تیزی سے پھیلتے شہر

آبادی میں غیر معمولی اضافے نے پاکستانی شہروں کو مسائل کی آماجگاہ بنا دیا


سید عاصم محمود December 18, 2023
آبادی میں غیر معمولی اضافے نے پاکستانی شہروں کو مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ۔ فوٹو : فائل

یہ نومبر1931ء کی بات ہے، مسلمانان ِ ہند کے ممتاز رہنما، علامہ محمد اقبالؒ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے یورپ گئے۔

اس موقع پر ان کی ملاقات اٹلی کے حکمران بینتو مسولینی سے ہوئی جو اپنی مملکت کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانا چاہتا تھا۔اطالوی حکمران نے علامہ صاحب سے اس ضمن میں مشورہ طلب کیا۔ آپ نے فرمایا''یورپ اپنی اخلاقی اقدار کھو بیٹھا ہے۔ اخلاقی دولت پانے کے لیے تم مشرق کی طرف دیکھو۔''

مسولینی نے اس پر کہا کہ کوئی مثال دیجیے۔ علامہ صاحب نے فرمایا:''شہروں کی آبادی حد سے زیادہ نہ بڑھنے دو۔ اگر آبادی حد سے زیادہ ہو جائے تو نیا شہر آباد کرو۔''

اطالوی حکمران نے نئے شہر بسانے کی وجہ پوچھی تو علامہ نے فرمایا :''جب ایک شہر کی آبادی بہت بڑھ جائے تو وہاں بستے لوگوں کا اخلاق زوال پذیر ہونے لگتا ہے۔

ان کی معاشی قوت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔بدترین بات یہ ہے کہ لوگوں کی اخلاقیات جاتے رہنے سے شہر میں تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں ختم ہونے لگتی ہیں۔''( اور وہ انسانوں نہیں جانوروں کا مسکن لگنے لگتا ہے۔)

علامہ اقبال نے مزید فرمایا ''یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں، ہمارے پیغمبر ﷺ نے تیرہ سو سال پہلے شہر مدینہ کے لوگوں کو نصیحت فرمائی تھی کہ جب شہر کی آبادی بڑھ جائے تووہاں مذید انسانوں کو بسانے کے بجائے نیا شہر بسا لیا جائے۔''

مسولینی ہندوستان کے عظیم فلسفی وشاعر کی باتیں سن کر کچھ عرصہ انھیں گھورتا رہا، پھر میز پر مکہ مار کر بولا ''واہ ، کتنی اعلی بات ہے۔''

سبق دوسروں نے پا لیا

یہ افسوس ناک امر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نصیحت غیروں نے اپنا لی اور مسلمان خصوصاً حکمرانانِ پاکستان نے اسے فراموش کر دیا۔

یہی وجہ ہے، آج پاکستانی شہر بدانتظامی اور حکومتی ناکامی کی منہ بولتی تصویر بن چکے۔اس خرابی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہر شہر آبادی کے لحاظ سے اتنا پھیل چکا کہ مقامی حکومت اس کے مسائل پوری طرح حل نہیں کر پاتی۔چناں چہ مسائل کے انبار نے جمع ہو کر خاص طور پہ کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی وغیرہ کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔

مثال کے طور پہ بہ لحاظ آبادی دنیا کے سب سے بڑے شہر، ٹوکیو کو لیجیے۔اس کے مرکزی شہر کی آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے۔

(شہر کے میٹروپولٹین علاقے یعنی مضافاتی علاقوںسمیت آبادی چار کروڑ سے زائد ہے) اچھے انتظام یا گڈ گورنس کے لیے مرکزی شہر کو 62 میونسپلٹیوں، 26شہروں، 23 اسپیشل وارڈوں، 5 ٹاؤنز اور 8 دیہات میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ہر حصے میں بہت موثر حکومت رائج ہے جو تمام شہری سہولتیں شہریوں کو فراہم کرنے کی ذمے دار ہے۔گویا ٹوکیو شہر124 حکومتوں یا چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں تقسیم ہے۔ اسی لیے شہر کا انتظام بہت عمدگی سے ہو جاتا ہے۔ان 124 آبادیوں میں بہ لحاظ آبادی سب سے بڑی حکومت میں صرف نو لاکھ جاپانی رہتے ہیں۔

اب پاکستان کے سب سے بڑے شہر ، کراچی کے مقامی حکومتی نظام کا جائزہ لیجیے۔شہر کو سات اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گو25ٹاؤن اور246یونین کونسلیں بھی اس تقسیم کا حصہ ہیں مگر انتظامی و عملی طور پہ انہی سات اضلاع کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے۔ اور یہی حقیقت خرابی کی جڑ ہے۔

کراچی و لاہور مسائلستان بن چکے

کراچی کی سرکاری آبادی پونے دو کروڑ ہے۔ جبکہ غیر سرکاری آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی۔گویا شہر قائد کے ہر ضلع میں بیس تا چالیس لاکھ لوگ رہ رہے ہیں۔ اعداد وشمار کی رو سے ضلع مشرقیبہ لحاظ آبادی کراچی کا سب سے بڑا ضلع ہے۔

وہاں 38 لاکھ سے زائد لوگ بستے ہیں۔ مگر اس کی غیرسرکاری آبادی بیالیس لاکھ تک ہو سکتی ہے جو حد سے زیادہ ہے۔ضلع مشرقی کے ہر ایک مربع کلومیٹر میں چھپن ہزار سے زائد انسان بستے ہیں۔

شہر قائد کے ہر ضلع میں آبادی کی کثرت کے باعث مسائل پہاڑ بن چکے۔ جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں کیونکہ صفائی کا عملہ تھوڑا ہے اور پورے ضلع کی مکمل صفائی نہیں کر پاتا۔ سیوریج سسٹم خراب ہو جائے تو عرصہ دراز تک درست نہیں ہوتا۔ پینے کا پانی عنقا ہے۔

لوگوں کو مطلوبہ تعداد میں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے اور اسپتال دستیاب نہیں، اس بنا پر انھیں دیگر اضلاع میں جانا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے سڑکوں پہ ٹریفک بہت زیادہ ہو چکا۔ہر ضلع میں ملازمتیں کم ملتی ہیں۔ لہذا لاکھوں لوگوں کے دفاتر دور دراز واقع ہیں۔ یہ امر بھی کراچی کی ٹریفک گھمبیر اور حد سے زیادہ تیزرفتار کر چکا۔

اب پاکستان کے دوسرے بڑے شہر، لاہور کو لیجیے جس کی آبادی ڈیرھ کروڑ سے بڑھ چکی۔ انتظامی طور پہ لاہور ایک ضلع ہے جس کی پانچ تحصیلیں ہیں۔

انہی تحصیلوں کے ذریعے لاہور کا انتظام کیا جاتا ہے۔مسئلہ مگر وہی کہ ہر تحصیل کی آبادی تیس تا چالیس لاکھ تک پہنچ چکی، مگر حکومتی ڈھانچے میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔سرکاری ملازمین کی تعداد ماضی سے کچھ ہی زیادہ ہوئی ہے۔لہذا ملازمین اور وسائل کی کمی کے باعث مقامی حکومتیں شہری مسائل حل نہیں کر پاتیں۔گو ان کا انتظام حکومت مختلف وجوہ کی بنا پر کراچی کی مقامی حکومتوں سے بہتر ہے۔

مقامی حکومتوں کا دائرہ ِکار کم کریں

اب کراچی و لاہور کے باسیوں کو نئے شہروں میں بسانا کٹھن مرحلہ ہے۔ لہذا وطن عزیز کے شہری مسائل اس صورت حل ہو سکتے ہیں کہ ہر شہر میں ایسی مقامی حکومت بنا ئی جائے جسے زیادہ سے زیادہ پانچ چھ لاکھ شہریوں کے مسائل حل کرنیہوں۔ اور وہ انہی کو شہری سہولتیں بھی فراہم کرے۔اسی حکومت کے دائرہ کار میں اسکول اور ہسپتال بھی تعمیر کیے جائیں۔

اپنے علاقے میں ہر حکومت کا صدر دفتر بنایا جائے جہاں شہریوں کو تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔ معنی یہ کہ اس علاقے کے لوگوں کو اپنے مسائل حل اور کام کرانے کے لیے دوسرے علاقوں میں کم سے کم جانا پڑے۔

اس انتظام حکومت کے عمدہ نتائج برآمد ہوں گے۔ شہریوں کو دور دراز علاقوں میں جانے کی اذیت سے نجات مل جائے گی۔ ان کام اپنے ہی علاقے میں جلد ہونے لگیں گے۔ یوں نہ صرف پٹرول کی بچت ہو گی بلکہ پاکستانی شہروں کا ماحول بھی صاف ہو گا جو ایندھن اور گردوغبار کی وجہ سے کافی زہریلا ہو چکا۔ یہ آلودہ فضا شہریوں کو کئی اقسام کی بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔

اسلامی طرزفکر وعمل کی اہمیت

ایک اہم بات یہ ہے کہ مقامی حکومت اپنے علاقے یا دائرہ کار میں اسلامی طرزفکر وعمل کو بھی متعارف کرائے۔ پاکستان میں مغربی تہذیب و تمدن پھیلنے سے خصوصاً مادہ پرستی پھیلتی جا رہی ہے۔ زر و زمین کی ہوس نے انسانوں کو اخلاقی اقدار سے دور کر دیا ہے۔ اب لوگ ہر جائز وناجائز طریقے سے راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں۔

بیشتر لوگ انسان کا اخلاق و کردار نہیں، اس کی امیرانہ ظاہری حالت سے مرعوب ہوتے ہیں، چاہے وہ گناہوں اور جرائم کے بل پہ بنی ہو۔اخلاقیات سے دوری نے انسانوں کو حیوانوں کی سطح پہ لا کھڑا کیا ہے۔

پاکستانی شہروں اور بستیوں میں اسلامی فکر وعمل کے فروغ کی خاطر ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے جب مدینہ میں اپنی حکومت کی بنیاد رکھی تو وہ مادی اور روحانی، دونوں خصوصیات رکھتی تھی۔ دنیاوی لحاظ سے شہریوں کو ہر ممکن سہولتیں دی گئیں۔

غریب بیت المال سے رقم اور اشیا پاتے تھے۔ شہر میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا چاہے وہ مسلم ہو، یہودی یا کافر۔کاروبار و تجارت کرنے کے بھرپور مواقع دئیے گئے۔ سرکاری ملازمین ذمے داری سے اپنے فرائض ادا کرتے تھے۔

ساتھ ساتھ شہریوں کی روحانی تعلیم وتربیت کا بندوبست بھی کیا گیا۔ نبی کریمﷺ نے یقینی بنایا کہ تمام شہری اخلاقی لحاظ سے کمال درجے تک پہنچ جائیں۔وہ جھوٹ نہ بولیں، سادگی اپنائیں اور دکھاوے سے پرہیز کریں، کوئی دوسرے کی حق تلفی نہ کرے، سبھی کو نیکی اور بدی کا فرق سمجھ آ جائے، معاملات میں عدل وانصاف سے کام لیں۔

اخراجات میں میانہ روی اختیار کریں، دوسروں پہ رحم کریں، دیانت داری سے زندگی گذاریں، غریبوں کی فلاح وبہبود پہ دل کھول کر خرچ کریں، ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کریں، کنجوسی نہ اپنائیں اور فضول خرچی بھی نہ کریں۔

نبی کریم ﷺ نے جو روحانی و اخلاقی تعلیم تربیت بہم فرمائی، اسی کا نتیجہ ہے کہ عرب مسلمانوں کے کردار و شخصیت اتنازیادہ توانا ہو گئے کہ وہ محض چند عشروں میں دنیا کی سپر پاور بن گئے۔

اور جب مسلمان اپنے اخلاقی کردار سے محروم ہوئے تو دنیاوی طور پر بھی زوال پذیر ہو گئے۔وہ اپنی کھوئی اخلاقی طاقت ابھی تک حاصل نہیں کر سکے، اسی لیے اغیار کے محکوم ہیں۔ اور اتنے زیادہ منتشر و غیر متحد کہ اسرائیل کو مسلمانان ِفلسطین پہ ظلم کرنے سے نہیں روک سکتے۔

شہری زندگی کا ایک طرّہ امتیاز یہ بن چکا کہ قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔خوراک ہو یا پانی، کپڑے ہوں یا رہائشی زمین، گھر ہو یا دفتر ، ہر جگہ اسراف و ضیائع دکھائی دیتا ہے۔ دین فطرت ہونے کے باعث اسلام نے قدرتی وسائل ضائع کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔

سورہ کہف، آیت8 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں اور جس کا مفہوم یہ ہے:''ہم نے زمین پہ تمام چیزوں کو زینت وآرائش کی حیثیت سے تخلیق فرمایا (تاکہ انسان ان سے لطف حاصل کر سکے)اور ہم زمین کے لوگوں کو آزمائیں گے کہ ان کے عمل (اس سلسلے میں )کیسے ہیں۔''

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے ممتاز فلسطینی نژاد امریکی عالم دین، اسماعیل راجعی الفاروقی اپنے ایک انگریزی مضمون''قران وسنّہ ''میں لکھتے ہیں:

'' زمین اور قدرتی وسائل کا مالک انسان نہیں اللہ تعالی ہے۔ لہذا ایک اچھے کرائے دار کی حیثیت سے انسان کواپنے آقا کی جائیداد کا بخوبی خیال رکھنا چاہیے۔

استعمال کا حق دینے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کوزمین اور قدرتی وسائل تباہ کرنے کا لائسنس مل گیا۔وہ قطعاً قدرت کا استحصال نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے یہ حق حاصل ہے کہ قدرتی توازن کو بگاڑ دے۔کرائے دار کے طور پہ انسان کا فرض ہے، جب اسے موت آئے، تو وہ اپنے آقا کو جائیداد اس کیفیت میں دے کہ وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ عمدہ و اچھے حال میں ہو۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں