل ہوتے ہیںبلکہ سستی کا شکار ہوتے ہیں۔ سستی انسان کے اندر ترقی کی جستجو کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔اور سستی کی وجہ سے زیادہ دیر تک سونا جسم کے اندر موجود قدرتی ردھم کو متاثر کرتا ہے جو ہمارے سونے جاگنے کی ایک متوازن روٹین کو برقرار رکھتا ہے۔

انسان دن بھر جو کام کرتا ہے اس کی وجہ سے اس کے جسم کے اندر توڑ پھوڑ چلتی ہے اور رات کو نیند کے دوران اس کی قدرتی طور پر مرمت ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی مناسب نیند نہیں لیتا یا پھر حد سے زیادہ سوتا ہے تو ایساکرنے سے اس کے اند ر تھکاوٹ کا احساس غالب رہتاہے جو کہ اسے کام پر توجہ مرکوز رکھنے اور دباؤ سے بچنے میں معاونت فراہم نہیں کر پاتی۔ذہنی طور پر تھکا ہوا انسان کوئی بھی کام نہیں کر سکتا ۔یہ تھکاوٹ سستی اسے ذہنی و جسمانی صحت سے محروم کر دیتی ہے۔

ایک متوازن انداز میں آرام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نیند لیں اگر کام کے دنوں میں آپ کی نیند آٹھ گھنٹے ہے تو ویک اینڈ پر دس گھنٹے سو لیں لیکن سارا ویک اینڈ سو' سو کر گزارنا بالکل غلط ہے۔اور پرسکون نیند کے لئے اردگر د کا ماحول پُر سکون ہونا چاہیئے۔آرام گاہ صاف ہو، سونے سے قبل اندھیرا ہو، ہوادار ہو اور کیفین( کافی اور چائے میں پایا جانے والاعنصر جوکہ ذہن کو متحرک کر دیتا ہے) کا استعمال نہ کیا جائے تو ایک بھرپور نیند کے بعد صبح تازہ دم ہوں گے۔

وزن

کچھ افراد اپنے وزن کو لے کر حد سے زیادہ حساسیت کاشکار ہوتے ہیں اور جب دیکھو اپنا وزن تولتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح اپنے وزن کو ایک مخصوص پیمانے پر روک لیں اور اسے بڑھنے ہی نہ دیں۔ یہ خبط قطعی طور پر صحت کے لئے نفع بخش نہیں ہے۔ویٹ مشن پر آپ کو ایک مجموعی وزن کی تصویر ملتی ہے جس میں پٹھوں،ہائیڈیشن کی سطح اور جسمانی ساخت جیسے عوامل نظر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔

روزانہ کی بنیاد پر وزن چیک کرنا آپ کو ایسے رویے کی جانب دھکیلتا ہے جو کہ صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایسے کرنے پر آپ کھانے کی روٹین میں تبدیلیاں لے کر آتے ہیںاور ڈائیٹنگ کو ترجیح دیتے ہیں جس میں غذائیت کی کمی جسمانی صحت کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے۔وزن میں معمولی اتار چڑھاؤ نارمل ہے جو کہ جسم میں پانی کی سطح کے کم یا زیادہ ہونے یا ہارمونز کے بدلاؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔وزن کو ترازو پر تولنے کے بجائے صحت کے لئے ایک جامع نقطہ نظر مثبت تبدیلی لاتا ہے۔اپنی توانائی پر توجہ مرکوزرکھنا، جسمانی ساخت کو بہتر بنانا،مزاج کو درست رکھنا اور متوازن غذا کا استعمال آپ کے لئے ایک صحت مند طرزِ زندگی کی کنجی ہے۔

کاربو ہائیڈریٹس

ہمارے جسم میں کاربو ہائیڈریٹس انرجی دینے کا بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔ اور ان کا بائیکاٹ کرنا ہمیں تھکاوٹ، عدم ارتکاز اور چڑچڑے پن کا شکار کرتا ہے۔اور ایسی غذاء کا استعمال جس میں کاربو ہائیڈریٹس کم ہوں اہم غذائی اجزاء کی کمی جیسے فائبر، وٹامنز اور معدنیات کا سبب بنتی ہے۔

کاربوہائیڈریٹس کی جسم میں کمی غذائیت کی کمی کا باعث بنتی ہے اور منفی اثر ڈالتی ہے۔کچھ تحقیقات کے مطابق جسم میں کاربوہائیڈریٹ کی کمی ہارمونز کے توازن میں خلل ڈالتی ہے جوکہ ممکنہ طور پر میٹابولک فنگشن کو متاثر کرتی ہے۔ بغیر بھوسی نکلا گندم کا آٹا، پھل، سبزیاں، پھلیاں کاربوہائیڈیٹس کا ذریعہ ہیں اور فائبر سے بھرپور ہونے کی وجہ سے زود ہضم ہوتے ہیں۔ شکر قندی اور براؤن چاول میں وٹامنز اور معدنیات کی بھاری مقدار ہوتی ہے۔

مختلف اقسام کے رنگ برنگے پھل اور سبزیاںجیسے بیر، پالک اور گول سرخ مرچیں خوش ذائقہ ہوتی ہیں اور غذائی ضروریات بھی پوری کرتی ہیں۔ کاربوہائیڈیٹس کے ساتھ ساتھ پروٹین کی مناسب مقدار بھی جسم میں توانائی کی سطح کو یقینی بناتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔