دسمبر کے زخم
آج دہشت گرد عناصر نے آگ و خون کا الاؤ روشن کر رکھا ہے
دسمبر کا مہینہ ہماری قومی تاریخ میں ایسے انمٹ نقوش رقم کر گیا ہے جو ذہنوں سے محو نہیں ہو سکتے۔
25 دسمبر کی تاریخ قوم کو یوں بھی یاد رہتی ہے کہ یہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے۔ مسلمانوں کا وہ عظیم رہنما جس نے اپنی غیر متزلزل قوت ارادی، خلوص نیت، سچی لگن، انتھک محنت، ہمالیائی عزم و یقین اور ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر کی تاریخ کا دھارا بدلتے ہوئے منتشر اور اپنی تلاش میں سرگرداں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور پھر بے مثال، ناقابل یقین و حیران کن اور تاریخی جدوجہد کے ذریعے ایک آزاد مسلم ملک پاکستان حاصل کر کے دنیا بھر کے مبصرین و تجزیہ نگاروں کو حیران کر دیا۔
لاکھوں مسلمانوں نے تحریک آزادی پاکستان میں اپنی جان، مال، عزت وآبرو کی قربانی دے کر ایک آزاد نو مسلم ریاست کی طرف یہ سوچ کر ہجرت کے دکھ اٹھائے کہ اپنے وطن میں دین اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ''آزادی'' ہوگی۔
جہاں رنگ، نسل، ذات پات، مذہب، عقیدے، مسلک اور زبان کی بنیاد پر ہندو مسلم فسادات، صوبائی و لسانی تنازعات اور خون آشام سانحات کا کوئی ڈر خوف نہ ہوگا، امن ہی امن ہوگا، لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ کیوں؟ اس لیے کہ قائد اعظم جیسی باکردار، ایماندار، صالح، باوقار اور مخلص قیادت آج تک اس قوم کو نصیب نہ ہو سکی۔
قائد اعظم کے فرمودات، نظریات، فلسفے اور اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خودغرض، مفاد پرست، بے اصول اور بددیانت حکمرانوں نے قائد اعظم کے پاکستان کا وہ حال کر دیا کہ آج ایوان اقتدار سے لے کر ایوان انصاف تک اور سیاست سے لے کر معیشت تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں خودغرضی، لالچ، طمع، بدنظمی، مفاد پرستی، بدانتظامی، لوٹ کھسوٹ، ناانصافی، حق تلفی، رشوت ستانی، اقربا پروری، فرقہ پرستی اور سیاسی، لسانی، مسلکی، مذہبی اور صوبائی نفرتوں کے ناسور نے اپنی جڑیں اس قدر پختہ کرلیں کہ سیاست پر آمریت غالب آگئی اور عدل پر نظریہ ضرورت حاوی ہوتا چلا گیا۔
جب ان تنازعات اور تضادات نے رفتہ رفتہ طول پکڑنا شروع کیا تو پاکستان کے دو بڑے حصے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے رہنماؤں اور عوام میں بالخصوص فاصلے، دوریاں اور نفرتیں بڑھنے لگیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ازلی دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کردی جس کا درد ناک نتیجہ 16 دسمبر 1971 کو شکست کی صورت میں ہمارے سامنے آیا اور ہمارا مشرقی بازو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گیا۔
سقوط ڈھاکا ہماری قومی زندگی کا وہ المناک، اشک بار، دلخراش اور سیاہ ترین دن ہے جو پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ایک ایسے ناسورکی طرح جسد قومی میں پیوست ہے کہ جس سے مسلسل لہو رس رہا ہے۔ پوری قوم ہر سال 16 دسمبر کو لگنے والے اس گہرے گھاؤ کی تلخ یادوں کو مناتے ہوئے سخت افسردہ اور ملول ہو جاتی ہے۔ 1971 میں اپنے قیام سے محض 24 سال بعد پاکستان کا ٹوٹ جانا، مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق اتنا بڑا سانحہ ہے کہ جس کی مثال مسلمانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
سانحہ بنگال کے نتیجے میں پاکستانی قوم کی نفسیات اور سوچ بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس دلدوز حادثے نے پاکستانی عوام کے لاشعور کے خوف، ان دیکھے خدشات اور اندیشہ ہائے دوردراز کو جنم دیا اور اسے مستقل طور پر ایک غیریقینی مستقبل کے خوف سے دوچار کر دیا۔ ہر پاکستانی کے ذہن میں سقوط بنگال کے حوالے سے درجنوں سوالات کلبلاتے رہے ہیں۔
قومی و عالمی سیاست کے ماہرین، مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے بھی اپنے اپنے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر متعدد سوالات اٹھائے کہ کیا سقوط مشرقی پاکستان محض ایک فوجی شکست تھی؟ کیا یہ سانحہ اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل یحییٰ خان اور اس کے ساتھیوں کی کوتاہ اندیشی کا نتیجہ تھا؟ کیا یہ عالمی طاقتوں کی سازش تھی؟ کیا یہ ہندوستان کے انتہا پسند اور پاکستان دشمن لیڈروں کی کارستانی تھی کہ جو اول دن سے پاکستان کے وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس ضمن میں بھارت کے بعض رہنماؤں کے بیانات آج بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔
جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان کی تخلیق ایک عارضی اقدام ہے اور یہ آخرکار متحدہ ہندوستان پر منتج ہوگی۔ ولبھ بھائی پٹیل دور کی کوڑی لائے کہ جلد یا بدیر ہم سب اپنے ارض وطن کی خدمت کے لیے متحد ہو جائیں گے۔
اسی طرح 30 نومبر 1971 کو مغربی پاکستان کی سرحد پر محاذ جنگ کھولنے سے چند گھنٹے قبل ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے نہایت جذباتی انداز میں پاکستان کو چلینج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی رہنماؤں کا ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ پاکستان کی تخلیق ایک غلط اقدام تھا۔''
یہ سوال اپنی جگہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کے دولخت ہونے سے ہمارے سیاسی و عسکری اکابرین نے کیا سبق حاصل کیا؟ اس سانحے کے اسباب، عوامل، محرکات اور وجوہات کیا تھیں؟ اس حادثے کے ذمے دار تمام کرداروں کا محاسبہ ہوا یا نہیں؟ افسوس کہ ان سوالات کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔
آج دہشت گرد عناصر نے آگ و خون کا الاؤ روشن کر رکھا ہے۔ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے مستقبل کے معماروں اور گلشن علم کی 144 کلیوں کو پل بھر میں لہو لہان کرکے ارباب اختیار کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
دسمبر ہی کے مہینے میں بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کا نشانہ بن کر شہید ہوگئیں۔ سیاسی و عسکری قیادت نے سر جوڑ کر نیشنل ایکشن پلان بنایا اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ضرب عضب اور ردالفساد آپریشن شروع کیے تاکہ ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلا کر امن کا گہوارا بنایا جائے تاہم آج بھی دہشت گرد عناصر کے پی کے اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
چار روز پیشتر ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں نے خودکش حملہ کر کے 25 جوانوں کو شہید کر دیا۔ حملے کی ذمے داری ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپ تحریک جہاد نے قبول کرلی ہے جب کہ پاکستان نے افغانستان سے شدید احتجاج کرتے ہوئے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ نہ جانے کیوں دسمبر کا مہینہ ہر سال نئے زخم دے جاتا ہے۔