اسرائیل کے درجہ دوم کے شہری
اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانا بھی قابلِ تعزیر قرار پایا
اسرائیل کی آبادی لگ بھگ اٹھانوے لاکھ ہے۔اس میں چوہتر فیصد یہودی اور اکیس فیصد فلسطینی شہری ہیں۔جب کہ مقبوضہ فلسطین ( غربِ اردن اور غزہ ) کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔
مزید براں غربِ اردن اور مقبوضہ گولان ( جسے اسرائیل نے یکطرفہ طور پر ضم کر لیا) میں قائم غیر قانونی یہودی بستیوں میں ساڑھے سات لاکھ آبادکار لا کے بسائے گئے ہیں۔اگر مقبوضہ علاقوں اور اسرائیل کی ریاستی حدود میں آباد فلسطینی آبادی کو جمع کر لیا جائے تو آج بھی فلسطینیوں کی مجموعی آبادی کل یہودی آبادی سے ایک لاکھ زائد ہے۔
انیسویں صدی کے آخر میں موجودہ اسرائیلی (فلسطینی ) حدود میں یہودی آبادی دس ہزار تھی۔انیس سو بائیس میں یہ گیارہ فیصد اور انیس سو چالیس میں تیس فیصد ہو گئی۔انیس سو اڑتالیس میں جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو اس کی حدود میں یہودی آبادی ساڑھے چھ لاکھ تھی جو اگلے ایک برس میں دگنی ہو گئی۔
ان میں سے اکثریت ان یہودیوں کی تھی جو نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں زندہ بچ گئے تھے اور انھیں آزاد کرانے والے اتحادی انھیں اپنے ہاں جگہ دینے اور ان کی املاک واپس کرنے کے بجائے انھیں فلسطین بھیج کے اپنا تاریخی سیاسی و سماجی بوجھ ہلکا کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ طویلے کی بلا بندر کے سر (فلسطین ) کے سر منڈھ دی گئی۔
اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے پہلے جگہ پانے کے لیے لگ بھگ پانچ سو دیہات اور قصبات میں آباد ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کے ہمسائیہ ممالک میں دھکیل دیا گیا۔انیس سو اڑتالیس میں اقوامِ متحدہ کی قرار داد نمبر ایک سو چورانوے میں ان فلسطینیوں کی واپسی کا وعدہ کیا گیا۔
مگر یہ وعدہ بھی دیگر کی طرح پرزے پرزے ہوا میں بکھر گیا۔تاہم اتنی خونی زور زبردستی اور نسلی صفائی کے باوجود بھی انیس سو اڑتالیس انچاس میں موجودہ اسرائیلی حدود میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی باقی رہ گئے۔ مگر ان پر یہودی آبادی کے برعکس سویلین کے بجائے فوجی قوانین کا اطلاق کیا گیا۔
انیس سو چھپن میں جب برطانیہ اور فرانس کی شہہ پر اسرائیل نے کرائے کی ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے مصر کے جمال ناصر کی جانب سے قومی ملکیت میں لی جانے والی نہر سویز پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ چھیڑی تو غربِ اردن جو اس وقت ہاشمی سلطنتِ کا حصہ تھا۔
اس سے ملحق سرحدی عرب اسرائیلی گاؤں کفر قاسم پر فوجیوں نے ہلہ بول کے تئیس بچوں سمیت انچاس فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔تاکہ اس واقعہ سے دہشت زدہ ہو کے اسرائیلی حدود میں موجود ڈیڑھ لاکھ فلسطینی بھی کوچ کر جائیں۔مگر یہ کوشش ناکام ہو گئی۔البتہ انھیں بدستور فوجی قوانین کے تحت نقل و حرکت اور بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔
انیس سو چھیاسٹھ میں اسرائیلی فلسطینی شہریوں پر سے فوجی قوانین ہٹا کے انھیں ریاست کا قانونی شہری تسلیم کر لیا گیا۔مگر عملاً وہ اب تک دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں۔ان سے صحت ، تعلیم ، روزگار اور رہائش سمیت ہر بنیادی شعبے میں امتیازی سلوک برتا گیا۔
ان کی شناخت ختم کرنے کے لیے آبائی دیہاتوں اور قصبات کے نام بدل دیے گئے یا ان پر یہودی محلے اور کمرشل عمارات تعمیر ہو گئے۔مساوی اقتصادی مواقع نہ ہونے کے سبب ان اسرائیلی عربوں میں غربت کی شرح یہودی شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی۔صیہونی اسٹیبلشمنٹ نے انھیں ہمیشہ مشکوک سمجھا چنانچہ ان کی مسلسل نادیدہ نگرانی کبھی کمزور نہیں پڑی۔
سن دو ہزار میں جب اسرائیلی وزیرِ اعظم ایریل شیرون نے مسلح جتھوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں گھسنے کی کوشش کی تو احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے اور غربِ اردن اور غزہ میں انتفادہ ( مزاحمت ) کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا۔اسرائیل میں آباد فلسطینیوں نے بھی مقبوضہ بھائیوں سے اظہار یکجہتی میں احتجاج شروع کر دیا۔
ان مظاہروں کو سختی سے کچل دیا گیا۔بطور سزا ان پر نوکریوں اور کاروبار کے دروازے بند ہونے لگے۔ریاست نے ان کا غیر اعلانیہ اقتصادی و سماجی بائیکاٹ کر دیا۔اسرائیلی عربوں میں بے روزگاری کی شرح نے گزشتہ ریکارڈ توڑ دیے۔ریاست کی شہہ پر غنڈہ عناصر نے ان پر حملے شروع کر دیے تاکہ وہ ملک چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھیں۔
اسرائیلی عرب شہریوں پر عرصہِ حیات دو ہزار اٹھارہ میں مزید تنگ ہو گیا جب پارلیمنٹ نے قومی ریاست کا ایکٹ منظور کیا۔اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دیا گیا۔جب کہ غیر یہودی شہریوں کو اس ایکٹ کے احاطے سے باہر رکھ کے انھیں باضابطہ طور پر درجہ دوم کے شہریوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس ایکٹ کی منظوری کے بعد ان فلسطینیوں کی وطن واپسی کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا جنھیں انیس سو اڑتالیس اور انیس سو سڑسٹھ میں گھروں سے نکال کے ان کی جائیداد و زمین پر قبضہ کیا جا چکا تھا۔اب وہ کبھی بھی ایک قومی یہودی ریاست میں اپنی املاک پر مالکانہ حقوق کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے۔
اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانا بھی قابلِ تعزیر قرار پایا۔سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اگر کسی بھی شہری کی اسرائیلی ریاست سے غیر مشروط وفاداری ثابت نہ ہو تو اس کی شہریت منسوخ ہو سکتی ہے۔اس فیصلے کا اصل نشانہ اسرائیلی عرب تھے۔
سات اکتوبر کے واقعہ کے بعد سے اسرائیلی عربوں پر مزید دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔یا تو وہ غزہ اور مغربی کنارے کے بارے میں ریاستی موقف کی کھل کے حمایت کریں بصورتِ دیگر انھیں دشمن (حماس ) کا ہمدرد سمجھا جائے گا۔انسانی حقوق کی ایک فلسطینی تنظیم عدالا کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک خفیہ ایجنسیوں نے لگ بھگ ایک سو عرب اسرائیلی شہریوں کو پوچھ گچھ کی غرض سے حراست میں لیا ہے۔
اسرائیل کی ایک معروف فلسطینی نژاد اداکارہ میسا عبدالہادی کو انسٹا گرام پر اپنی رائے پوسٹ کرنے کی پاداش میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی فردِ جرم کا سامنا ہے اور وزارتِ داخلہ نے ان کی اسرائیلی شہریت منسوخ کرنے کی سفارش کی ہے۔
یونائیٹڈ عرب لسٹ نامی جماعت کے رہنما اور اسرائیلی پارلیمنٹ ( کنیسٹ ) کے عرب رکن منصور عباس نے اسرائیلی فلسطینیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ریاست سے وفاداری کا اعادہ کریں۔جب کہ پارلیمنٹ کے ایک اور عرب رکن ایمان خطیب یاسین نے غزہ کے بارے میں سرکاری موقف پر سوالات اٹھائے تو انھیں یہود دشمن قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ سے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ شروع ہو گیا۔ان حالات میں اسرائیلی عرب بھی رفتہ رفتہ بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔۔۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)