سرِزمینِ نیل ۔۔۔۔ ملتان
پاکستان کے قدیم ترین شہر کی تاریخی عمارات، مزارات اور تنگ گلیوں کا سفر
نیل کی تاریخ کے بارے کوئی حتمی بات تو سامنے نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ نیل کی کاشت کے 1300-3300 قبل مسیح تک کے شواہد ملتے ہیں۔
ایک بات جو نیل کے بارے حتمی ہے کہ نیل کی پہلی فصل برصغیر میں ہی بوئی اور کاٹی گئی تھی۔ برصغیر کے لوگ ہی وہ پہلے تھے جنھوں نے نیل کا استعمال عمارات، برتنوں اور کپڑوں میں کیا۔ یہاں تک کہ لفظ Indigo بھی Indus سے ہی نکلا ہے۔ عرصۂ قدیم سے ہی برصغیر دو چیزوں کے لیے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
ایک نیل اور دوسرا مسالہ جات۔ مارکو پولو ہو یا واسکوڈے گاما، دنیا بھر سے سیاح، ملاح اور تاجر برصغیر میں نیل اور مسالاجات کے لیے آتے رہے۔ ہماری جینز کا نیلا رنگ بھی نیل کی ہی وجہ سے ہے کہ اس کپڑے کے لیے نیل یہی برصغیر سے یورپ گیا تھا۔
مغل دور میں بھی نیل کی صنعت کو بڑا فروغ دیا گیا جس کے لیے ملتان، لاہور، آگرہ سمیت سے علاقوں میں خاص نیل کی تجارتی منڈیاں قائم کیں۔ روایات ہیں کہ ملتان کے صوفی بزرگ بہاالدین زکریاؒ بھی نیل کی صنعت سے وابستہ رہے۔
یہ بھی کتابوں میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ آپ نے ملتان کے قریب ایک علاقے نیل کوٹ کو آباد کیا جہاں صرف نیل کی فصل کاشت کی جاتی تھی۔ ملتان بنیادی طور پر دریائے راوی کے کنارے آباد ہے جب کہ راوی اور چناب کا سنگم بھی ملتان کے قریب ہی ہوتا ہے۔
ملتان میں نیل کی اس قدر وسیع پیداوار کے لیے اسے نیل کی سرزمین بھی کہا جاتا تھا جو ریشم کی رنگائی کے ساتھ کاشی گری میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ ملتان میں نیل کثرت میں ہونے کی وجہ سے آپ کو وہاں کی ہر قدیم عمارت میں بہت زیادہ نیلا رنگ دیکھنے کو ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی روایتی چادر بھی نیلی ہی ہے۔
یہ میری خوشی قسمتی ہے کہ مجھے ہمیشہ میری توقع سے زیادہ اچھے انسان ملتے ہیں یا پھر شاید سیاح ہوتے ہی ایسے ہیں۔ کسی سے بھی ملنے سے پہلے میں نے کبھی اس کا خاکہ نہیں بنایا، مبادا بعد میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ایک عرصے سے دماغ میں منصوبہ بندی چل رہی تھی کہ جنوبی پنجاب وزٹ کیا جائے جس کے لیے کم ازکم چار دن درکار تھے۔
بہت کوشش کی مگر کچھ بھی سبیل نہ بن سکی۔ ڈاکٹر مزمل ہاشمی صاحب سے ان علاقوں کے بارے معلومات لیتا رہتا، پبلک ٹرانسپورٹ کے بارے میں معلومات لیتا۔ ڈاکٹر مزمل سے خوب ساری معلومات حاصل کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جنوبی پنجاب کا دورہ نہ ہوپائے گا کیوںکہ میں جتنی معلومات ڈاکٹر صاحب سے لیتا جا رہا تھا، فہرست لمبی سے لمبی ہوتی جا رہی تھی۔
مجھ سے چار دن نہ نکل رہے تھے اور یہ پلان چار دن سے بھی آگے نکل چکا تھا۔ ایسے میں عقل مندی کی بات نہ جانے کہاں سے ذہن میں آئی کہ بھائی اپنے اس پلان کو توڑ دو۔ سوچا کہ پہلے مرحلے میں صرف ملتان دیکھا جائے۔
ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ''وسیب'' کی ساتویں سال گرہ آن پہنچی جس کے لیے ڈاکٹر صاحب نے محبت بھرا پیغام بھیجا۔ پتا نہیں کیوں ہجوم سے میری اب جان جاتی ہے اس لیے ڈاکٹر صاحب سے معذرت کرلی۔ ڈاکٹر صاحب کی محبت کہ انھوں نے معذرت قبول کی، کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ اگر میں اس فوٹو واک میں چلا گیا پھر کم از کم میرا پلان مکمل نہیں ہوسکے گا، مگر مجھ سے برداشت نہ ہوا اور اگلے ہی ہفتے میں ملتان کے لیے روانہ ہوگیا۔
میرا ایک دوست علی عمر چوں کہ ساہیوال سے تھا تو اسے بھی ساتھ لے لیا۔ منہ اندھیرے ہم دونوں ہی ملتان پہنچ چکے تھے۔ طے یہی ہوا تھا کہ ہم دونوں فجر کی نماز پڑھ چکنے کے بعد ملتان کے گھنٹہ گھر کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔
میں جب ملتان پہنچا تو ابھی فجر کی نماز میں کچھ وقت تھا۔ وہیں ایک ٹرانسپورٹ سروس کی بنائی ہوئی مسجد میں سستانے کے لیے لیٹ گیا۔ وقتِ مقررہ پر نماز ادا کی اور چل پڑا ملتان گھنٹہ گھر کی جانب۔
سکھوں نے پنجاب پلیٹ میں رکھ کر انگریزوں کو نہیں سونپا تھا۔ وہ لڑے اور آخری دم تک لڑے تھے۔ اگرچہ کہ سکھوں نے کوئی خاص اچھا سلوک مسلمانوں یا مساجد کے ساتھ نہیں کیا۔ تاریخی مساجد جن میں لاہور کی بادشاہی مسجد، بھیرہ کی شیر شاہ سوری مسجد اور چنیوٹ کی شاہی مسجد سمیت تقریباً ہر بڑی مسجد کو اصطبل بنا دیا گیا۔
جتنی قوت سے انھوں نے پنجاب حاصل کیا تھا، اس سے زیادہ قوت انھوں نے پنجاب کو بچانے پر لگا دی مگر پنجاب کے بہادر سپوت یہاں ہار گئے اور ملتان سمیت پورا پنجاب رفتہ رفتہ سکھوں سے انگریزوں کے پاس چلا گیا۔ انگریزوں نے پنجاب کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہاں کے انتظامی امور پر بھرپور توجہ دی۔
ملتان میں احمد خان سدوزئی کی حویلی تھی جسے انگریز سکھ جنگ میں بہت نقصان پہنچا تھا مگر پھر بھی ذرا اچھی حالت میں تھی۔ انگریزوں نے اسے اپنی تحویل میں لیا، مناسب تبدیلیاں کرنے کے بعد اسے 1849 میں میونسپل کمیٹی کا دفتر بنا دیا گیا۔ شروع میں اسے ہندوستان کے وائسرائے کی مناسبت سے Ribbon Hall کا نام دیا گیا جو 1884-88 تک ہندوستان کے وائسرائے رہے تھے۔
اسی دوران عمارت کے داخلی حصے پر ایک اضافی مینار تعمیر کیا تھا۔ چاروں طرف بڑے بڑے گھڑیال نصب کئے گئے اور اسے گھنٹاگھر کا نام دیا گیا۔ آج یہی احمد خان سدوزئی کی حویلی ملتان گھنٹاگھر کہلاتی ہے اور اس سے منسلک ہال کو جناح ہال کہا جاتا ہے۔
ملتان کا گھنٹاگھر اس لیے بھی منفرد ہے کہ گھنٹا گھر عام طور پر ایک چوک میں بنایا جاتا ہے مگر یہ کسی چوک میں نہیں، ہاں چوک کے قریب ضرور ہے۔
غالباً 1985 میں ہی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میونسپل کمیٹی کو یہاں سے منتقل کردیا گیا۔ گھڑیاں خراب ہوگئیں اور پھر خراب ہی رہیں۔ 2011 میں سوئس کمپنی Rado نے مشہوری کے عوض ہی سہی اپنی گھڑیاں یہاں نصب کیں مگر گھڑیوں کی سوئیاں تبدیل نہیں کی گئیں۔
ملتان گھنٹاگھر سے دائیں جانب اگر آپ نظر نہ بھی اٹھانا چاہیں تو آپ کی نظر لاشعوری طور پر حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار کی جانب اٹھ جائے گی۔ شاہ رکن عالمؒ جو بہاالدین زکریاؒؒ کے پوتے اور صدرالدین کے فرزند تھے، اپنے دادا اور والد محترم کے پاس ہی قلعہ قاسم یا قاسم باغ میں دفن ہیں۔ احباب جانتے ہیں کہ پہلے ہمیشہ قلعہ ایک بلند ٹیلے پر تعمیر کیا جاتا تھا۔
ملتان کا شہر بھی ایک بلند ٹیلے پر ہی تعمیر کیا گیا تھا جس کے ایک جانب دریائے راوی بہتا تھا۔ آپ قلعے میں مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت شاہ رکنؒ عالم کا مزار ہے جو کہ ملتان شہر کی پہچان ہے۔
ملتان شہر تقریباً چھے ہزار سال پرانا ہے۔ یہاں تک کہ ایک فرعون کے شواہد بھی یہاں ملتے ہیں جس نے ملتان پر حملہ کیا تھا۔ یہی پر سکندراعظم کو وہ زہریلا تیر بھی لگا تھا جو اس کی موت کی وجہ بنا۔ شاہ رکن عالمؒ نو رمضان 649 ہجری کو پیدا ہوئے۔ دادا حضرت بہاء الدین زکریاؒ نے ان کا نام رکن الدین رکھا۔
حضرت بہاء الدین زکریاؒ کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔ روایت ہے کہ چھے سال کی عمر میں ایک بار بچے رکن الدین نے دادا بہاالدین زکریاؒ کی دستار پہن لی۔ باپ صدرالدین نے اسے گستاخی جان کر ڈانٹ ڈپٹ کی تو دادا نے اپنے بیٹے یعنی رکن الدین کے باپ صدرالدین سے کہا کہ اسے مت ڈانٹو، میرے بعد یہ اسی کے سر پر رکھی جائے گی اور پھر شاہ رکن عالم کے گدی نشین ہونے پر وہی دستار آپ کے سر پر رکھی گئی۔
صدرالدین کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب ایک بار وہ حج کے لیے مکہ میں تھے تو کسی شہزادی نے آپ کی پیشانی چمکتی ہوئی دیکھی۔ اس نے صدرالدین کے بارے میں معلومات لیں اور واپسی پر اپنے باپ جو ایک سلطان تھے، کے ساتھ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
بعدازآں ان کی شادی صدرالدین سے کردی گئی، جن کے بطن سے رکن الدین پیدا ہوئے۔ یہاں ایک اور روایت بھی ہے کہ رکن الدین جب ماں کے پیٹ میں تھے تو ان کی والدہ ہر روز ایک قرآن ختم کرتی تھیں۔ اسی لیے رکن الدین کو پیدائشی طور پر چودہ پارے حفظ تھے۔
(اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس روایت کو محض کہانی سمجھتے ہیں یا یہاں سبحان اللہ کہتے ہیں) آپ قلعے کے اندر چلتے جائیں تو آگے آپ کو بہاالدین زکریاؒ کا چھوٹا سا مزار ملے گا جن کے پہلو میں ان کے بیٹے اور رکن الدینؒ کے باپ صدرالدین دفن ہیں۔ شاہ رکنؒ عالم کو بھی وفات کے بعد دادا بہاالدین زکریاؒؒ کے قدموں میں دفن کیا گیا۔
اس وقت حکم راں سلطان ریاض الدین تغلق تھا جس نے اپنے لیے ایک خوب صورت مقبرہ بنایا تھا اور وصیت کی کہ مرنے کے اسے وہیں دفن کیا جائے۔ ریاض الدین تغلق نے اپنی زندگی میں ہی شاہ رکن عالم سے درخواست کی تھی کہ وہ اسی عمارت میں لوگوں کو درس و تدریس سے فیض یاب کیا کریں۔ چناںچہ رکن الدین نے اسی عمارت کو اپنا مسکن بنایا۔ ریاض الدین تغلق کا انتقال جس وقت ہوا، وہ دہلی میں تھا۔ اسے ملتان کی مٹی نصیب نہ ہوئی۔
وہیں دہلی میں ہی اسے دفن کیا گیا۔ یہاں جب شاہ رکن عالمؒ کا انتقال ہوا تو انھیں دادا کے قدموں میں جگہ ملی مگر محمد شاہ تغلق کی حکم رانی کے وقت اسے ایک رات حضرت بہاالدین زکریا کی خواب میں زیارت ہوئی اور ان ہی کے حکم پر محمد شاہ تغلق نے شاہ رکن عالمؒ کے جسد خاکی کو حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے پاس سے اس مقبرے میں منتقل کیا۔
حضرت شاہ رکن عالمؒ کی خواجہ نظام الدین اولیاء اور امیرخسرو، دونوں سے عقیدت تھی اور دونوں کی ہی نمازجنازہ حضرت شاہ رکن عالمؒ نے پڑھائی تھی۔ 1975 میں مزار کے ساتھ ایک مسجد بھی بنائی گئی۔
مسجد پرانی نہیں مگر اس کو مزار کی طرز پر ہی بنایا گیا تھا تاکہ یہ اسی وقت کی معلوم ہو۔ مقبرے کے ساتھ پہلے ایک وسیع قبرستان تھا مگر جب مقبرے کی عمارت کو وسیع کرنے کے لیے قبرستان کو ختم کیا گیا تو 75 قبریں ایسی تھیں جن کے کفن ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود میلے نہ ہوئے تھے۔
آپ جب شاہ رکن عالمؒ کے مقبرے کے احاطے میں داخل ہوں تو دیکھ سکتے ہیں کہ زمین پر مختلف جگہوں پر قبر لکھا ہے۔ یہ اصل میں ان ہی قبروں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
انہی کے نیچے وہ اصل قبریں ہیں۔ شاہ رکن عالم کے یہاں دفن ہونے کے بعد ان کے کئی رفقاء اور رشتے داروں کو بھی ان ہی کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ان تمام قبروں کے تعویذ شاہ رکن عالم کی قبر کے تعویذ کے ساتھ ہی موجود ہیں جب کہ شاہ رکن عالم سمیت سب کی اصل قبر بہت نیچے ہے۔
مدینہ اولیاء یعنی اولیاء کے شہر ملتان میں سب سے پہلے آنے والے بزرگ اگرچہ شاہ یوسف گردیزی تھے مگر سب سے پہلے ولایت کا درجہ جنھوں نے حاصل کیا وہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی تھے۔ آپ 578 ہجری میں ملتان کے قریب ہی پیدا ہوئے اور انتقال 661 ہجری میں شہر ملتان میں ہوا۔ آپ کے آباء اجداد نے مکہ سے یہاں ہجرت کی تھی۔
آپ نے تقریباً ایک سو سال عمر پائی۔ کھیتی باڑی بھی کرتے رہے۔ ملتان کے قریب نیل کوٹ کا علاوہ بھی آپ نے ہی آباد کروایا جہاں نیل کی کاشت کی جاتی تھی۔ آپ کے وقت دہلی پر التتمش حکم راں تھا جب کہ ملتان پر ناصرالدین قباچہ کی حکم رانی تھی۔
ناصرالدین قباچہ ایک شرپسند شخص تھا اور دہلی سے بغاوت کا ارادہ رکھتا تھا۔ حضرت بہاء الدین زکریاؒؒ نے التتمش کو قباچہ کے بارے میں لکھا مگر بدقسمتی سے وہ خط پکڑا گیا۔ ناصر الدین قباچہ نے حضرت بہاء الدینؒ کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ حضرت نے قباچہ کے سامنے ناصرف اس خط کا اعتراف کیا بل کہ اسے آئینہ بھی دکھایا کہ اس کی وجہ سے ملتان کے لوگ کس قدر مشکل میں مبتلا ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ کے ان الفاظ نے قباچہ کے دل پر بہت اثر کیا اور وہ اپنی شرانگیزیوں سے باز آگیا۔
آپ کے مزار کی عمارت تقریباً 800 سال پرانی ہے۔ ساتھ ہی مسجد کو بہت بعد میں تعمیر کیا گیا تھا مگر مسجد کی تعمیر کے دوران اس بات کا دھیان رکھا گیا کہ یہ مزار کی عمارت کے ساتھ ہی میل کھائے۔ حضرت بہاء الدین زکریاؒ کی قبر کے ساتھ ہی ان کے والد کے علاوہ کچھ رفقاء کی قبریں ہیں۔
شاہ رکن عالمؒ جو صدرالدین کے بیٹے اور بہاالدین زکریاؒ کے پوتے تھے، کو بھی پہلے یہی دفن کیا گیا تھا، جن کے جسدخاکی کو بعد میں دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ ملتان میں پانی کی بہت قلت تھی۔ مزار کے قریب ہی ایک کنواں ہے جہاں سے پانی کی کمی پوری کی جاتی تھی۔ اب کنواں تو خشک ہوچکا مگر لوگ اس میں پیسے ڈال کر اپنی اپنے من کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مزار کے بالکل پاس ہی ایک مندر تھا۔
ایک بہت ہی قدیم مندر۔ مندر اور حضرت بہاء الدین زکریاؒ کا مزار دونوں اونچائی میں برابر تھے مگر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بدلے میں جب پاکستان کے بہت سے مندوں پر یلغار کی گئی تو یہ معصوم بھی ان حملوں کا شکار ہوگیا۔ اس مندر کی باقیات اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
1848 میں ہونے والی سکھ انگریز جنگ کے دوران Vans Agnew اور William Alexander نامی دو نوجوان برطانوی فوجی مارے گئے جنھیں پہلے ملتان کی خونی برجی کے قریب دفن کیا گیا۔ ان دونوں فوجیوں کی منفرد بات یہ تھی کہ دونوں ہی نوجوان تھے اور دونوں نے ہی بڑی بہادری سے سکھوں کا مقابلہ کیا، یہاں تک کہ دونوں نے اپنے ملک کے وقار کی خاطر اپنی جان دے دی۔
بعد میں دونوں فوجیوں کے جسدِخاکی کو نکال کر ملتان قلعے کے قریب دفن کیا گیا اور ان کی یادگار بنائی گئی۔ یہ یادگار قاسم باغ یعنی کہ شاہ رکن عالمؒ کے مزار کے پاس ہی ہے۔ اب اگر خونی برجی کا ذکر چل ہی پڑا ہے تو ملتان کی کچھ تاریخ پر بھی بات ہوجائے۔
ملتان کی تاریخ کم از کم چھے ہزار سال پرانی ہے۔ تاریخ تو اس کی اس سے بھی زیادہ پرانی ہے مگر چھے ہزار سال وہ ہیں جن میں تسلسل سے ملتان کا ذکر ملتا ہے کہ مسلسل چھے ہزار سالوں سے ملتان یہی پر ہے۔
تقریباً بارہ ہزار سال پہلے بھی ملتان تھا مگر درمیان میں یہ مٹتا بھی رہا اور آباد بھی ہوتا رہا۔ چھے ہزار سال پہلے اسے آباد کرنے کا سہرا ہندو راجا کاشی کے سر ہے۔ اسی راجاکاشی کے نام پر اس شہر کو کاشی پورہ کہا جاتا تھا۔ 327-325 قبل مسیح وہ دور تھا جو سکندراعظم نے برصغیر میں گزرا۔ اسی دور میں ایک قوم مالی تھی جو کاشی پورہ میں آباد تھی۔
استھان ظاہر سی بات ہے کسی جگہ بیٹھ جانے یا قیام کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اسے مالی استھان کہا جاتا تھا۔ یہ قوم سورج کی پوجا کرتی تھی۔ روایت ہے کہ مالی قوم کے ہاتھوں سکندر کو شکست ہونے لگی تو وہ خود اگلی صفوں میں جا کر لڑنے لگا۔ اسی دوران کسی نامعلوم سمت سے زہرآلود تیر سکندر کی ریڑھ کی ہڈی میں لگا جسے اس وقت نکال تو دیا گیا مگر زہر رفتہ رفتہ اپنا کام کرنے لگا۔
سکندر کو زخمی حالت میں دیکھ کر فوج میں جذبے اور غصے کی ایک نئی لہر جاگی اور پھر انھوں نے ایسے بے دردی سے سب انسانوں اور جانوروں کا قتلِ عام کیا کہ ہر جگہ خون سے بھرگئی۔ اسی مناسبت سے آج بھی اس جگہ کو خونی برجی کہا جاتا ہے۔
یہاں سے یونان واپس جاتے ہوئے بابل کے مقام پر جب سکندر کا انتقال ہوا تو اس کی وجہ وہی زہر تھا جو تیر کی صورت میں مالی استھان میں اس کے جسم میں اترا تھا۔ یوں تقریباً 32 سال کی عمر میں ہی پوری دنیا پر حکومت کا خواب لیے سکندر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ سکندر کے بعد چندر گپت موریا نے بھی اس علاقے کو فتح کیا۔
ہولی کا تہوار بھی ملتان سے ہی شروع ہوا۔ یہاں ایک بڑا مندر بھی تھا جہاں سالانہ میلے میں کم از کم چھے ہزار یاتری شریک ہوتے۔ مندر سونے سے بھرا ہوا تھا۔ 712ء میں محمد بن قاسم نے سندھ اور ملتان کو اسی مندر سمیت فتح کرلیا۔
اگرچہ میں نے ہمیشہ کی طرح ملتان کے بارے پہلے کافی ساری معلومات اکھٹی کی ہوئی تھیں مگر پھر یہاں ایک پروفیشنل گائیڈ کی خدمات لینا مناسب جانا کہ اگر کسی ان جان شہر میں کوئی مقامی آپ کا ہاتھ پکڑ لے تو شہرشناسی آسان ہوجاتی ہے، اور پھر مقامی بھی ایسا کہ جو باذوق بھی ہو اور اسے دوسرے انسان کی نفسیات کا بھی پتا ہو کہ دوسرے شہر سے آنے والا کیا دیکھنا چاہتا ہے، اسے جدید ملتان شہر کی رنگینیوں سے غرض ہے کہ وہ پرانے شہر کی بنیادوں کو کھنگالنا چاہتا ہے۔
ہم خوش قسمت تھے کہ ہمیں ایک ایسا ہی گائیڈ عامر بھائی کی شکل میں مل گیا۔ شاہ رکن عالم اور بہاالدین زکریاؒ کا مزار دیکھ چکنے کے بعد عامر بھائی نے ہمیں جوائن کرلیا اور پھر اس کے بعد ہم نے اپنا ہاتھ عامر بھائی کے کندھے پر رکھ دیا اور آنکھیں تقریباً بند کرلیں۔
اب عامر بھائی ہیری پوٹر ہیگرڈ بن چکے تھے جن پر ہیری بے پناہ اعتماد کرتا تھا۔ جہاں جہاں ہیگرڈ جاتا، بس وہیں وہیں ہیری پوٹر بھی آنکھیں بند کر کے چلتا جاتا۔ کچھ یہی حال ہمارا بھی تھا۔ ہمارا ہیگرڈ ہمیں ملتان کی تنگ و تاریک گلیوں میں لے گیا۔ ملتان کی تنگ گلیوں میں ہماری پہلی منزل شاہ یوسف گردیزی کا مزار تھا۔
شاہ یوسف گردیزی 1088 عیسوی میں ایران کے شہر گردیز سے ہجرت کرکے ملتان تشریف لائے۔ آپ ملتان آنے والے پہلے ولی تھے۔ ان کے ملتان آنے کا بھی عجب قصہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کے دادا بھی ولی اللہ تھے۔ ان کے ایک مرید کا بیٹا بیمار ہوگیا۔
شاہ یوسف گردیزی کے دادا کو پتا تھا کہ مرید کا بیٹا نہیں بچے گا۔ لہٰذا مرید کے بار بار اصرار پر بھی آپ نے مرید کے بیٹے کی شفا کے لیے دعا نہیں کی۔ یہاں تک کہ مرید کا بیٹا مرگیا۔ بچے کی لاش دیکھ کر باپ کی حالت غیر ہوگئی۔ شاہ یوسف گردیزی سے یہ سب دیکھا نہ گیا۔ انھوں نے مرید کے بیٹے کو زندہ کردیا۔
یہ سب دیکھ کر دادا کو جلال آگیا کہ شاہ یوسف نے قدرت کے خلاف کام کیا ہے۔ انھوں نے شاہ یوسف کو ایران سے نکل جانے کا حکم دیا اور اس طرح شاہ یوسف گردیز سے ملتان آ گئے۔ شاہ یوسف گردیزی کے ملتان میں داخل ہونے کا واقعہ اس سے بھی عجب ہے۔ ''کہتے ہیں'' کہ شاہ یوسف جب ایران میں داخل ہوئے تو وہ ایک شیر پر سوار تھے۔
ہاتھ میں ایک سانپ تھا جو عصا بنا ہوا تھا۔ شاہ یوسف گردیزی کی قبر کے پاس ہی ایک قبر بنی ہوئی ہے جس پر شیر کی شبیہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قبر اسی شیر کی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو سینہ بہ سینہ چل رہی ہیں۔ شاہ یوسف گردیزی کی اگر قبر آپ نے دیکھی ہو تو وہاں ایک طرف ایک سوراخ بنا ہے جسے گول شیشے سے بند کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار کسی عرب نے آپ کی کرامات کے بارے سنا تو خواہش کی کہ وہ ان کا مرید بن جائے۔
اس نے سفر شروع کیا مگر اس عرب کے ملتان پہنچنے سے پہلے ہی شاہ یوسف گردیزی کا انتقال ہوچکا تھا۔ وہ عرب بہت رویا۔ شاہ یوسف نے قبر سے اپنا ہاتھ باہر نکالا، اس سے بیعت لی اور اسے اپنا مرید کرلیا۔ یہ سلسلہ عرصے تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت شاہ رکن عالمؒ نے شاہ یوسف گردیزی کی قبر پر حاضری دی اور انھیں ایسا کرنے سے منع کیا۔ اس طرح قبر سے ہاتھ باہر آنے کا یہ سلسلہ یہیں رک گیا مگر قبر میں ہاتھ کی وجہ سے جو سوراخ بنا تھا، اسے صرف شیشے سے بند کیا گیا۔ یقیناً یہ سب باتیں کہانیاں ہی ہیں۔
کچھ وہ لوگ ہیں جو ان سب باتوں کو عقیدت جانتے ہیں، اپنی منتیں مرادیں لے کر ان کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ایسی باتوں کو صرف ہنسی مذاق کے طور پر لیتے ہیں مگر میرے نزدیک عقل مند صرف وہ ہیں جو خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ شاہ یوسف کا مزار بھی ملتان کے نیل سے رنگا ہوا ہے۔
انتہائی خوب صورت اور منفرد۔ صرف شاہ یوسف ہی نہیں بلکہ ملتان کے تقریباً ہر مزار، پرانی عمارات یہاں تک کہ برتنوں میں بھی آپ کو خاص ملتان کی پہچان اس کا نیل رنگ ملے گا۔ آخر ملتان سرزمینِ نیل جو ٹھہرا۔
شاہ یوسف گردیزی کے مزار سے باہر نکلے تو ہمارے عامر بھائی ہمیں اندرون ملتان کی گلیوں میں لے گئے۔ پرانی، بدبودار مگر منفرد گلیاں۔ ایسی ہی بدبودار اور تنگ گلیاں آپ کو پنجاب کے ہر پرانے شہر میں نظر آئیں گی، خواہ وہ شہر لاہور ہو، ملتان ہو، چنیوٹ ہو یا پھر میرا شہر سیالکوٹ اور وجہ ہے صرف اور صرف ہمارا بُرا نکاسی کا نظام۔ ہم پرانے گھر دیکھتے جا رہے تھے۔
کسی کے بارے کوئی خاص بات ہوتی تو عامر بھائی معلومات فراہم کرتے۔ پتا نہیں کون کون سا محلہ ہم دیکھ رہے تھے۔ کبھی ھنو کا چھجہ آ جاتا تو کبھی چوک بازار۔ کبھی عامر بھائی ہمیں لے کر چوڑی سرائے میں گھس جاتے اور پرانی عمارتیں دکھانے لگتے تو کبھی محلہ ملک مراد۔ اندھی کھوئی(بازار) واقعی ایک اندھی کھوئی ہی معلوم ہوتی تھی۔
ملتان کا صرافہ بازار بھی باقی شہروں کی طرح سونے سے لدا پڑا تھا اور پاک گیٹ پیروں و فقیروں سے۔ راستے میں دو بڑی عمارتیں ایسی بھی تھیں جن پر تقسیم سے پہلے کی تاریخ درج تھی۔ ایک کھنہ مینشن تھی جسے 1935 میں بنایا گیا تھا جب کہ ایک ملک جاؤ رام رام کا گھر تھا جسے 1940 میں بنایا گیا تھا۔
دونوں ہی عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہم ایک بازار سے گزر رہے تھے کہ عامر بھائی نے ایک بڑے مینار کی طرف توجہ دلوائی۔ یہ بہت پرانا جین مندر تھا جس میں داخلے کی سیڑھیاں اس حد تک کھڑی تھیں کہ درمیان میں ایک موٹا رسا لگایا گیا تھا تاکہ جین مندر میں آنے والے اس رسے سے سہارا لے کر جین مندر میں داخل ہوسکیں۔
پڑھنے کے حوالے سے میرے لیے ناپسندیدہ ترین موضوع ایک عرصے سے ہندوستان کی تقسیم رہا ہے کہ دکھ پڑھنے اور اسے مسلسل برداشت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ شروع میں ایسا نہیں تھا۔ پہلے پہل تاریخ اور خاص کر ہندوستان کی تاریخ اور تقسیم میرا پسندیدہ موضوع رہا مگر اب ایسا نہیں۔ شاید آپ کو یہ بات غلط لگے مگر اب واقعی اس موضوع کو پڑھنا اچھا نہیں لگتا۔ جتنا پڑھا، جیسا پڑھا، یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ہندوستان کی کوششوں سے زیادہ ہندوؤں کی ہٹ دھرمی کے باعث وجود میں آیا۔
پہلے پہل شاید قائد بھی یہی چاہتے تھے کہ برصغیر میں داخلی طور پر ایک خود مختار ریاست بنے مگر یہ ہندوؤں کی ہی ہٹ دھرمی تھی کہ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ یہ بھی ہندوؤں کی ہی چالاکی تھی کہ ایک الگ خودمختار ایسی ریاست مسلمانوں کو دی جس کا قائم رہنا اس وقت ہر ایک کو تقریباً ناممکن ہی نظر آتا تھا۔
آپ افواج سے لے کر اثاثہ جات کی تقسیم تک کا احوال دیکھ لیں۔ 1948 کی پہلی پاک بھارت جب جنگ ہوئی تو پاکستان کے پاس مکمل افواج تھیں ہی نہیں۔ نہ فوج پوری تھی، نہ اسلحہ۔ یہ بھی گلگت بلتستان اور کشمیر کے مقامی افراد کی مہربانی تھی کہ پورے کا پورا بلتستان اور کشمیر کا 17 فی صد ہماری جھولی میں ڈال دیا ورنہ ہم اس پورے خطے سے محروم رہتے۔ خیر جو ہوا سو ہوا۔ لکیر کھینچ دی گئی۔ یہاں سے لوگ وہاں چلے گئے اور وہاں سے یہاں آگئے۔ گھر تو اجڑنے ہی اجڑے، عبادت گاہیں بھی اجڑ گئیں۔ پہلے پہل لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ وقتی ہے۔
کچھ ہی ماہ بعد وہ سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے مگر یہ سب وقتی نہیں بلکہ ایک ناسور بن کر سب کو چمٹ گیا۔ ایک ایسا ناسور جس کا اب کوئی علاج نہیں۔ مجھے لگتا ہے اگر قائد اور گاندھی جی، دونوں کم از کم پانچ سال زندہ رہتے تو آج کا پاکستان بھی بہت سے رویوں کے اعتبار سے بہت مختلف ہوتا اور ہندوستان بھی۔ ایک بار کہیں گاندھی کا انٹرویو پڑھ رہا تھا۔
وہ کہہ رہے تھے کہ تقسیم کا معاملہ مکمل ہونے کے بعد وہ خود یہاں (ہندوستان) سے کچھ ہندو لاہور میں جا بسائیں گے اور وہاں سے کچھ مسلمان دلی لائیں گے، مگر دونوں ممالک کی قسمت تو دیکھیں کہ دونوں ممالک کے بڑے لیڈروں گاندھی اور جناح کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ ایک کو براہ راست گولی ماری گئی اور دوسرے کی ایمبولینس میں پیٹرول ختم ہوگیا۔
کچھ مزید آگے جائیں تو مجیب الرحمٰن کا اختتام بھی آپ کو گاندھی اور جناح جیسا ہی معلوم پڑتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی ملتان کے جین مندر کی جس میں اب ایک مدرسہ چل ہے۔ بچے اب یہاں قرآن کریم پڑھتے ہیں اور رب کی وحدانیت بیان کرتے ہیں۔ مندر پر بنی مورتیوں میں سے کچھ کی آنکھیں پھوڑ دی گئی ہیں جب کہ کچھ کی گردن کاٹ دی گئی ہے۔ مرکزی ہال کی چھت پر شیشے کا خوب صورت کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ملتان کے جین مندر کے اصل مالک اب بہت دور جا چکے ہیں۔
آپ ملتان کی تنگ و تاریک گلیوں میں سے گزرتے جائیں تو محلہ ملک مراد میں آپ کو بالکل سامنے روہتک مسجد ملے گی۔ تقسیم کے بعد روہتک مسجد وہ پہلی مسجد تھی جسے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بنایا۔ اس سے پہلے علاقے میں کوئی مسجد نہ تھی۔
روہتک مسجد سے چند قدم آگے ہی سترہویں صدی میں مغلیہ دور کا بنا ہوا شیش محل ہے جسے ملتان کے گورنر نواب علی محمد خان خاکوانی نے شاہ جہاں کے حکم پر تعمیر کروایا تھا۔ آج کا شیش محل اگرچہ کے تنگ و تاریک گلیوں میں ہے مگر یہ ہمیشہ سے تو ایسا نہ تھا۔ اگر یہ واقعی شاہ جہاں کے حکم پر بنا تھا اور ملتان کا گورنر اس میں رہائش پذیر تھا تو پھر یقیناً اس کی شان دیکھنے والی ہوگی مگر یہ شان ماضی کے تاریک پَنوں میں کہیں کھو چکی ہے۔ ملتان کا یہ شیش محل قاسم خان کی زیرِنگرانی تعمیر ہوا تھا۔
مغلیہ دربار سے منسلک لوگ جب بھی ملتان آتے تو یہیں اس شیش محل میں قیام کرتے۔ سکھ اور انگریز دور میں جب ملتان کی آبادی بڑھی اور شیش محل آبادی سے گر گیا تو کسی نے بھی اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ آج یہ ذاتی جاگیر بن چکا ہے۔ عورتیں یہاں بیٹھ کر شاپر الگ الگ کر رہی ہوتی ہیں۔ اس شیش محل کے کمرے اب بند ہیں اور کسی کو بھی ان میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اس شیش محل کے بارے میں افواہ ہے کہ یہاں شیش ناگ صاحب اپنی زوجہ ماجدہ کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔
دیکھنے والوں نے اس جوڑے کو دیکھا ہے اور اکثر یہ کسی نہ کسی کو نظر آتے رہتے ہیں۔ وہی قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص سے ملاقات بھی ہوئی جس نے شیش ناگ کے اس جوڑے کو دیکھا ہے۔ بقول اس شخص کے ان سانپوں کا نچلا حصہ تو سانپ کی طرح ہی تھا مگر دھڑ انسانی تھا۔ اب ان باتوں میں کتنی سچائی ہے اور کتنی مبالغہ آرائی، یہ اوپر والا ہی جانتا ہے۔
ملتان شہر کی تقریباً ہر گلی میں آپ کوئی نہ کوئی چھوٹا یا بڑا، مشہور یا گم نام مزار ضرور ملے گا۔ مزاروں کے علاوہ چند ایک گلیوں میں آپ کو مساجد بھی نظر آئیں گی۔ ملتان میں گھنٹاگھر کے قریب ہی تغلق روڈ کے پاس تغلق خاندان کا آباد کیا ہوا ایک علاقہ ہے جس کی تنگ گلیوں میں ساوی مسجد ہے۔ ساوی مسجد بھی ملتان کی روایتی عمارات کی طرح نیلی ہے۔
سرائیکی زبان میں نیلے اور سبز رنگ کو ساوی بھی کہا جاتا ہے، اس لیے اس مسجد کا نام بھی ساوی مسجد ہے۔ ساوی مسجد کی تعمیر کے بارے دو روایات ہیں۔
ایک یہ کہ اسے محمد بن تغلق نے 1305 عیسوی میں بنوایا تھا۔ دوسری یہ کہ اسے شاہ جہاں یا عالم گیر کے زمانے میں تعمیر کیا گیا۔ ساوی مسجد کے بارے ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ اسے عیدگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس لیے آپ کو ساوی مسجد پر کوئی چھت نظر نہیں آتا۔ نہ تو اس مسجد کا کوئی مینار ہے اور گنبد۔ وجہ وہی ہے کہ اسے بناتے وقت عید گاہ کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ آپ اگر ساوی مسجد میں جائیں تو آپ کو وہاں تین قبریں نظر آئیں گی۔
دو قبریں ایک ساتھ ہیں جب کہ ایک قبر جدا ہے۔ جو دو قبریں ایک ساتھ ہیں، ان میں سے ایک قبر ملتان کے گورنر کی ہے۔ ان دونوں قبروں کے مکینوں نے ریاست کے ساتھ غداری کی تھی جس کے جرم میں ان کی کھال کھنچوا کر انھیں مار دیا گیا۔ قبروں پر فارسی میں کچھ لکھا ہے جس میں لفظ غدار بھی نمایاں ہے۔
سزا کے طور پر قبروں پر تختیاں بھی پاؤں کی طرف لگائی گئی ہیں۔ ایک جانب ایک تیسری قبر بھی ہے جو ملتان کے قاضی سلطان کریم الدین کی ہے۔ کہتے ہیں کریم الدین نے جان بوجھ کر ایک غلط فیصلہ کیا تھا جس کی بنیاد پر بادشاہ / حکم راں وقت نے انھیں پھانسی دے دی تھی۔ ساوی مسجد کے چاروں طرف دیواروں پر نیلے اور فیروزے رنگ سے فارسی اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ آج ساوی مسجد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کہتے ہیں کہ محکمۂ آثار قدیمہ نے اس کی بحالی کے لیے فنڈز بھی جاری کیے تھے جن میں سے زیادہ تر دائیں بائیں ہوگئے۔
ساوی مسجد سے باہر نکلے تو عامر بھائی کی قیادت میں ہمارا رخ اب ملتان کی عید گاہ مسجد کی جانب تھا جو لاہور ملتان روڈ پر واقع ہے۔ اگرچہ دنیا میں بہت سے شہر آباد ہوئے، بہت سے برباد ہوئے، کچھ کو قدرتی آفات نے نیست و نابود کردیا اور کچھ زمانے کے تغیر کے ساتھ نہ چل پائے جب کہ کچھ کو دوسری اقوام نے طاقت کے نشے میں چُور ہو کر تگنی کا ناچ نچا دیا۔
ہڑپہ اور موہنجودڑو کی مثال آپ کے سامنے ہے، مگر ملتان کی قسمت ان شہروں جیسی نہ تھی۔ اس کی قسمت میں سدا آباد رہنا لکھا تھا، سو یہ آباد رہا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ملتان آج کا شہر نہیں ہے۔ جس نے بھی ملتان پر بری نظر ڈالی وہ خود ہی خاک ہوا مگر ملتان کا کوئی بال بھی بیکا نہ کرسکا خواہ وہ سکندرِاعظم جیسا سپوت ہی کیوں نہ ہو۔
ملتان کی عمارات کی بات کریں تو خواہ وہ مساجد ہوں یا صوفیاء کرام کے مزار، سب کی تعمیر، نقوش ایک سے بڑھ کر ایک ہیں مگر جس عمارت کا قد سب سے بڑا ہے وہ کم از کم میرے نزدیک ملتان کی تقریباً اڑھائی سو سال پرانی عید گاہ مسجد ہی ہے جسے ملتان کے اس وقت کے گورنر عبدالصمد نے 1735 تعمیر کروایا تھا۔ سات گنبد اور نو دروازوں کے ساتھ کھڑی یہ خوب صورت مسجد 66 کنال کے رقبے پر محیط ہے جس میں تمام دروازے دیار کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ مسجد میں کاشی گری کا کام دیکھنے کے لائق ہے۔
نیلا رنگ تو مسجد میں نمایاں ہے ہی ساتھ ساتھ دورِ جدید کی عکاسی بھی اس مسجد سے ہوتی ہے۔ مسجد کے مینار نئے ہیں اور خوش قسمتی سے مسجد کی تعمیرومرمت وقت کے ساتھ ہوتی رہتی ہے۔ مسجد ایسی خوب صورت ہے کہ اس کے ایک ایک حصے کو بار بار دیکھنے کی تمنا ہوتی ہے۔ میرا بس چلتا تو ایک پورا دن صرف اسی مسجد میں گزار دیتا۔
ملتان کی سیاحت کو آنے والے زیادہ تر سیاح سیدھا قاسم باغ کا رخ کرتے ہیں، شاہ رکن عالمؒ اور بہاالدین زکریاؒ کا مزار دیکھتے ہیں، کچھ پرانی گلیاں دیکھتے ہیں اور آخر میں شمس الدین سبزواری کا مزار دیکھ کر چلتے بنتے ہیں۔ زیادہ تر سیاح ملتان کے محلہ سورج میانی میں ایک قدیم اور خوب صورت مزار سے ناواقف ہیں۔ یہ سخی سلطان شاہ علی اکبر شمسی کا مزار ہے۔
والد کا نام سید موسیٰ ظاہر علی شمسی جب کہ والدہ کا نام بی بی فاطمہ تھا۔ آپ 880 ہجری میں ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کے ایک قصبے سیت پور میں پیدا ہوئے۔ 923 ہجری میں والد کی وفات کے بعد حکم راںِ ملتان کی دعوت پر سیت پور سے ملتان آگئے اور مستقل یہیں سکونت اختیار کی۔ آپ دسویں صدی ہجری کے آخر میں فوت ہوئے۔ مقبرے کی تعمیر سخی شاہ یحییٰ نے شروع کروائی جو کہ پندرہ سالوں میں مکمل ہوئی۔ ملتان کے ہر مزار اور قدیم عمارت کی طرح یہاں بھی نیلا رنگ نمایاں ہے۔
مقبرے کے چاروں طرف کچھ قرآنی آیات اور فارسی اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ آٹھ کونوں والا یہ مزار بے پناہ خوب صورت اور پُرکشش ہے۔ آپ جب بھی ملتان جائیں، اس مزار کی سیاحت ضرور کریں۔ فنِ تعمیر میں یہ مزار کسی بھی طور پر شاہ رکن عالمؒ کے مزار سے کم نہیں۔
اگر آپ چاہیں تو شاہ علی اکبر شمسی کے مزار کو زیادہ نمبر بھی دے سکتے ہیں۔ پاس ہی قبرستان میں ان کی والدہ کا بھی مزار ہے جو کہ عام طور پر بند ہوتا ہے۔ یہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہے۔
دن کے تقریباً اڑھائی بجے رہے تھے اور سہ پہر چار بجے کی ٹرین کی ہماری بکنگ تھی۔ نومبر کے مختصر دن ہونے کے باوجود بھی ہم نے کافی کچھ دیکھ لیا تھا۔ وقت کی کمی کو بھانپتے ہوئے عامر بھائی ہمیں سیدھا شمس الدین سبزواری کے مزار پر لے آئے۔
شمس الدین ولی سبزواری 15 شعبان 560 ہجری میں سبزوار میں پیدا ہوئے اور اسی مناسبت سے سبزواری کہلائے۔ والد کا انتقال 644 ہجری میں ہوا۔ جب سبزوار منگولوں کے حملوں کی زد میں آیا تو آپ نے اپنے ایک و عیال کے ساتھ سبزوار چھوڑا اور برصغیر کے شہر ملتان کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ کا انتقال 675 ہجری میں ہوا۔ موجودہ مقبرے کی عمارت کو 1102 ہجری میں بنایا گیا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے۔
شمس الدین چوںکہ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے انھیں شاہ شمس بھی کہا جانے لگا۔ نہ جانے کب لوگوں نے ان کے نام کے ساتھ تبریز لگانا شروع کر دیا اور اس طرح یہ شمس الدین سبزواری سے شاہ شمس تبریز بن گئے۔ شاہ شمس تبریز کا نام سن کر فوری طور پر مولانا رومی والے شاہ شمس کا نام ہی ذہن میں آتا ہے جو تبریز شہر میں پیدا ہوئے تھے جب کہ ملتان والے شاہ شمس سبزوار شہر میں پیدا ہوئے تھے۔
حیرت اور عجیب بات یہ ہے کہ شمس الدین سبزواری کے مزار کے والی انھیں مولانا رومی والا شاہ شمس ہی بتاتے ہیں۔ اس مزار کے والیوں کے مطابق یہی وہ شاہ شمس ہیں جنھوں نے مولانا رومی کو درست راستہ دکھایا تھا۔ یہی وہ شاہ شمس ہیں جنھوں نے مولانا رومی کی کتابوں کو پہلے دریا میں ڈبو دیا اور پھر باہر ایسے نکالا جیسے ان کتابوں کو پانی نے کبھی چھوا ہی نہ ہو۔ یہاں تک کہ مزار کے احاطے میں یہی ساری باتیں ایک لوہے کے بورڈ پر لکھی ہوئی ہیں اور انھیں وہی مولانا رومی والا ہی شاہ شمس کہا گیا ہے۔
یہاں ایک دل چسپ بات بھی ہے۔ مزار میں دیوار پر جو بورڈ نصب ہے جس میں شاہ شمس کو مولانا رومی والا شاہ شمس ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہاں شاہ شمس کا نام بار بار صرف شاہ شمس ہی لکھا گیا ہے۔ کہیں بھی ان کا پورا نام شمس تبریز نہیں لکھا گیا حالاںکہ وہ اپنے پورے نام کے ساتھ ہی مشہور ہیں یعنی شمس تبریز یا شمس تبریزی مگر واقعہ وہی لکھا ہوا ہے جو مولانا رومی اور شمس تبریز کا کتابوں کا مشہور ہے۔