جنگی جرائم کی تاریخ

فلسطین کی بدترین نسل کشی اور جنگی جرائم کے خلاف پوری دنیا بالخصوص یورپ اور امریکی عوام نے اہم کردار ادا کیا ہے


Shabnam Gul December 17, 2023
[email protected]

دنیا کی تاریخ جنگی جرائم کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان کی نفسیاتی وجوہات میں نفرت، تعصب اور نسلی برتری کا غیر انسانی رویہ کار فرما ہوتا ہے، جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی گئی اس کے ساتھ جنگی جرائم بڑھتے گئے۔

ہتھیاروں میں کی گئی نئی ایجادات نہتے انسانوں پر آزمائی گئیں۔ جنگی جرائم میں قتل، ناروا سلوک، غلامی، جلاوطنی یا مقبوضہ علاقے میں بربریت کی وارداتیں شامل ہیں۔ شہری آبادی کو نسلی برتری کے تحت قتل کرنا، مسخ کرنا یا یرغمالیوں کا قتل، تشدد یا غیر انسانی سلوک اس گھناؤنے عمل کے زمرے میں آتے ہیں۔

دنیا جنگوں کے جنون میں مبتلا رہی ہے۔ ماضی میں ان جرائم کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جو تاریک دور کے گواہ ہیں۔ویسے تو جنگی جرائم قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں، مگر جدید دنیا بھی کسی طور پیچھے نہیں رہی۔ انیسویں صدی کے آغاز میں، سلطنت عثمانیہ کی جانب سے آرمینیائی آبادی کے خاتمے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور جبری جلا وطنی کی گئی، جو بعد میں ہونے والی نسل کشی کا المناک پیش خیمہ بنی۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کی منظم نسل کشی نے، جنگی جرائم کی ہولناکیوں کی بھیانک تاریخ رقم کی، جس میں بڑے پیمانے پر تشدد، جبری مشقت اور قتل عام کے ذریعے ساٹھ لاکھ یہودیوں کے ساتھ لاکھوں دیگر افراد کو قتل کیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد نیورمبرگ ٹرائلز 1945-1946 کے دوران ہولو کاسٹ پر بین الاقوامی ردعمل دکھایا گیا، ان ٹرائلز نے جنگی جرائم، امن اور انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والے افراد پر مقدمہ چلانے کی قانونی مثالیں قائم کیں۔

ٹوکیو ٹرائلز کے دوران جاپانی رہنماؤں کی طرف سے کیے گئے جرائم سے نمٹنے کے لیے، ان ٹرائلز نے عالمی سطح پر جنگی جرائم کے لیے جوابدہی کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی فوجی سائنسدانوں نے دوسری جنگ عظیم سے قبل اور اس کے دوران ہندوستانی نو آبادیاتی فوجیوں پر کیمیائی ہتھیار کا تجربہ کیا۔ راولپنڈی، جو اس وقت برطانیہ کی ہندوستانی کالونی کا حصہ تھا، میں کیے گئے تجربات میں سیکڑوں ہندوستانی اور برطانوی فوجیوں کو مسٹرڈ گیس کا سامنا کرنا پڑا۔

گیس نے فوجیوں کی جلد کو شدید طور پر جلا دیا، جو کہ بہت تکلیف دہ تجربہ رہا، جس کے نتیجے میں کچھ فوجیوں کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ سائنسدان، ہندوستانیوں کی جلد پر گیس کے اثرات کا موازنہ برطانوی فوجیوں پر کیے گئے تجربات کے نتائج سے کرنا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں انگریزوں نے جبری تجارتی فصلوں کے ذریعے فصلوں کی مختلف اجناس کو غیر مستحکم کیا، اور ہندوستانیوں کو قحط زدہ چھوڑ دیا۔

12 سے 29 ملین کے درمیان ہندوستانی بھوک سے مرگئے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہندوستان برطانوی سلطنت کے زیر تسلط تھا۔ قحط کے پھیلنے کے بعد، برطانوی حکام نے کوئی امداد فراہم نہ کی۔جنگی جرائم کی ایک اور بدترین مثال برما ریلوے کی تعمیر ہے، جو تھائی، برما ریلوے یا ڈیتھ ریلوے کے نام سے جانا جاتا ہے، بان پونگ، تھائی لینڈ اور تھانبیوزائیت، برما (موجودہ میانمار) کے درمیان 415 کلومیٹر ریلوے لائن ہے۔ جسے 1940 سے 1943 کے دوران جاپانیوں نے سویلین مزدوروں اور محصور جنگی قیدیوں نے بنایا تھا، جسے دوسری جنگ عظیم کی برما مہم میں فوجیوں اور ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے بنایا گیا تھا، جس کی تعمیر کے دوران لاکھوں ایشیائی شہری اور ہزاروں اتحادی جنگی قیدیوں کو جبری مشقت کا نشانہ بنایا گیا۔

اس ریلوے ٹریک کی تعمیر کے دوران لگ بھگ نوے ہزار شہری بھوک اور تشدد سے مارے گئے، جس میں بارہ ہزار سے زائد اتحادی قیدی بھی شامل تھے۔جنگی بربریت کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا نے ایٹم بم گرایا تھا، جو دنیا کی تاریخ کے مہلک جنگی جرائم میں سے ایک تھا، جس کے دوران بین الاقوامی عدالتیں خاموش رہیں۔ جس کی وجہ سے افغانستان، مشرق وسطیٰ، فلسطین و دیگر دنیا میں جنگی جرائم جاری رہے۔ طاقت کے بل بوتے پر یہ کھلی چھوٹ عالمی دہشت گردی کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

1948 میں اس جرم کی روک تھام کی کوشش کی گئی۔ اقوام متحدہ کے '' کنونشن آف پریوینشن اینڈ پنشمینٹ آف دی جرائم آف جینوسائیڈ '' میں اس جرم کے مرتکب کی سزا بھی طے کی گئی ہے۔ جنگی جرائم کی بدترین مثالوں میں ویت نام، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا، کمبوڈیا، روانڈا، ہولو کاسٹ، عراق، میانمر میں روہنگیا اور غزہ کی آبادی شامل ہیں۔

1992 میں شروع ہونے والی بوسینیا کی جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر نسلی صفائی، اجتماعی عصمت دری اور نسل کشی نے دنیا کو چونکا دیا، جس کے دوران بین الاقوامی مداخلت کی گئی اور سابق یوگوسلاویہ کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل کا قیام عمل میں آیا۔

روانڈا میں ہوتو کی زیر قیادت نسل کشی کے نتیجے میں توتسیوں کا اجتماعی قتل کیا۔اس وقت مروج جنگی قوانین کی بنیاد جینوا معاہدوں پر ہے، جن میں سے پہلا اقوام متحدہ کے قیام سے تقریباً 200 برس پہلے طے کیا تھا۔ دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کے تمام 193 ممالک انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے جنگی جرائم کے بارے میں تحقیقات یا قانونی کارروائی کرسکتی ہے۔

جنسی زیادتی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے اور بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کرنے تک حقوق کی پامالیوں پر مقدمات سنے جاتے اور فیصلے دیے جاتے ہیں، اس عدالت میں 17 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمے داروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا بھی اس عدالت کے کام کا حصہ ہے۔ اس میں روس کے صدر ولاد یمیر پیوتن کی گرفتاری کا وارنٹ بھی شامل ہے جو یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان کے مطابق غزہ میں اسرائیل نے جنگی جرائم کیے ہیں مگر بین الاقوامی عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ اس وقت اسرائیل دنیا کی نظروں میں اپنی وقعت کھو رہا ہے۔ یہ جنگ ختم ہوگی اور جنگی جرائم کے مزید شواہد دنیا کیسامنے آئیں گے تو جدیدیت کے نام پر بربریت کی ایک الگ تاریخ رقم ہوگی اور یہ جنگی جرائم کا سیاہ دھبہ اسرائیل کے ماتھے پر۔ ہمیشہ چپکا رہے گا۔

ان غیر منطقی جنگوں میں سب سے زیادہ بچے اور عورتیں متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کی نفسیات پر برا اثر مرتب ہوتا ہے۔ جو تمام عمر ذہنی بیماری سے لڑتے گزار دیتے ہیں۔ سویلین کے ساتھ فوجی خاندان بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ جنھیں تا عمر ذہنی و جسمانی معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ فلسطین کی بدترین نسل کشی اور جنگی جرائم کے خلاف پوری دنیا بالخصوص یورپ اور امریکی عوام نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت امریکا جنگی جرائم میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی زد میں ہے۔ خاص طور پر پچاس فیصد امریکی نوجوان، فلسطین کے لیے، ٹک ٹاک یا سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں