بھٹو کیس
اگر اس کیس کے شواہد کوکھولا جائے تو شاید دفترکے دفتر اورکاغذات کے انبار لگ جائیں
عدالتِ عظمیٰ نے 12 دسمبرکو بیالیس برس پرانے ذوالفقار علی بھٹوکیس کی سماعت کی، اس صدارتی ریفرنس کے حوالے سے جو 2011 میں سپریم کورٹ کے آرٹیکل 186 کی ایڈوائزریjurisdiction میں بھیجا گیا تھا۔
تاریخ کے تناظر میں اگر اس کیس کو دیکھا جائے تو نہ جانے کتنے پہلو ہیں اس مقدمے کے، اگر اس کیس کے شواہد کوکھولا جائے تو شاید دفترکے دفتر اورکاغذات کے انبار لگ جائیں۔
پانچ جولائی1977 کو جنرل ضیاالحق اور اس کے ساتھیوں نے وزیراعظم بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا، بارہ جولائی کو مولوی مشتاق نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا حلف لے لیا۔ سرکاری وکیل نے ٹرائل کورٹ میں یہ استدعا کی کہ سیکشن 200 Cr.PC کے تحت اس کیس کی سماعت ہائی کورٹ میں کی جائے۔
بھٹو صاحب کے وکیل کو استغاثہ کی اس درخواست پر بغیر سنے فوری طور پر منظورکر لیا گیا۔ سپریم کورٹ کو اب پورا ریکارڈ اور پروسیڈنگز کال کرنا چاہیے۔ نہ جانے کیسے42 گواہ چلائے گئے، کس طرح سے اس مقدمے کو سنا گیا، مولوی مشتاق نے کس طرح سے اس مقدمے کو چلایا کہ ملزم کو اپنے دفاع میں کچھ بولنے کا موقعہ نہ دیا گیا۔
ایک سال کے اندر اندر اس کو سنا بھی گیا اور فیصلہ بھی صادرکردیا گیا۔ اس مقدمے کی ایف آئی آرکیسے اور کس نے کٹوائی؟ تفتیش پولیس نے کی یا پھر مارشل لاء حکومت نے؟ اس مقدمے کو مجسٹریٹ نے کس طرح پروسیڈ کیا؟ کس طرح سے یہ مقدمہ ایک ہی دن میں مجسٹریٹ سے سیشن جج کے پاس منتقل کیا گیا اور جس ہائی کورٹ کے جج نے بھٹوکو ضمانت پر رہا کیا، اس کا کیا حشر ہوا ؟
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھٹو صاحب نے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو یہ خط لکھا کہ وہ ان کی اپیل نہ سنیں کیونکہ آئین کے اندر چھٹی ترمیم جس کو ضیا الحق نے تحلیل کیا ، آپ اس کے بینیفشری ہیں۔ انھوں نے اور ان کے علاوہ بہت سے ججوں نے نصرت بھٹوکیس میں جنرل ضیا ء الحق کے شبِ خون کو صحیح قرار دیا تھا، لٰہذا وہ تمام ججز اس اپیل کی سماعت نہ کریں کیونکہ یہ اپیل ان کے فرض سے ٹکراؤ میں ہے۔
پھر زمانوں بعد جسٹس نسیم حسن شاہ کا ضمیر جاگا دیر آید درست آید ! انھوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ بھٹو صاحب کے کیس کے سلسلے میں ان پر ضیاالحق کا بہت دبائو تھا۔ اس بات کا مطلب یہی ہے کہ جن چار ججز نے بھٹو صاحب کی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا، انھوں نے اس فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ اسی لیے یہ کیس miscarriage of justice کے زمرے میں آتا ہے۔ انصاف کے آئینے میں بھٹو صاحب کا کیس کھلے انداز میں اس بات کی تصدیق ہے کہ بھٹوکا کوئی کیس ہی نہ تھا بلکہ اس کیس کو بنایا گیا ہے۔
بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں میرے والد نے اپنا زیادہ تر وقت جیل میں گزارا یا جلا وطنی میں۔5 جولائی1977 کو بھٹو صاحب کا تختہ الٹایا گیا، اس سے کچھ ماہ پہلے ہی میرے والد جیل سے رہا ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو میرے والد نے صدرِ پاکستان کو ٹیلی گرام کیا کہ وہ تین ججز جنھوں نے بھٹو صاحب کو بے گناہ قرار دیا ہے، ان کا تعلق چھوٹے صوبوں سے ہے، لٰہذا بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس میں وفاق کے لیے بہتری نہیں۔ اس ٹیلی گرام کے پہنچنے کی دیر تھی، پولیس ہمارے گھرکی دہلیز پر کھڑی تھی، میرے والد کی گرفتاری کے وارنٹ لیے ہوئے۔
میں بھی سپریم کورٹ کا وکیل ہوں اور میری یہ گزارش ہے کہ مجھے بھی اس کیس میں معاونت کے لیے بلایا جائے تاکہ میں اس کیس میں سندھ اور وفاق کے نقطہ نظرکو پیش کرسکوں۔ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے! اس کا آغاز تو بھٹوکیس میں غلطی تسلیم کرنے کے بعد شروع ہوگا۔ پاکستان ایک وفاق ہے، یہ سفر بھی نئے سرے سے شروع ہوگا۔ یہ بحث بھی بے معنی ہے کہ Article 186 سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ اختیارAdvisory jurisdiction) ( ہے یا پھر اعلانیہ دائرہ اختیار Declaratory Jurisdiction ہے۔
اس بات کا تعین خود سپریم کورٹ کر سکتی ہے کہ سپریم کورٹ کو کونسا دائرہ اختیار درکار ہے۔ یہاں تک کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ آرٹیکل 184(3) کے تحت بھی سن سکتی ہے۔ یہ مقدمہ کسی بھی طرح Doctrine of Past and close transiction کے زمرے میں نہیں آتا، تاوقتکہ سپریم کورٹ اپنے ماضی کی اس سنگین غلطی کا اعتراف نہ کر لے۔2011 میں صدر آصف علی زرداری نے یہ ریفرنس دائرکیا تھا۔ اس وقت اس کیس کی کچھ سنوائیاں ہوئیں لیکن پھر یہ ریفرنس گیارہ سال تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا۔ آج اس ریفرنس کو دوبارہ کھولا گیا ہے، یہ ہمت بھی موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کی گئی ہے۔
زمانے بیت گئے اس مقدمے کو۔ اب وہ پیپلز پارٹی بھی نہیں رہی جو بھٹو نے بنائی تھی، اس لیے اس کا فائدہ کسی پارٹی کو نہیں ہوگا۔ ہاں! مگر فائدہ ہوگا اس عدالت کو جس کے پسِ پردہ بیٹھے چند لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات حاصل کیے۔ نئے سال سے اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا۔ ہم لوٹنا چاہتے ہیں آئین کی طرف، جمہوریت کی طرف اور اس نظریے کی طرف کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
1917 میں روس میں انقلاب آیا، روس کا زار نکولس، اس کی دو بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوی گرفتار ہوگئے اور دو سال تک بالشویک حکومت کی قید میں رہے ۔ پھر بالشویک حکومت کو یہ اندازہ ہوگیا کہ اگر شاہی خاندان زندہ رہا تو روسی عوام میں ان کی مقبولیت بڑھتی جائے گی جو حکومت کے لیے خطرناک ہوگی۔ ایک رات زار روس اور شاہی خاندان کو جگایا گیا۔ انھیں یہ بتایاگیا کہ ان کو کسی اور شہر میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
شاہی خاندان خوش تھا کہ جلا وطنی ہی سہی، جیل اور قید سے رہائی تو مل جائے گی مگر ، مگر دھوکے سے ان کو اسی گھر کے تہہ خانے میں لے جایا گیا اور ان کو انقلابی عدالت کی ڈگری سنائی گئی۔ اس خاندان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اسی سال بعد جب بورس یلسن روس کا صدر بنا تو یہ کیس دوبارہ کھولا گیا۔ روسی حکومت نے زارنکولس کو روس کا آئینی بادشاہ تسلیم کیا۔
پورے شاہی خاندان کی میتیں جو سائبیریا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں دفنائی گئی تھیں، وہاں سے نکال کر روس کے دارلحکومت ماسکو میں شاہی اعزازکے ساتھ دفنائی گئیں۔ بھٹو صاحب پاکستان کے آئینی وزیرِاعظم تھے اور اس کا عدالتی قتل بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، لٰہذا بھٹوکو آئینی وزیرِ اعظم قرار دے کر ان کی قبر پر پورے پروٹوکول کے ساتھ گارڈ آف آنر پیش کیا جانا چاہیے تاکہ انصاف قائم ہوجائے۔