کیا ’’بھٹو‘‘ خود قتل ہوئے
طاقتور اشرافیہ کے لیے بھٹو کیوں فاضل پرزہ قرار پائے
ہمارے ہاں عمومی طور سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق مختلف خیال آرائیاں کی جاتی ہیں،اکثر کا خیال ہے کہ یہ جنرل ضیا کی آمریت میں عدالتی قتل ہے۔
کچھ کا خیال ہے کہ ضیاالحق نے ملک میں جمہوری پارلیمانی نظام کی حیثیت کو ختم کرکے خطے میں امریکی اثر و نفوذ بڑھانے اور منتخب وزیر اعظم کو راہ سے ہٹانے کے لیے ''بھٹو'' کو پھانسی کی سزا دلوانے کے لیے عدالت کی مدد حاصل کی، جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ ''بھٹو'' کی پھانسی عدالتی نظام اور قانون کی روشنی میں کی گئی،''بھٹو'' کی پھانسی کے ضمن میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ ''بھٹو'' نے اپنے جرائم کی سزا پائی ہے اور وہ پھانسی کے حقدار تھے۔
ان تمام خیالات سے اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو ایک آمر نے غیر آئینی اقتدار کی آڑ میں آئین کو معطل کرکے ''عدالتی فیصلے''کی روشنی میںقتل کروایا،بھٹو کے اسی قتل کے آئینی و قانونی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے چوالیس سال بعد''بھٹو''کے قتل کیس کی بازگشت آج عدالتی تاریخ میں پھر موضوع بحث ہے،جس پر جنوری کے دوسرے ہفتے سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے ''بھٹو''کے قتل کیس کا تصفیہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 9رکنی لارجر بنچ کے متوقع فیصلے کی روشنی میں ہی طے ہوسکے گا کہ ہمارا فرسودہ اور نظریہ ضرورت کی بنیاد پر کھڑا عدالتی نظام آزادانہ فیصلے کر سکتا ہے یا نہیں،یا متوقع فیصلے کی روشنی میں عوامی یا سیاسی سطح پر ہمارے ''عدالتی '' نظام کو کس قدر پذیرائی ملے گی۔ سر دست ''بھٹو''کے عدالتی پھانسی کے فیصلے اور ان عوامل کی جانب توجہ ضروری ہے جوبھٹو کے قتل کا جواز بنے۔
ہمارے معروف صحافی دوست مطیع اللہ جان نے جنرل ضیا الحق کی طاقتور اشرافیہ کے ہر دلعزیز وکیل اور مذکورہ کیس کے اہم مدعی احمد رضا قصوری سے ''بھٹو''قتل کیس کے ان گوشوں کو اگلوانے کی کوشش کی ہے جو کہ بادی النظر میں ''بھٹو''کے عدالتی قتل کا سبب بنے،مطیع اللہ نے کمال مہارت سے احمد رضا قصوری کی زبانی وہ راز یا انکشافات عیاں کیے ہیں جن سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ آمر جنرل ضیا نے ''بھٹو'' کے عدالتی قتل کا منصوبہ فوری طور سے نہیں بنایا بلکہ بھٹو کے قتل کا منصوبہ آمر جنرل ایوب اور ان کے اشرافیائی رفقا 1970کے لگ بھگ ہی طے کر چکے تھے۔
احمد رضا قصوری کے اعترافات کے بعد یہ بات کسی قدر واضح ہوچکی ہے کہ ملک کی ''طاقتور اشرافیہ''71کے الیکشن سے پہلے''بھٹو'' کو قتل کرنے کا مربوط منصوبہ طے کر چکی تھی،کیونکہ ''بھٹو''آمر جنرل ایوب کی حکومت یا بقول طاقتور اشرافیہ سے غداری کے مرتکب ہوئے تھے اور ملکی اشرافیہ کے لیے ''غیر ضروری'' اور ''ناکارہ پرزہ'' بن چکے تھے ۔
صحافی مطیع اللہ جان سے کی گئی گفتگو میں احمد رضا قصوری کے مطابق تین عوامل یا واقعات ایسے تھے جن کی وجہ سے ''بھٹو'' سے ان کے اختلاف بنے وگرنہ ان کے بقول وہ بھٹو کے چہیتے اور خاص رکن اسمبلی تھے جنھیں بھٹو نے طلائی نشان''پیپلز پارٹی''دیا،احمد رضا قصوری کی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں کہ ''بھٹو''کے قتل کے منصوبے کی ابتدا درج بالا وجوہات کی بنا پر پہلے ہی طے کی جا چکی تھیں،جس میں احمد رضا قصوری اشرافیہ کے ہر دلعزیز بن کر اپنے والد کے قتل کے حوالے سے تخت مشق بنے،ان کے بقول ''بھٹو'' کے تین مواقعوں پردیے گئے بیانات ان کی بھٹو سے دوری کا سبب بنے،احمد رضا قصوری کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق ۔پہلا بیان۔بھٹو نے 14فروری 71 کو حیات محمد خان شیر پائو کی رہائش گاہ پر کہاکہ''پیپلز پارٹی ڈھاکا اسمبلی سیشن اس لیے اٹینڈ نہیںکرے گی کہ وہاں ہم سب کو یر غمال بنا کر قتل کیا جا سکتا ہے۔''
دوسرا بیان۔اقبال پارک کے جلسے میں کہا کہ ''جو ڈھاکا جائے گا ،اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور وہ اپنی ٹانگوں پر واپس نہیں آئے گا۔''
تیسرا بیان۔14مارچ71کو نشتر پارک کراچی میں کہا کہ ''تم مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت ہو اور ہم مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت ہیں،لہٰذا تم مشرقی حصے کی حکومت بنائو اور میں مغربی حصے میں حکومت بنائوں گا۔''
احمد رضا قصوری کے مطابق''میں 3مارچ 71کو ڈھاکا سیشن میں شریک ہونے کے لیے گیا جو بوجہ نہ ہوسکا۔''احمد رضا قصوری نے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب 25مارچ71میں حکومت بنانے کے مذاکرات ناکام ہوگئے تو اسی روز ایکشن شروع ہوگیا،موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ ان سب واقعات کے عینی شاہد ہیں۔
احمد رضا قصوری کے مذکورہ اعتراف کی روشنی میں یہ بات تو خود احمد قصوری نے طے کردی کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی بنے تھے مگر ابتدا ہی سے وہ طاقتور اشرافیہ کی جانب سے بھیجے گئے ایک ایسے مہرے تھے جن کی طبیعت میں ضد اور ہٹ دھرمی کوٹ کوٹ کر بھردی گئی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی انانیت کو مزید پختہ کرنے کے لیے طاقتور اشرافیہ نے بہت سوچ سمجھ کر احمد رضا قصوری کو پیپلز پارٹی میں بھیجا جس کو بھٹو کی سیاسی دانش سمجھنے میں ناکام ہوئی اور ایک ایسے ناکردہ گناہ کی پاداش میں بھٹو کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں پھانسی دی گئی جس قتل میں بھٹو کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد آج تک نہیں مل سکے۔
حقائق بتاتے ہیں کہ 10اور11نومبر کی درمیانی شب ایک مارک ٹو کار لاہور کے علاقے شادمان کالونی میں ایک گھر کے باہر بنی پارکنگ سے سڑک پر نمودار ہوئی اور اس پر نامعلوم افراد نے چاروں اطراف سے فائرنگ کردی جس میں کار میں سوار احمد رضا قصوری سمیت دیگر افراد معجزانہ طور پر محفوظ رہے مگر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگئے،جس کی ایف آئی آر جب احمد رضا نے کٹوانی چاہی تو متعلقہ تھانہ انچارج نے نہ کاٹی اور بقول احمد رضا قصوری کے سیشن کورٹ کی مدد سے ''بھٹو'' کے خلاف وہ ایف آئی آر کٹوانے میں کامیاب ہوئے اور ایف آئی آر کو محفوظ کرنے کے لیے متعلقہ ایف آئی آر کو بیرون ملک منتقل کرکے محفوظ کیا گیا جب کہ تاریخ کی رو سے اکتوبر 1975میں تحقیقاتی افسر ملک محمد وارث کی سفارشات پر کیس یہ کہہ کر داخل دفتر کر دیا گیا تھا کہ ملزمان کا سراغ نہ لگایا جا سکا۔
سوال یہ ہے کہ ان نا معلوم فائرنگ کرنے والوں کی تحقیقات پر کیوں زور نہیں دیا گیا کہ وہ کون تھے یا ان فائرنگ کروانے والوں کو کونسی طاقت کی حمایت حاصل تھی،باپ کی لاش اٹھانے سے پہلے ہی احمد رضا قصوری کو یہ یقین کیسے ہوا کہ یہ قتل ذوالفقار علی بھٹو نے ہی کرایا ہے یا کہ اس کار کو ڈرائیو کرنے والے احمد رضا کو کیوں بچا لیا گیا،صرف اس لیے کہ احمد رضا قصوری کی شہادتوں پر ''بھٹو'' کے قتل نامے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گایا کہ داخل دفتر ہوجانے والی رپورٹ کو قانونی طور سے کیوں اہمیت نہیں دی گئی۔؟
سوال اس سے بھی بڑا یہ ہے کہ طاقتور اشرافیہ کے لیے بھٹو کیوں فاضل پرزہ قرار پائے،شواہد اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جنرل ایوب خان نے اپنی حکومت میں بھٹو کی مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ملک میں جمہوریت حاصل کرنے کی طاقتور سوشلسٹ تحریک اور آمرانہ اقتدار کے لیے سوشلسٹ فکر کی طلبہ تنظیم،این ایس ایف،ڈی ایس ایف و دیگرکی عوامی تحاریک کو ختم کروانا تھا تاکہ آیندہ کے لیے سوشلسٹ نکتہ نظر عوام کی جمہوری تحریک کے لیے مارشلائوں کے خلاف نہ ابھر سکے۔