ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو …
ارے بھئی، مریض تکلیف سے کراہ رہا ہے، لیکن یہ دوا ہے کہ چیونٹی کی رفتار ہی سے اثر کرے گی
کہنے کو ' دوا ' اچھی چیز تو نہیں، لیکن بیمار کے لیے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ دوا کھانے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اثر ہو، تاکہ دوا کھانے کی زحمت تمام ہو اور وہ روبہ صحت ہو جائے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوا کا سلسلہ طویل ہوجاتا ہے، بعضے وقت تو تاعمر دوا کھانی پڑتی ہے، یقیناً یہ موقع ایک پریشانی اور ایک زحمت ضرور ہوتا ہے، لیکن اگر دائمی بیماری کی یہ دوا نہ ہو تو سوچیے کیا ہو۔ بس یہیں سے یہ مستقل دوا بھی غنیمت لگنے لگتی ہے۔
دوا کا تعلق براہ راست مختلف طریقۂ ہائے علاج سے بھی ہوتا ہے۔ ایک طریقۂ علاج کی دوا دوسرے طریقۂ علاج کے لیے اجنبی ہوتی ہے،کوئی طریقہ جڑی بوٹیوں سے یہ کام کرتا ہے، توکوئی کڑوی گولیوں سے توکوئی میٹھی گولیوں سے! ان سب کا نہ صرف الگ طریقۂ علاج ہے، بلکہ ان کے استعمال کا طریقہ بھی ایک سا نہیں۔ایسے ہی میٹھی میٹھی گولیوں والی دوا کا معاملہ بھی ہے۔ اس کے لیے معالج کی یہ تاکید ہوتی ہے کہ چار وضع کی گولیاں کھانے سے 15 منٹ پہلے لیجیے اور ان کے درمیان پانچ، پانچ منٹ کا وقفہ رکھیے، پھر انھیں کھانے کا طریقہ بھی بس منہ میں رکھ لینا ہے، تاوقتے کہ یہ اپنے آپ نہ گھل جائیں۔
ایسے ہی کچھ محلول کے قطرے گھونٹ بھر پانی میں حل کر کے نوش کرنے ہوتے ہیں۔ تیزرفتار زندگی میں اس جھمیلوں بھری دوا کا 'بار' اٹھانا کوئی سہل امر نہیں۔ اگر آپ گھر میں ہیں، تو ٹھیک ہے، آپ کو اپنے ناشتے اورکھانے کی خبر ہے، سو اسی مناسبت سے آپ نے دوا کھانی شروع کر دی، اگرچہ اس میں بھی بڑا تکلف ہے کہ باورچی خانے میں خبر ہو کہ دسترخوان بچھنے سے اتنے وقت پہلے مطلع کر دیا جاوے، لیکن ذرا سوچیے کہ جب آپ کسی کے ہاں مہمان ہیں، تو کیا صورت حال ہوگی؟
آپ میزبان کو جا کر کہیں گے ذرا پندرہ منٹ پہلے بتا دیجیے گا، مجھے دوا لینی ہے؟ یا پھر ازخود اندازے سے دوا کھا لیجیے کہ اب کھانا کھلنے ہونے والا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر دوا کی 'حرمت' پائمال۔۔۔! بالکل ایسے ہی اگر اچانک دسترخوان سج گیا، تو اب آپ باری باری اپنی گولیاں نکالیے اور انھیں اطمینان سے منہ میں ڈال کے ان کے ' تمام' ہونے کا انتظارکیجیے اور ہر دوسرے فرد کو بتاتے رہیے کہ آپ کھانا اس لیے نہیں کھا رہے کہ پہلے دوا لے رہے ہیں اور جتنی دیر میں آپ نے دوا کو نمٹایا، معلوم ہوا کہ بیش تر احباب کھانے سے فارغ ہو کر ' میٹھے' تک پہنچ چکے، اب آپ جا کر بچے کچھے سلونے سے بسم اللہ کیجیے۔
دوا کی ان گولیوں میں ایک الجھن یہ بھی ہے کہ دو، دو طرح کی گولیوں کی چار شیشیاں ہیں۔ ایک کالی مرچ کی طرح کی گولی کی دو شیشیاں، جس میں بالکل یکساں سفید گولیاں، جب کہ دوسری قسم کی دوگولیاں الگ الگ رنگ کی۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ پیلی گولی کھائی ہے تو اب ہری کھانی ہے، یا ہری کھالی ہے تو اب پیلی منہ میں دابنی ہے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ سفید کالی مرچوں جیسی گولیاں گڈ مڈ ہوجاتیں کہ کون سی کھائی اور اب کون سی کھانی ہے؟ بس پھر اللہ توکل پرکام چلتا۔ ایسے ہی کئی مرتبہ بڑی گولیوں کے بارے میں بھی شبہ ہوگیا کہ پیلی کھائی تھی یا نیلی؟
اکثر منہ کھول کر دوسرے کو کہتے بھیا، ذرا دیکھیو، ہماری زبان پر کَے رنگ کی گولی ہے؟ یا پھر کبھی موبائل یا آئینے میں جا کر ازخود ہی تصدیق کی۔ اب زندگی کے مسئلے پہلے ہی کوئی کم ہیں کہ صبح دوپہر شام مجموعی طور پر پون گھنٹے کی یہ مشقت بھی اٹھائی جائے!اسی طرح دوا کے دو مختلف محلول کے قطرے بھی گن گن کر پانی میں ٹپکائیے اور پی جائیے۔! دوسری دوا کے قطرے نوش کرنے میں بھی پانچ، 10 منٹ توقف کا حکم ہوتا ہے، اگر شیشی کی ساخت ایسی ہے کہ مطلوبہ دس، پندرہ قطرے جلدی ٹپک جائیں، تو شکرکیجیے، ورنہ یہ بھی اچھی خاصی درد سری کہ اس میں ' ہوا ' اٹک جاتی ہے اور قطرے گر کے نہیں دیتے۔
ایک مرتبہ تو ایسی دوا بھی آئی کہ اس میں اندر بہت سے ذرات بھی تھے۔ بتایا گیا کہ یہ دوا ایسی ہی ہوتی ہے، اچھا بھئی ہوتی ہوگی ایسی، لیکن موئے یہ قطروں کے سوراخ میں جب یہ ذرات اٹک جاتے ہیں تو آدمی یہ سوچتا ہے کہ بہتر ہے کہ میں بیمار ہی رہ لیتا !ایسی ہی دوائیوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مریض کو چارگولیاں پھانکنی ہوتی ہیں، ڈھکنے میں جھٹکیے، تو پانچ آجائیں گی، واپس ڈالیے تو دو چلی جائیں گی۔ تین، پانچ کے اسی کھیل میں مریض اپنی بیماری ہی بھول جاتا ہے۔
بہرحال، شگوفے کی حد تک تو یہ بات بڑی بھلی ہے، لیکن عملی طور پر یہ نہایت کوفت بھرا مرحلہ ہوتا ہے۔اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ اتنی برائی ہیں، تو ایسی دوا کی طرف جاتے ہی کیوں ہیں؟ تو بات یہ ہے کہ اس 'فطری' طریقۂ علاج کے دعوے کی وجہ سے،کہ جس میں بہت سے مسئلے بنا آپریشن کے حل ہوجاتے ہیں، لیکن اس دوا کا معاملہ یہ ہے کہ یہ اثر اتنے دھیرے دھیرے کرتی ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ مریض اپنے آپ ٹھیک ہوا ہے یا واقعی یہ دوا کا کوئی چمتکار ہے۔
ارے بھئی، مریض تکلیف سے کراہ رہا ہے، لیکن یہ دوا ہے کہ چیونٹی کی رفتار ہی سے اثر کرے گی، اب اسی انتظار میں ہلکان ہوتے رہیے کہ اب اثر ہوتا ہے کہ جب ہوتا ہے۔ اسی مرحلے پر بہت سے مریض صبر کا دامن چھوڑ کر دوسری تیز اثرکرنے والی دوائوں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔نہ صرف یہ دوا دھیرے دھیرے کام کرتی ہے بلکہ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بقول معالج کے کہ اب آپ کا جسم اس دوا کا عادی ہوگیا ہے، تو شفایابی کے بعد اسی دھیرے دھیرے انداز سے وہ دوا ترک کرنے کا مرحلہ اختیار کیا جائے گا۔
یعنی دوا کی خوراک گھٹائی جائے گی، ایک وقت کی ناغہ، پھر ایک دن، دو دن وغیرہ۔ اس پوری مشق میں مل ملا کر چھے، سات مہینے لگ جانا عام سی بات ہے۔ اس طریقۂ علاج کے معالجین کا دعویٰ ہوتا ہے کہ دیگر طریقہ علاج انسان کو ایک بیماری سے نکال کر دوسری کا شکار بنا دیتے ہیں، لیکن اکثر یہ صبح شام میٹھی میٹھی گولیاں زبان پر رکھنے والے بھی پھر اپنے دانت لے کر بیٹھتے ہیں۔
دیگر طریقہ علاج کے مقابلے میں یہ دوا دینے والے معالجین کی فیس کمتی معلوم ہوتی ہے، لیکن ساتھ تجویز کیے جانے والے محلول کی قیمتیں ہوش رُبا ہوتی ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تمام مریضوں کو شفایاب کرے، ہمارے جون ایلیا اس حوالے سے کہہ گئے ہیں۔
چارہ سازوں کی چارہ سازی سے، درد بدنام تو نہیں ہوگا
ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو، مجھ کو آرام تو نہیں ہوگا