خونِ ناحق 4 اپریل 1979۔12 دسمبر2023 آخری حصہ
مصائب کا یہ صندوق جو 1977 میں کھلا تھا جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی
ایک دن وہ وقت بھی آن پہنچا جب بھٹوکو یقین ہوگیا کہ اس کی زندگی کے چرا غ کو گل کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ خوفزدہ نہیں ہوا۔
کسی اور پر یہ حقیقت آشکار ہوتی تو اس کی ہمت اور استقامت جواب دینے لگتی، لیکن عوام سے بے پناہ محبت کرنے اور ان کے لیے زندگی وار دینے والے رہنما انسانوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحوں میں امر ہوجاتے ہیں۔
اس مرحلے پر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ اس سے جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور جس کیفیت سے وہ گزر رہا ہے، اسے رقم کرکے تاریخ کے سپرد کردیا جائے۔ اس نے لکھا:
''اس رات کوٹ لکھپت جیل کا سپرنٹنڈنٹ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگلے دن مجھے عدالت میں حاضری دینی ہوگی، فیصلہ سنایا جائے گا، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، ہائی کورٹ میں ہونے والی کچھ بھاگ دوڑ، فوج کی موجودگی اور اسی قسم کی دوسری باتیں یہ ظاہرکر رہی تھیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ جیل میں بھی اس بات کے واضح نشانات تھے کہ باہر سب خیریت نہیں ہے۔ فلڈ لائٹس لگائی جا رہی تھیں، کھمبے گاڑے جارہے تھے، سائرن لگائے جارہے تھے، دو ایک بار معائنے بھی ہوئے۔'' جیل سپرنٹنڈنٹ آیا توکافی دیر میرے پاس بیٹھا رہا، اس نے باہر کی تمام سرگرمی کو چھپانا چاہا، میں چپ رہا، اس نے تسلی دی '' خدا پر ایمان رکھیں۔''
'' ظاہر ہے خدا پر ہی ایمان رکھیں گے اورکس پر رکھیں گے! '' پھر اس نے کہا '' میں آپ کو اس بات کا یقین دلانا چاہتا ہوں۔ یہ احکامات پہلے ہی آچکے ہیں کہ آپ جہاں ہیں وہیں رہیں گے! ''
میں اس کی اس کوشش پر مسکرا دیا کیونکہ وہ عدالت میں تو کبھی گیا ہی نہیں تھا جہاں مجھے صاف اشارے مل چکے تھے۔ ہمیں بس آخری دن کا انتظار ہے جب ہم اپنی ہوس بھری آنکھوں سے تمہیں پھانسی کے تختے پر لٹکتا ہوا دیکھیں گے۔میں چپ رہا، بس مسکرا دیا۔
اس روز عدالت سے واپسی پر یحییٰ بختیار مجھے دیکھنے آئے، وہ بہت بد حواس تھے، میں نے کہا وہ پریشان نہ ہوں، ہم سب سے اوپر خدا کی ذات ہے۔
جیل کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آیا اترے ہوئے پشیماں چہرے کے ساتھ۔ میں اسے دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ کوئی بات ہے۔ میں نے اسے چائے پیش کرنی چاہی تو اس نے انکار کر دیا۔ پھر اس نے کہا کہ وہ ایک ناخوشگوار فرض کی ادائیگی کے لیے آیا ہے اور اسے اس پر شرم آرہی ہے۔ اسے حکم دیا گیا ہے کہ مجھے فوراً موت کی کوٹھری میں پہنچا دیا جائے۔
مجھے وہاں پہنچا دیا گیا۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھ پر ترس کھائے۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھ پر رحم کرے۔ میں صرف انصاف چاہتا ہوں۔میں اپنی زندگی کے لیے، بہ طور زندگی جس کا ڈھانچہ لہو اورگوشت سے تیار ہوتا ہے وکالت نہیں کررہا ہوں۔ ایک دن سب کو یہاں سے جانا ہے۔''
پاکستان کے عوام کو دنیا کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ بھٹو کی زندگی کے آخری دو دنوں میں کیا ہوا ہے۔ شمیم حنفی اپنے سمبلاژ '' زنداں میں رات ہوگئی '' میں اخبارات کے حوالوں سے بیان کرتے ہیں: موت سے پہلے نوے دن تک اس نے سورج نہیں دیکھا تھا۔'' تین اپریل 1979 اس نے تین گھنٹے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزارے۔
رپورٹرز کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک تیز رفتار گاڑی میں انھیں جیل تک لے جایا گیا۔ پھر اسی رفتار کے ساتھ واپسی ہوئی۔ گاڑی کی کھڑکیوں سے ان کے اترے ہوئے چہرے دکھائی دیے۔یہ طویل ملاقات شاید آخری ملاقات ثابت ہوگی۔اس کی تینوں حویلیوں پر قبضہ کر لیا گیا، ملازم گرفتار کر لیے گئے۔
تارا مسیح راولپنڈی پہنچ چکا ہے۔
سندھ میں اس کے فارم ہائوس کے قریب نوڈیرو کے مقام پر اس کے چچا کو لے جایا گیا اور پوچھا گیا۔ قبر کے لیے یہاں کون سی جگہ مناسب ہوگی؟ رحم کی اپیل دنیا کے بہت سے ملکوں اور ان گنت حاکموں نے کی۔ وہ خود اور اس کی گھر والے ایسی کسی درخواست پر آمادہ نہ ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق نے رحم کی تمام اپیلوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے فیصلے کی تائید کی ہے۔
موت کی کال کوٹھری۔ جہاں ایک پورا برس اس نے سیمنٹ کے ٹھنڈے فرش پرگزارا تھا۔ آدھی رات کے بعد اسے جگایا گیا۔اس نے غسل کیا، پھر ہفتوں بعد اسے شیوکرنے کی اجازت دی گئی، پھر اسے کہا گیا کہ وہ اپنی وصیت رقم کرے، اس نے کچھ لکھا، پھر اس نے کاغذ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔پھر اس کے دونوں ہاتھ باندھ دیے گئے۔ اس کی آنکھیں زمین پر جمی ہوئی تھیں اور ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔ پھر اس نے قرآن کی چند آیتیں پڑھیں۔ آخر اسے پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا۔
تارا مسیح کو پچیس روپے دیے گئے۔
اخباروں کے ضمیمے ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔
دفتروں کو جانے والے سڑکوں کے کنارے ششدر کھڑے تھے، پان کی دکانوں پر بھیڑ تھی۔ پٹواریوں نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ ٹیکسی والوں نے کہیں آنے جانے سے انکارکردیا۔
اس صبح سے پہلی والی شام کو بے موسم بارش ہوئی تھی۔ لوگوں کو یقین نہیں آیا۔
مصائب کا یہ صندوق جو 1977 میں کھلا تھا جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی جس نے ہمیں آمریت کا سیاہ دور دیکھنے پر مجبورکیا جس کی وجہ سے آئین کا چہرہ اس طور مسخ ہوا کہ جمہوریت صدر کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئی اور منتخب نمایندے فرد واحد کی اشارۂ ابرو پر اپنے منصب سے معزول کردیے گئے۔ مصائب کے صندوق کا ڈھکن آج بھی بند نہیں ہوا ہے اور پاکستان کے حالا ت روز بہ روز دگرگوں ہو رہے ہیں اورآثار سحر جیسے گم سے ہوگئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک سوچی سمجھی موت کا انتخاب کیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے بے زبان عوام کے منہ میں زبان رکھ دی تھی اور انھیں یہ حوصلہ بخشا تھا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرسکیں۔
ایک آمرکا خیال تھا کہ وہ سچ کو سولی پر لٹکا کر عوام کی زبانیں کاٹ سکے گا۔ ان کے کانوں اور آنکھوں پر مہریں ثبت کرسکے گا اور ان کی عقل کو اپنے پاس گروی رکھ سکے گا، لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ آمروں اور غاصبوں کے ہاتھ سچ کی آواز کا گلا نہ گھونٹ سکے اور آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کا خون عوام کی آواز کے ساتھ ہم آواز ہوکر جمہوریت، آزادی اور مساوات کا طلب گار ہے۔
بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت 12 دسمبر کو ہوئی اب یہ سماعت جنوری کے وسط تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی اور مزید کوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔
قانونی موشگافیوں سے قطع نظر یہ دیکھنا ہوگا کہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کو راہ سے ہٹانے کے لیے نظام انصاف کو من مانے، سوچے سمجھے اور یک طرفہ طور پر استعمال کرنے کا جو سلسلہ جسٹس منیر کے دورسے شروع ہوا تھا۔ اس کا خاتمہ کب اورکیسے ہوگا؟
جب تک ایسا نہیں ہوگا ملک میں پارلیمنٹ اور عوام کے منتخب نمایندوں کی بے توقیری جاری رہے گی، جمہوریت مستحکم نہیں ہوگی اور سیاسی عدم استحکام سے جنم لینے والے سیاسی اور معاشی انتشارکی ناقابل تصور قیمت ہم سب کو ادا کرنی پڑے گی۔