امتحانی نظام سے متعلق اہم فیصلوں کے نفاذ میں سندھ کے تعلیمی بورڈز پیچھے رہ گئے
سندھ کے تعلیمی بورڈزکی سطح پر نفاذ نہ ہونے کے سبب کراچی سمیت پورے صوبے کے طلباان فیصلوں کافائدہ نہیں لے پارہے
پاکستان میں میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کے امتحانی نظام اوراسکیم آف اسٹڈیز میں تبدیلیوں کے حوالے سے کیے گئے بڑے فیصلوں کاسندھ کی سطح پر اطلاق نہ ہونے کے سبب یہ صوبہ جدت کواپنانے میں پیچھے رہ گیا ہے، اورتدریس وامتحانات میں جدت کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کاسندھ کے تعلیمی بورڈزکی سطح پر نفاذ نہ ہونے کے سبب کراچی سمیت پورے صوبے کے طلبا ان فیصلوں کافائدہ نہیں لے پارہے۔
میٹرک اورانٹرکی سطح پر سپلیمنٹری (ضمنی)امتحانات کی جگہ "اینوول ٹو"(annaul 2)،عملی امتحانات یا پریکٹیکل ایگزامینیشن کے متبادل کوئزکانظام، پرائیویٹ علم کے لیے میٹرک سائنس سے کرنے کی سہولت اوربیک وقت دومختلف فیکیلٹیزکے مضامین کے امتحانات دینے کی سہولت سمیت مزیدکچھ ایسے فیصلے ہیں جن میں سے اکثر فیڈرل بورڈ،پنجاب کے کئی تعلیمی بورڈزاورکے پی کے بورڈمیں نافذ کیے جاچکے ہیں۔
سندھ میں نجی بنیادوں پر موجود ضیاء الدین بورڈبھی کچھ فیصلوں کااطلاق گزشتہ برس جبکہ کچھ کا نفاذ حال ہی میں کرچکا ہے تاہم مذکورہ کسی بھی فیصلے کا اطلاق اب تک سندھ کے کسی بھی سرکاری تعلیمی بورڈمیں نہیں کیاجاسکا اورسندھ کے تعلیمی بورڈزفرسودہ یاروایتی نظام امتحانات اوراسکیم آف اسٹڈیز کے تحت ہی لاکھوں کوامتحانی عمل سے گزاررہے ہیں۔
سندھ کے تعلیمی بورڈزکے چیئرمینز نہ صرف ان فیصلوں سے واقف ہیں بلکہ وہ ان کے ثمرات سے بھی لاتعلق ہیں کیونکہ جب وفاق کی سطح پر موجود"انٹربورڈچیئرمین کمیشن"(آئی بی سی سی) میں مذکورہ فیصلے کیے گئے تھے تواس وقت تو چیئرمینز ان فیصلوں کے وقت ان اجلاسوں میں موجود رہے اور فیصلے کا حصہ بھی بننے تاہم انھوں اپنے اپنے اضلاع میں قائم تعلیمی بورڈزمیں ان فیصلوں کے حوالے سے کوئی تیاری کی اورنہ ہی ان کا اعلان کیا۔
سیکریٹری آئی بی سی سی ڈاکٹرغلام علی ملاح اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سندھ میں امتحانی بورڈزایگزامینیشن سے متعلق اپنے فیصلوں کوصوبے کے وزیرتعلیم کے ماتحت اسٹیک ہولڈرزپر مشتمل "اسٹیئرنگ کمیٹی"میں پیش کرتے ہیں اورشاید یہ فیصلے بھی اس کمیٹی میں پیش ہوں۔
انھوں نے کہاکہ مختلف اوقات میں ہم مذکورہ فیصلوں پر اطلاق کے حوالے سے سندھ کے بورڈزکوخطوط بھی تحریر کرچکے ہیں تاکہ سندھ کے کے لیے بھی ان فیصلوں کا نفاذہوسکے۔
ڈاکٹر ملاح نے تصدیق کی کہ فیڈرل بورڈ اور پنجاب کے کئی بورڈ اکثر فیصلوں کا نفاذ کرچکے ہیں۔ ادھرذرائع بتاتے ہیں کہ مذکورہ فیصلوں میں سے کوئی بھی آج تک اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں بحث کے لیے پیش ہی نہیں کیا گیا جبکہ ملک کے دیگرتعلیمی بورڈان فیصلوں پر عملدرآمد کرکے ان نظاموں کواپنا رہے ہیں تاہم سندھ اس یونیفارم پالیسی کاحصہ نہیں بن رہا۔
واضح رہے کہ سندھ کے تعلیمی بورڈزگزشتہ کئی برسوں سے پہلے پیپلزپارٹی کی دور حکومت اوراس کے بعد اب نگراں صوبائی حکومت کے وقت میں انتظامی سطح پر بدترین زبوں حالی کاشکار چلے آرہے ہیں۔
چیئرمین بورڈزچونکہ میرٹ کے بجائے سفارش اوراثر ورسوخ کی بنیاد پر تعینات کیے جاتے ہیں لہذا ان تعیناتیوں کے اثرات حکمت عملی اورفیصلہ سازی پر براہ راست آتے ہیں کیونکہ سندھ کے چیئرمینز کی ان فیصلوں میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ سندھ میں اس وقت تین بڑے تعلیمی بورڈ"انٹربورڈکراچی،سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن اورنوابشاہ بورڈمیں کلیدی عہدوں پر برطرفیوں کے بعد سے کوئی چیئرمین،سیکریٹریزاورناظمین امتحانات موجود نہیں ہیں اور متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو ان تعلیمی بورڈز کا چارج دے دیا گیا ہے جبکہ دیگرتعلیمی بورڈزجن میں میرپورخاص،حیدرآباداورسکھرشامل ہیں ان کے چیئرمینزکونگراں وزیراعلیٰ سندھ اس لیے نہیں ہٹا پائے کہ وہ خود وزیراعلیٰ پر اپنااثرورسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
ان میں سے اکثرتعلیمی بورڈزکے چیئرمینزایڈہاک بنیادوں پر سابق دورحکومت میں سفارشی بنیادوں پر لگائے گئے تھے جنھوں نے آئی بی سی سی میں اسکیم آف اسٹڈیز اورامتحانی نظام میں تبدیلیوں کے حوالے سے کبھی بھی دلچسپی نہیں لی۔
واضح رہے کہ سندھ کے تعلیمی بورڈاس سے قبل سن 2018تک گورنرسندھ کے ماتحت ہواکرتے تھے تاہم ایکٹ میں تبدیلی کرکے اس کی کنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ سندھ کوکردیا گیا۔
سابق وزیراعلیٰ سندھ نے ان بورڈزکاکنٹرول متعلقہ وزیریونیورسٹیزاینڈبورڈکے حوالے کردیاجس کے بعد تنزلی یازوال کاایک نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہوگیاجو اب تک نہیں تھم سکا۔
ماہرین تعلیم اورحیدرآباد تعلیمی بورڈکے ایک سابق چیئرمین ڈاکٹرمحمد میمن سندھ کے تعلیمی بورڈزکی اس صورتحال اوربہترفیصلوں کاصوبے میں اطلاق نہ کیے جانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ سندھ میں پالیسی ڈائریکشن اور پالیسی ایڈہاک ازم کا مسئلہ ہے اس کے برعکس پنجاب کے تعلیمی بورڈ امتحانات اور اسسمنٹ کے حوالے سے کئی initiative لے چکے ہیں جس میں آئی بی سی سی کے مذکورہ اہم فیصلوں کے علاوہ question bank اور آٹومیشن شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے بورڈز نے سوچ لیا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے جبکہ ہمارے بورڈز کے پاس اب تک پالیسی ڈائریکشن ہی نہیں ہے، سندھ میں ایجوکیشن کوالٹی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن امتحانی کوالٹی کی بات نہیں ہوتی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کے بورڈز میں آپس میں بھی کوآرڈینیشن نہیں ہے اور متعلقہ محکمہ "یونیورسٹیز اینڈ بورڈز" بھی گائیڈ نہیں کررہا ہے۔
ڈاکٹر میمن کا کہنا تھا کہ وہ جب حیدرآباد بورڈ کے چیئرمین تھے تو اس وقت آئی بی سی سی کے فیصلوں کھ نفاذ کے لیے باقاعدہ focus کیا جاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ آئی بی سی سی کے بہتر فیصلوں کا اطلاق نہ ہونے سے سندھ کے بچوں کا نقصان ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ آئی بی سی سی کی جانب سے متعلقہ تمام فیصلے گزشتہ دو سے ڈھائی برس کے دوران کیے گئے ہیں، اس وقت انٹر بورڈ کراچی میں تقریبا تین سال تک ڈاکٹر سعید الدین اور میرپورخاص بورڈ میں برکات حیدری تعینات رہے۔
برکات حیدری کے پاس ہی عرصے دراز تک حیدرآباد بورڈ کا بھی چارج رہا جبکہ ٹیکنیکل بورڈ کا چارج ڈاکٹر مسرور شیخ اور نوابشاہ بورڈ کا چارج وہاں کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق حسن اور میٹرک بورڈ کراچی کا چارج پروفیسر شرف علی شاہ کے پاس رہا تاہم ان اہم فیصلوں کے نفاذ کے لیے کسی جانب سے کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔
ادھر " ایکسپریس" نے ان معاملات پر جب سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نور سموں سے دریافت کیا اور ان سے پوچھا کہ آخر سندھ ان بہتر فیصلوں کے نفاذ میں پیچھے کیوں رہ گیا جس پر انھوں نے انتہائی محتاط رائے دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں جب چیئرمین میرٹ پر آئیں گے تو یہ کام بھی ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ آئی بی سی سی کی سطح پر تقریباً دوسال قبل سندھ سمیت پورے ملک میں میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کی سطح پر ضمنی امتحانات کے ٹائیٹل کوختم کرکے اس کی جگہ اے اوراولیول کی طرح پر "اینوول ون اوراینوول ٹو"متعارف کرائے جانے کافیصلہ کیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے تحت اب وہ جومئی اورجون میں ہونے والے سالانہ امتحانات میں کچھ پرچوں میں کامیابی حاصل نہ کرپائیں یا امپروومنٹ آف ڈویژن کے لیے دوبارہ نومبریا دسمبرمیں ہونے والے امتحانات میں شریک ہوں گے، ان کے اس متعلقہ امتحانات کوضمنی کی جگہ اینوول ٹوکانام دیاجائے گا اوران کی مارک شیٹ ضمنی کے بجائے اینوول ٹوکے ٹائیٹل سے جاری ہوگی۔
اس طرح طالبعلم کے کیریئر پر ضمنی امتحانات کاداغ بھی نہیں لگے گا، مزید براں ایسے امیدوار بھی ان امتحانات میں براہ راست شریک ہوسکتے تھے جو کسی وجہ سے اینوول ون کاامتحانات نہ دے سکے ہوں تاہم اس کے برعکس گزشتہ دوسال سے کراچی سمیت سندھ بھرمیں میٹرک اورانٹرکے سال کے دوسرے امتحانات اب بھی ضمنی امتحانات یاسپلیمنٹری ایتزامینیشن کے نام سے ہی لیے جارہے ہیں۔
اسی طرح سندھ کے تعلیمی بورڈزکے چیئرمینزکی موجودگی میں مزیدایک اہم فیصلہ پرائیویٹ امیدواروں کے سائنس سے میٹرک کرنے سے متعلق تھا یہ فیصلہ آج تک سندھ میں نافذ کیاگیااورنہ ہی اس کاسندھ کے کسی تعلیمی بورڈ نے اپنی سطح پر اعلان کیا گیا۔
مزیدبرآں کچھ عرصے قبل میٹرک اورانٹرکی سطح پر کیمبرج بورڈکی طرز پر کویہ اختیاربھی دیا گیا ہے کہ وہ بیک وقت سائنس کی مختلف فیکیلٹیز کے یاکسی علیحدہ فیکلٹی کے مضامین کا بیک وقت انتخاب کرکے ان کاامتحان بھی دے سکتے ہیں۔ ریاضی پڑھنے والاایک ہی سال میں بیالوجی کاامتحان بھی دے سکتا ہے۔
اس سلسلے میں آئی بی سی سی کی سطح پرمکمل ورکنگ کی گئی اوراب اس سلسلے میں جامعات کوخط بھی لکھے جارہے ہیں کہ وہ داخلوں کے وقت ایسے کیسز کومیرٹ پردیکھیں، اسے قبل طلبا کواضافی وقت لے کراضافی مضامین دینے پڑتے تھے تاہم اب تک سندھ کے سرکاری تعلیمی بورڈزمیں سے کسی میں بھی اس اہم ترین فیصلے پر عملدرآمد کے لیے اقدام سامنے نہیں آئے۔
جبکہ اس ضمن میں ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا تھا کہ چونکہ پریکٹیکل امتحانات کے لیے بعض حالات میں کوعملی تجربوں سے گزاراہی نہیں جاتا لہذاپریکٹیکل کی جگہ اگرطالب علم چاہے تووہ اسی نصاب سے کوئزامتحان دے سکتا ہے سندھ کے بورڈزمیں اس فیصلے کے حوالے سے بھی کوئی تیاری نہیں کی۔
علاوہ ازیں ملک بھرکی سطح پر ایک بہت بڑااوراہم فیصلہ گریڈنگ سسٹم کی تبدیلی سے متعلق بھی کیا گیا ہے، اس فیصلے کومرحلہ وارسال 2024کے نویں اورگیارہویں جماعتوں کے امتحانی نتائج سے نافذ کیاجانا ہے تاہم سندھ کے تعلیمی بورڈزکے آثاربتارہے ہیں کہ اگران بورڈزمیں اسی طرح کاایڈہاک ازم قائم رہا اورمیرٹ پر اہل اورتعلیم یافتہ افرادتعینات نہ کیے گئے تویہ فیصلے سندھ کی سطح پر "منٹس"کی صورت میں صرف فائلوں میں بند رہیں گے۔