جب دسمبر آتا ہے
مورخ بڑا بے رحم ہوتا ہے اور وہ صرف وہی تاریخ لکھتا ہے
جب دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو نہ جانے بدن میں کیوں تلخی سی بھر جاتی ہے، دماغ ماؤف ، دل غم سے لبریز اور لہوہو جاتا ہے۔ ارض پاک کا ایک حصہ اسی مہینے میںہم سے جدا کر دیا گیا تھا۔ اس سانحہ پر 43برس گزر گئے ہیں لیکن یہ جوگہرے گھاؤ ہم پاکستانیوں کو دے گیا، آج بھی تازہ ہیں۔
ایک نسل وہ تھی جس پر یہ سانحہ گزر گیا اور دوسری آج کی نسل ہے۔ اس نئی نسل کے لیے تو یہ سانحہ گزرے وقتوں کی ایک داستان کے سوا شاید کچھ نہ ہو کہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام کی دنیا میں ہر شئے کو اس کی قیمت کے مطابق تولہ جاتا ہے لیکن کچھ وزن یا بوجھ ایسے بھی اٹھانے پڑتے ہیں جن کا کوئی تول نہیں ہوتا ۔ تاریخ کے صفحات میں سقوط ڈھاکا کی وجوہات کے متعلق کچھ بھی لکھ دیا جائے، یہ حقیقت اپنی جگہ رہے گی کہ پاکستان کا ایک حصہ اس سے الگ کر دیا گیا تھا۔
ہماری نوجوان نسل اپنے بزرگوں سے تحریک پاکستان کی باتیں سنتی ہے اور بطور طالبعلم تاریخ کے صفحات کی ورک گردانی کرتے ہوئے اس کے متعلق کچھ پڑھ بھی لیتی ہے۔ جس طرح وہ حضرت قائد اعظم اور علامہ اقبال کو پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ سقوط ڈھاکا کا ذکر بھی سن لیتے ہیں۔
لیکن یہی نسل جب یہ سنتی ہے کہ ہمارا ایک بازو ہم سے الگ ہو کرایک علیحدہ مملکت کی شکل میں کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے تو یہ نوجوان نسل اپنے بڑوں سے یہ سوال ضرور پوچھتی ہے کہ پھر کیا وجہ کہ ہمارا باقی ماندہ پاکستان ترقی کی جانب کیوں نہیں بڑھ رہا۔
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمارے پاس ہے تو سہی لیکن ہم نئی نسل کی امنگوں کو جواں اور ان کی امید کو برقرار رکھنے کے لیے جواب دینے سے گریزکرتے ہیں کہ اس میں بھی قصوروار ہم خود ہی ہیں اور اپنا قصور کون مانتا ہے۔
مجھ جیسے چند سر پھرے جنھوں نے اپنے بزرگوں سے یہ المناک داستان سن رکھی ہے، دسمبر میں اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو یاد کر لیتے ہیں اور کیوں نہ کریں کہ کبھی کبھارخوشبو کا کوئی ایک جھونکا بنگال کی سر زمین سے مغربی پاکستان کی فضاؤں کو معطر کر دیتا ہے۔
یہ خوشبو لہو کی خوشبو ہے کہ ہمارے وہ پاکستانی بھائی جنھوں نے سقوط ڈھاکا کے بعد بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے، پاکستان کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے حقیقت میں وہ قرض بھی چکائے ہیں جو ان پر تو واجب نہیں تھے لیکن جن پر واجب تھے، وہ آج بھی مغربی پاکستان میں حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں ۔ اور جو آشفتہ سر بنگلہ دیش میں ہی رہ گئے تھے ان کی زندگی کو پھانسیوں کے ذریعے قید سے آزاد کیا جارہا ہے جس میںجماعت اسلامی کے رہنماء صف اول میں نظر آتے ہیں۔
مورخ بڑا بے رحم ہوتا ہے اور وہ صرف وہی تاریخ لکھتا ہے جس تاریخ کا اس نے مشاہدہ کیا ہوتا ہے تا کہ آنے والی نسلیں اس تاریخ کو پڑھ کر اپنے آباؤ اجدادکے فیصلوں اور ان کے مزاج کا اندازہ لگا سکیں ۔
نوجوان نسل جس کی معلومات تک رسائی بہت زیادہ ہے وہ سقوط ڈھاکا کے متعلق اپنے سوالوں کے جوابات خود ہی تلاش کر رہی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچ گئی ہے کہ پاکستان توڑنے میں زیادہ حصہ ان پاکستانیوں کا تھا جو اس کے مغربی حصے میں آباد تھے جن کے اپنے مفادات پاکستان کی سالمیت اور وحدت سے بڑھ کر تھے اور انھوں نے متحدہ پاکستان کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اکثریت کے فیصلے کو رد کر دیا اور اقلیت کو مسلط کرنے کی کوشش کا یہی نتیجہ نکلتا ہے جو سقوط ڈھاکی صورت میں نکلا تھا ۔
سیاست دانوں اور ان کے آقاؤں کی ملی بھگت نے ایک ہنستا بستا ملک دولخت کر دیا۔ جس سے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسی ٹھیس لگی کہ اس کی کسک ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔
تاریخی حوالے یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے بنگالی بھائیوں کو چند حقیقی شکائتیں اور تکالیف تھیں مگر مغربی پاکستان میں بیٹھے حکمرانوں نے انھیں بالکل نظر انداز کر دیا اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا،
چھوٹی چھوٹی رنجشیں ایک حادثہ سا بن گیا
چھوٹی چھوٹی رنجشوں سے دوستی جاتی رہی
لیکن اس سانحہ سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا، ہمارے اندر قومی غیرت اور حمیت کوئی رمق ہوتی تو ہم نے اس سانحہ کے بعد کیا کچھ نہ کر لیا ہوتا۔ پاکستان کو ترقی کی جانب لے جا کر اپنی قومی توہین کا بدلہ لے چکے ہوتے اور ایک ایسا پاکستان بنا چکے ہوتے جس کو دیکھ کر دشمن بھی دانتوں میں انگلی دبا لیتا لیکن افسوس کہ ہم نے اس جاں گداز حادثے سے سبق سیکھنے سے انکار کر دیا اور اس عظیم سانحہ کے باوجود اپنے جماندور دشمن سے نہ صرف دوستیاں بڑھانے کی بات کرتے ہیں بلکہ عملاً اس دوستی کو ممکن بنانے کی باتیں بھی کرتے ہیں۔
ہمارے کچھ رہنماؤں کے بقول یہی ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔وہ اس خطے میں امریکی خواہش کے مطابق بھارت کو بالادست دیکھنا چاہتے ہیں، ہمسائیوں سے بہتر تعلقات ضرور رکھیں لیکن برابری کی سطح پر اور خاص طور ایسا ہمسائیہ جو دشمنی میں کئی دفعہ چوٹ پہنچا چکا ہو اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے وہ تو بھلا ہو ڈاکٹر قدیر خان کا کہ وہ ہمیںاس قابل بنا گئے ہیں کہ ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔
ورنہ آج ہم اپنے دلوں کو کتنا بھی کڑا کرتے، اسباب کی دنیا میں ہمیں پناہ نہ ملتی۔ ہم اگر اپنی جگہ قائم ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ وہ بم ہے جو ہے تو دشمن کے پاس بھی لیکن اس کی تباہی کا حساب کتاب کریں تو بہت فرق ہے اور پھر یہ بھی کہ جو پہل کر گیا وہ کر گیا۔اس لیے دشمن ہمسائے سے تعلقات میں دسمبر1971 کو بھی ضرور یاد رکھیں۔