کراچی میں آتشزدگی کی وارداتیں جاری رہیں گی

حقیقت یہ ہے کہ شہر کا پرانا انفرا اسٹرکچر مخدوش ہوچکا ہے اور نیا انفرا اسٹرکچر تعمیر نہیں ہو پایا


Dr Tauseef Ahmed Khan December 14, 2023
[email protected]

کراچی میں پندرہ دن میں ایک اور شاپنگ مال میں خوفناک آتشزدگی میں مرنے والوں کی تعداد 16کے قریب پہنچ گئی۔

RJمال میں گیارہ افراد اور عرشی شاپنگ مال میں چھ افراد جاں بحق ہوئے۔ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے میئر کراچی سے سوال کیا ہے کہ تین دن میں بتائیں کہ آتشزدگی کے ذمے داروں کوکیا سزا دی گئی۔

نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے اس آتشزدگی کے واقعے کی تین دن میں رپورٹ طلب کر لی ، یوں گورنر اور وزیر اعلیٰ نے اپنی ذمے داریاں پوری کرلیں۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے آتش زدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تمام عمارتوں میں فائر سیفٹی یقینی بنانے کے لیے جامع اور مفصل کام کی ضرورت ہے۔ گورنر صاحب نے اس بات پر ماتم کیا کہ کراچی کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ شہر کا پرانا انفرا اسٹرکچر مخدوش ہوچکا ہے اور نیا انفرا اسٹرکچر تعمیر نہیں ہو پایا۔ قانون کی پامالی کی بناء پر آتش زدگی کی وارداتیں اور عمارتوں کے گرنے کے واقعات مسلسل رونما ہو رہے ہیں۔ کراچی میں صرف بلدیہ کراچی ہی نہیں دیگر 20 کے قریب ادارے بلدیاتی امور انجام دیتے ہیں۔ شہر میں بلدیہ کراچی کی عمل داری صرف 22 فیصد علاقے پر ہے۔

کراچی میں بے ہنگم ترقی ایوب خان کے دورِ اقتدار سے شروع ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں شہر کے انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے بنیادی کام ہوئے، کچھ سڑکیں تعمیر ہوئیں، کچھ عمارتیں بن گئیں۔ شہیدِ ملت روڈ، شاہراہِ فیصل، عباسی شہید اسپتال اور لیاقت آباد سپر مارکیٹ بھٹو دورکی یادگاریں ہیں۔ اخبارات کی فائلوں کی گرد صاف کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ بھٹو دور میں ایک عمارت گرنے سے کئی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں عمارتیں گرنے اور آتش زدگی کے کئی واقعات اخبارات میں شایع ہوئے مگر برسرِ اقتدار حکومتوں نے سائنسی بنیادوں پر شہر کے انفرا اسٹرکچرکی ترقی، آتش زدگی اور اس طرح کے دیگر حادثات سے بچنے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات نہیں کیے۔ بھٹو دور میں بیوروکریسی بلدیہ کراچی اور کے ڈی اے کا نظام چلاتی رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں محدود اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہوا۔

جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر بنائے گئے مگر کے ڈی اے وغیرہ ان کے دائرہ کار میں نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ بلدیہ کراچی، کے ڈی اے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بیوروکریسی کی اجارہ داری میں رہی۔ سابق طالب علم رہنما فہیم الزماں کچھ عرصے کے لیے بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے۔

این ای ڈی کے مارکسٹ استاد پروفیسر محمد نعمان ان کے قریبی مشیر تھے۔ فہیم الزماں کے دور میں کے ڈی اے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ان کی نگرانی میں دے دیے گئے مگر فہیم الزماں کی سربراہی میں ان اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بارے میں پالیسیاں تیار ہورہی تھیں کہ فہیم الزماں کو رخصت کر دیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ فہیم الزماں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قائم کردہ '' سسٹم'' کا حصہ نہیں بن سکے، یوں شہر کی ترقی کے لیے فہیم کے خواب ادھورے رہ گئے۔

مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں کچھ عرصہ کے لیے مشاہد اللہ خان کو بلدیہ کا انچارج بنایا گیا مگر اکتوبر 1998میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو مشاہد اللہ نے جنرل مشرف کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا اور جیل بھیج دیے گئے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ناظم کے لیے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کو منتخب کیا۔ نعمت اللہ خان کے دور میں شہر کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات فائر بریگیڈ کے محکمے کو نچلی جدید خطوط پر استوارکرنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی، بہرحال پھر ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال ناظم بن گئے۔

کراچی شہرکی ترقی کا نیا دور شروع ہوا۔ مصطفیٰ کمال کے دور میں متوسط طبقے کی بستیوں کو جانے والی نئی سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ سہراب گوٹھ کو کلفٹن سی ویو سے ملانے کے لیے کئی انڈر پاس اور اوورہیڈ برج تعمیر ہوئے۔ اس دور میں بلدیہ کے فائر بریگیڈ محکمہ کو اسنارکل مل گئیں جوکئی منزلہ عمارتوں میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے انتہائی ضروری سمجھی جاتی ہیں مگر اس دور میں شہر کے مختلف علاقوں میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی گئیں۔

ان عمارتوں میں پبلک سیفٹی کے بین الاقوامی معیار کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا، پھر بلدیہ کراچی کا فائر بریگیڈ کا محکمہ ''90 ''کا حصہ بن گیا۔ اداروں نے اس صورتحال پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ فائر بریگیڈ کے وائر لیس کے نظام کو بعض سیاسی گروہوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی نے فوری طور پر نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کا خاتمہ کیا اور ہر محکمے کے افسران '' سسٹم'' کا حصہ بن گئے۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنادیا گیا۔ قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔

شہر بھر میں 80 گز کے پلاٹ پر کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ رہائشی علاقوں میں سی این جی اسٹیشن قائم ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایم کیو ایم کے دور میں ہوا۔ سندھی مسلم سوسائٹی اور شاہراہ فیصل کے نسلہ ٹاور کی تعمیر اس کی بدترین مثال تھی۔ اس ٹاور کی تعمیر کے لیے سڑک پر قبضہ کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے فیصلے کے تحت یہ ٹاور منہدم کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں آتش زدگی کا سب سے زیادہ خوفناک واقعہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کا ہے۔ اس آتش زدگی کے واقعے میں 250 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کو بھتہ نہ دینے پر کیمیکل پھینک کر خاکستر کردیا گیا۔ سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں کوئی حفاظتی اقدامات موجود نہیں تھے نا تو عمارت میں ہنگامی صورتحال میں باہر نکلنے کا متبادل راستہ موجود تھا اور نا ہی آگ بجھانے والے آلات نصب کیے گئے تھے۔

فیکٹری کی انتظامیہ نے تمام کھڑکیوں کو بند کردیا تھا۔ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کی آتش زدگی کے بارے میں جو رپورٹیں سامنے آئیں ان کے مطابق محکمہ لیبر کے افسروں نے اس فیکٹری کا معائنہ نہیں کیا تھا۔ محکمہ لیبر اور بلدیاتی کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین پر کبھی عمل نہیں ہوا تھا۔ بلدیہ کراچی اور دیگر اداروں کے فائر بریگیڈ کی ناقص کارکردگی بھی سامنے آتی ہے۔

اب جدید ممالک میں بجلی اور کیمیکل سے لگنے والی آگ کو بجھانے کے لیے فوم کا استعمال ہوتا ہے مگر فائر بریگیڈ پانی کے ذریعے آگ بجھانے کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کا پانی بار بار ختم ہوا اور عملے کو کئی میل دور سے جا کر پانی حاصل کرنا پڑ رہا تھا۔

بلدیہ فیکٹری کی آتشزدگی واقعے کے بعد کئی اورکارخانوں میں آگ لگ گئی ۔ بعض رہائشی علاقوں میں بھی آتش زدگی کے واقعات رونما ہوئے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان واقعات کے تدارک کے لیے کچھ نہ سوچا۔

سول انجینئر پروفیسر سعید عثمانی اپنی یاد داشتوں کو کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت شہر میں فائر بریگیڈ کا ایک نظام فعال تھا۔ ہر محلہ کی نکڑ پر ایک شیشہ کا جال نصب ہوتا تھا اور ہنگامی صورتحال میں اس جال کو توڑ کر ایک چرخی کو چلایا جاتا تھا تو فائر اسٹیشن کو اطلاع مل جاتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ عمارتوں کے نقشے پاس کرتے ہوئے قانون کے تحت یہ ضروری ہے کہ آتش زدگی کی صورت میں ہر منزل سے باہر نکلنے کا ہنگامی راستہ دکھایا جائے اور پھر ہر منزل پر پائپ تنصیب کیے جائیں تاکہ ہنگامی صورتحال میں فائر بریگیڈ کا عملہ ان پائپ کے نظام کے ذریعے ہر منزل پر پانی پہنچائے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہر دکان میں آگ بجھانے کا آلہ ہونا ضروری ہے۔ محکمہ سول ڈیفنس اور بلدیہ کراچی کی یہ ذمے داری ہے کہ ان کا عملہ ہر ماہ ہر عمارت کا معائنہ کرے اور جہاں یہ آلہ موجود نا ہو وہاں جرمانہ کیا جائے۔

سعید عثمانی یہ بھی کہتے ہیں کہ کئی کئی منزلہ بلند عمارتیں تو تعمیر ہورہی ہیں مگر فائر بریگیڈ کے پاس جدید آلات نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پانچویں منزل کے بعد آگ لگ جائے تو اس آگ پر قابو پانا فائر بریگیڈ عملہ کے بس میں نہیں ہوتا، مگر حکومت کے پاس ان باتوں کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔ کراچی کا انفرااسٹرکچر کمزور ہے، آتش زدگی اور عمارتوں کے گرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں