کوچۂ سخن

دل و نظر میں سمانے کے فن سے واقف ہے<br /> وہ شخص نیند چرانے کے فن سے واقف ہے


Arif Aziz December 10, 2023
فوٹو: فائل

غزل
دل و نظر میں سمانے کے فن سے واقف ہے
وہ شخص نیند چرانے کے فن سے واقف ہے
جو لگ رہا ہے بظاہر کھلا کھلا سب کو
وہ اپنے درد چھپانے کے فن سے واقف ہے
مجھے پتہ تھا مری نیند تک چرا لے گی
جو آنکھ خواب دکھانے کے فن سے واقف ہے
اسے بھی شوقِ نشانہ ہے، تیر پھینکے گا
یہ دل بھی درد کمانے کے فن سے واقف ہے
یہ اہل حرف اسے اتنا مان دیتے ہیں
جو جتنا ناز اٹھانے کے فن سے واقف ہے
وہ دل کی بات کرے گا کنایتاً مجھ سے
'بد احتیاط' زمانے کے فن سے واقف ہے
تجھے ہے زعمِ فنِ گفتگو اگر آزادؔ
تو وہ بھی بات بنانے کے فن سے واقف ہے
(آزاد حسین آزاد۔کراچی)


۔۔۔
غزل
دن کٹے تو بھی کیا کٹے میرے
رہ گئے خواب سب دھرے میرے
میں بھی صادق ہوں عشق میں لیکن
تیرتے کیوں نہیں گھڑے میرے
میں نہتا بچا ہوں لشکر میں
مر گئے سب کے سب بڑے میرے
منزلوں کا سراغ کیا ملتا
راستے تھے بہت پرے میرے
وقت خیرات کر دیا مجھ کو
خالی کاسے نہیں بھرے میرے
ان میں سفاک زخم تھے موجود
تُو نے اشعار کب سنے میرے
تھک گئی تُو بھی دو قدم چل کر
ھائے اے زیست! حوصلے میرے
تیری یادوں کو اوڑھ رکھا تھا
اس لئے پر نہیں جلے میرے
اُس نے ایک بار اُٹھ کے کیا دیکھا
سارے پنچھی سدھر گئے میرے
(مستحسن جامی ۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
آج تیری خبر جو آئے گی
دامنِ دل مرا جلائے گی
پاس آئے گی اور منائے گی
چائے ہاتھوں سے وہ پلائے گی
دشمنوں کا ہے یہ کرم مجھ پر
دوستی اب مجھے ستائے گی
جب اکیلی اداس ہوگی وہ
شعر میرا ہی گنگنائے گی
بیوفائی تری اے جانِ جاں
کیسے کیسے ستم دکھائے گی
اس سے کہہ دو کہ دیکھنا ہے اسے
زلف چہرے سے کب ہٹائے گی
قربتِ یار کی گھڑی احمدؔ
بیقراری مری مٹائے گی
(احمد حجازی ۔لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
لے کے آئے تھے خواب آنکھوں میں
رہ گئے ہیں سراب آنکھوں میں
ہم کو بے خود کیا سر محفل
یار لایا شراب آنکھوں میں
ہم نے ہونٹوں پہ اک سوال رکھا
اس نے رکھا جواب آنکھوں میں
یار دیکھا تھا بام پر کل رات
بس گیا ماہ تاب آنکھوں میں
کوئی گھر ہے نہ کوئی منزل ہے
رکھ یہ خانہ خراب آنکھوں میں
(عامرمعان۔ؔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
نظریں ملا کے مجھ سے چرایا نہ کیجیے
یوں بے رخی سے دل کو دکھایا نہ کیجیے
تاعمر میرا آپ نے جب ساتھ نہ دیا
اب قبر پر بھی دیپ جلایا نہ کیجیے
جب اپنے دل کو ٹیس لگی چیخنے لگے
دل دوسروں کا خود بھی دکھایا نہ کیجیے
زہرابِ غم سے جن کے جگر پاش پاش ہیں
اُن کے دلوں کو اور جلایا نہ کیجیے
اِس شہر میں ہیں ایک سے پاگل بھرے ہوئے
ہر موڑ پر اکیلے ہی جایا نہ کیجیے
چھپ کر رقیب بیٹھے ہیں یاروں کے روپ میں
محفل میں نام لے کے بلایا نہ کیجیے
سر آنکھوں پر بٹھا لیا اک بار جب شہابؔ
پھر عمر بھر نظر سے گرایا نہ کیجیے
(شہاب اللہ شہاب منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)


۔۔۔
غزل
گداگروں کو سیاست میں کون لے آیا
سوالیوں کو حکومت میں کون لے آیا
یہ لوگ ملکی خزانے کو لوٹ لیتے ہیں
انہیں ہماری ریاست میں کون لے آیا؟
یہ تجھ پہ حرف اٹھایا ہے کس نے محفل میں
یہ تجھ کو بحرِ ندامت میں کون لے آیا؟
تمام عمر جہانِ خراب میں گزری
عجب اچنبھا ہے جنت میں کون لے آیا
یہاں پہ عشق و ہوس کا تو تذکرہ ہی نہیں
ہمیں یہ بزمِ شرافت میں کون لے آیا؟
میں آبشارِ محبت سے دور تھا جاناں
تو آبشارِ محبت میں کون لے آیا
ہمارے جیسے گنہگار و بادہ مستوں کو
الْہی ذکر و عبادت میں کون لے آیا
یہ آفتاب لبِ بام بجھ گیا کیسے
مرے مکان کو ظلمت میں کون لے آیا
تمہارے شہر کے لوگوں کو کچھ خبر ہی نہیں
انہیں یہ دورِ جہالت میں کون لے آیا
عجب ہیں شہرِ سلاسل کے لوگ بھی بادِلؔ
سبھی پکاریں اسارت میں کون لے آیا
(نعمان بادِل۔حافظ آباد)


۔۔۔
غزل
حالات کے بدلتے ہی عادت بدل گئی
سنجیدہ ہو گیا میں شرارت بدل گئی
میرے بہت سے شوق ابھی رہتے تھے،مگر
ہر چیز مہنگی ہو گئی قیمت بدل گئی
پہلے پہل جو حال تھا سب یاد ہے مجھے
پھر اس کے ملتے ہی مری قسمت بدل گئی
صد شکر میری حسن پری تیرے چھوتے ہی
میں کھلکھلا اٹھا مری رنگت بدل گئی
اور کیا مثال خوفِ خدا کی میں دوں تجھے
ہونے لگا گناہ، تو نیت بدل گئی
دکھ کیا ہو اس سے بڑھ کے جہاں میںفداؔ کوئی
حالات بگڑے یاروں کی سنگت بدل گئی
(عمر فدا۔بہاولنگر)


۔۔۔
غزل
وحشتِ ہجر ہے دل بھی تاراج ہے
یہ اذیت محبت کی معراج ہے
جس طرح دل ہے سولی پہ لٹکا ہوا
یہ بھی منصور ہے یہ بھی حلاج ہے
اس سے پہلے کبھی ایسی حالت نہ تھی
بے سکونی مری جس قدر آج ہے
تجھ کو معلوم ہے محض تیرے سبب
میرے ماتھے پہ بدنامی کا تاج ہے
نیلگوں نیلگوں جیسے یاقوت ہوں
تیری آنکھیں ہیں یا پھر یہ پکھراج ہے
ایسے لگتا ہے میں اِس کی منکوحہ ہوں
تیرا غم جس طرح میرا سرتاج ہے
(احمد قاسم ۔عارف والا)


۔۔۔
غزل
ہم اسیروں کی محبت سے رہائی نہ ہوئی
ختم پھولوں سے بھی یہ آبلہ پائی نہ ہوئی
پھر ترے بعد کبھی بھی نہ کوئی بزم سجی
پھر ترے بعد کبھی نغمہ سرائی نہ ہوئی
ہائے تکلیف ان آشفتہ سروں کی جن سے
درد جتنا بھی بڑھا، لب پہ دہائی نہ ہوئی
ایک دکھ ہے کہ کبھی کھل کے نہ مل پائے ہم
ایک دکھ ہے کہ کبھی اپنی لڑائی نہ ہوئی
سارے دکھ ایک طرف اور یہ دکھ ایک طرف
اپنی تقدیر میں وہ ایک کلائی نہ ہوئی
فرض بنتا ہے کہ اربابؔ نہ نقصان کریں
تیرے شعروں سے کسی کی جو بھلائی نہ ہوئی
(ارباب اقبال بریار۔ احاطہ دیوی دیال، گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
اُس کی آنکھوں کے جام کاغذ پر
میکشی کا پیام کاغذ پر
اُس نے بھیجا سلام کاغذ پر
ہو ر ہا ہے کلام کاغذ پر
روپ لے گی حسیں عمارت کا
ہے محبّت جو خام کاغذ پر
تتلیاں اُس پہ آ کے بیٹھ گئیں
تیرا لکھا جو نام کاغذ پر
لکھ رہا ہے غزل کو شہزادی
ایک ادنیٰ غلام کاغذ پر
اُس کی محشرؔ نے کھینچ لی تصویر
جو ہے محشر خرام کاغذ پر
(ساجد محشر آکولوی ۔مہاراشٹر، بھارت)


۔۔۔
غزل
شکایت صرف اتنی ہے کہ وہ اتنا نہیں کھلتا
وہ مجھ سے بات کرتا ہے مگر مجھ سا نہیں کھلتا
امیروں کو نزاکت اس قدر محتاج کرتی ہے
خود اپنی کار کا بھی ان سے دروازہ نہیں کھلتا
ہے قسمت اس کھلاڑی سی مری میدان الفت میں
جسے موقع تو ملتا ہے مگر کھاتا نہیں کھلتا
بہت سے فیصلے مجبوریوں میں لینے پڑتے ہیں
کہ آخر توڑنا پڑتا ہے جب تالا نہیں کھلتا
مزاج ایسا ہے گوہرؔ کا سوا تیرے کسی سے بھی
نہیں کھلتا نہیں کھلتا نہیں کھلتا نہیں کھلتا
(معین گوہر۔ آکولہ، مہاراشٹر،بھارت)


۔۔۔
غزل
ہاتھوں میں میری جان تیرے ہاتھ کا ہونا
جیسے کہ کڑی دھوپ میں برسات کا ہونا
ہاروں جو کبھی آپ سے اے جانِ تمنا
اک فتحِ مبیں ہوگا میری مات کا ہونا
دیمک کی طرح چاٹ کے کھا جاتی ہے دل کو
محبوب سے دوری میں کسی رات کا ہونا
مہکا دے ہر اک سَمت بہاروں کی طرح پھول
موسم کی خزاؤں میں تیرے ساتھ کا ہونا
ممکن ہے کہ مل جائے اچانک وہ کسی دن
ممکن ہے زمانے میں کرامات کا ہونا
پوچھے جو کبھی وہ، تیرے حالات ہیں کیسے
اشکوں سے وہیں کیفؔ جوابات کا ہونا
( نوید کیف۔چنیوٹ)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں