کمشنرز کو بورڈ کا چارج دینے پر سپلا پرائیویٹ اسکولز کا ضمنی امتحانات کے بائیکاٹ کا اعلان
سپلا جمعرات سے اس فیصلے کے خلاف سیاہ پٹیاں باندھ کر یوم سیاہ منائے گی
سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن (سپلا) اور آل سندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی نے مشترکہ طور پر کراچی سمیت صوبے کے تعلیمی بورڈز کو کمشنرز کے حوالے کرنے کے نگراں صوبائی حکومت کے فیصلے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور اسے شاہی حکمے نامے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے رہنماؤں پروفیسر منور عباس اور حیدر علی نے کراچی پریس کلب میں منگل کی دوپہر منعقدہ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
سپلا اور پرائیویٹ اسکولز نے کہا ہے کہ تعلیمی بورڈز مصروف اور بورڈز کے معاملات سے نا بلد کمشنرز کے سپرد کردیا گیا ہے، اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو سپلا یا اس کے اساتذہ نہ ضمنی امتحانات لیں گے، نہ فرسٹ ایئر کی امتحانی کاپیوں کی جاری اسسمنٹ کا حصہ رہیں گے اور نہ کالجوں میں امتحانی مراکز کا قیام کرنے دیا جائے گا۔ سپلا جمعرات سے اس فیصلے کے خلاف سیاہ پٹیاں باندھ کر یوم سیاہ منائے گی۔
رہنماؤں نے کہا کہ وزیر تعلیم کی دلچسپی مخصوص تعلیمی اداروں، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ اور ضیاء الدین بورڈ اور اسی کے تعلیمی اداروں میں ہے۔ وہ لیکچرر کی ترقیوں کے خطوط جاری کرنے کے بجائے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو ضیاء الدین یونیورسٹی سے بی ایڈ اور ایم ایڈ کرانے میں مصروف ہیں۔
انھوں نے نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر سرچ کمیٹی کے ذریعے میرٹ پر تعلیمی بورڈز میں چیئرمینز، ناظمین امتحانات اور سیکریٹریز کی تقرریاں کی جائیں اور انٹر بورڈ کراچی سمیت دیگر بورڈز میں کمشنر کو دیے گئے ایڈیشنل چارج واپس لیے جائیں ۔اس دوران اسٹاپ گیٹ اریجمنٹ کے طور پر ماہرین تعلیم کی تقرری کی جائے۔
رہنماؤں نے کہا کہ الیکشن سر پر ہیں، اس دوران روز مرہ کے معاملات اور الیکشن کے انتظامات سنبھالیں گے یا بورڈ کو دیکھیں گے جہاں فوری طور پر لاکھوں طلبہ کو پہلے ضمنی اور بعد ازاں سالانہ امتحانات دینے ہیں۔ انرولمنٹ اور امتحانی فارم جمع ہونے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے کمشنر تو شہر میں دودھ اور سبزی سمیت پرائس کنٹرول کے معاملات نہیں سنبھال پا رہے تو تعلیمی بورڈز کیسے سنبھالیں گے۔
پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے رہنما حیدر علی نے کہا کہ سندھ کے تعلیمی بورڈ پہلے ہی پیچھے ہیں یہاں آئی بی سی سی کے اہم فیصلوں کا نفاذ نہیں ہو رہا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کمشنرز کی تعیناتی کے بعد کاپیوں کی اسسمنٹ اور امتحانات کے شفاف انتظامات اور نتائج کا بروقت اجراء ممکن ہوجائے گا، یہ کام اساتذہ اور پروفیسرز کا ہے۔ ہر بورڈ کا اپنا بی او جی ہے، ان کے اراکین میں سے بھی کسی کو بورڈ کا چارج دیا جاسکتا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے کہا کہ ہم احتجاج، علامتی ہڑتال اور عدالتوں کی جانب بھی جا سکتے ہیں لہٰذا ارباب اختیار سندھ کے طلبہ کے مفاد میں اس فیصلے کو واپس لیں۔
حیدر علی نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بورڈز کا کنٹرول متعلقہ وزیر اسمٰعیل راہو کے حوالے کر دیا جس کے بعد بورڈ تباہ ہوئے، بورڈ میں روزانہ کی بنیادوں پر کلیدی عہدوں پر تبادلے کیے گئے لہٰذا اس معاملے کی نیب سے انکوائری کرائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بورڈز کا انتظام صوبائی حکومت سے واپس گورنر کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ صوبائی حکومت سیاسی معاملات میں اس قدر الجھے رہتی ہے کہ بورڈ ان سے نہیں چل سکتے۔