جسٹس اعجازالاحسن نے بینچز کی تشکیل پر سوال اٹھادیے

خط میں فوجی عدالتوں کے ٹرائل اور جسٹس مظاہر نقوی کیلئے تشکیل دیے گئے بینچز پر اعتراض


Numainda Express December 11, 2023
خط میں فوجی عدالتوں کے ٹرائل اور جسٹس مظاہر نقوی کیلئے تشکیل دیے گئے بینچز پر اعتراض

پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت قائم کردہ تین رکنی کمیٹی کے ممبر جسٹس اعجاز نے بنچوں کے تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کردیا ہے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے انتظامی کمیٹی کے حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے جس میں فوجی عدالتوں کے ٹرائل اور جسٹس مظاہر نقوی کیلئے تشکیل دیے گئے بینچز پر اعتراض اٹھایا گیا ہے ۔

خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ 7 دسمبر کو 4 بجے چیف جسٹس پاکستان کے آفس میں اجلاس ہوا ،اجلاس کا ایجنڈہ مجھے متعدد مرتبہ رابطوں کے بعد دیا گیا ، کمیٹی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ملٹری کورٹس انٹرا کورٹ اپیلیں سات رکنی بنچ سنے گا، میں نے رائے دی تھی پک اینڈ چوز کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے سینئر ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے، چیف جسٹس پاکستان نے میری تجویز سے اتفاق کیا تھا اور کہا تھا میں ججز سے رائے لونگا ،اگر کوئی جج نہ بیٹھا تو اس کے بعد دوسرا سینئر جج شامل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کمیٹی میٹنگ کے منٹس سے آگاہ نہیں کیا گیا،آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر سماعت کیلئے تشکیل دیا گیا بنچ بھی سینئر ججز پر مشتمل نہیں ہے،کمیٹی اجلاس کے منٹس میری منظوری کے بغیر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے،میرا یہ نوٹ بھی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے۔

خط کے متن میں مزید کہا گیا کمیٹی اجلاس میں سات رکنی بینچ پر اتفاق کی بجائے چھ رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا، سینئر ججز کے بینچ میں شامل نہ ہونے کے حوالے سے میں مکمل اندھیرے میں ہوں، تین رکنی خصوصی بینچ کی تشکیل میں بھی سینیارٹی کو مد نظر نہیں رکھا گیا، عدالتی وقار اور شفافیت کے مد نظر سینارٹی کے اصول کو مد نظر رکھنے پر اتفاق کیا، یہ بھی اتفاق کیا گیا کہ متعلقہ ججز کا موقف لینے کے بعد کمیٹی ممبران کو اگاہ کیا جائے گا، جمعہ کے روز دومرتبہ کالز کرنے کے بعد بتایا گیا کہ فائل چیف جسٹس کے چیمبر میں منظوری کیلئے گئی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ انتظار کرنے کے باجود 6:30 کال کرنے پر بتایا گیا کہ رجسٹرار صاحبہ جا چکی ہیں ، چوتھی اور پانچویں کمیٹی اجلاس کے منٹس نہ تو بھجوائے گئے نہ دستخط لئے گئے،ان منٹس کو بغیر میری منظوری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں