ہولو کاسٹ کا افسانہ پہلا حصہ

آج اس دنیا میں کوئی ملک ایسا کم بچا ہوگا جسے اس یہودی مالی مافیا نے اپنے معاشی پنجہ استبداد میں جکڑ نہ رکھا ہو


Saad Ulllah Jaan Baraq December 18, 2023
[email protected]

دنیا تو صرف ایک ہولو کاسٹ یانسل کشی کے بارے میں جانتی ہے اوراس لیے جانتی ہے کہ یورپ اورامریکا کے ذرائع ابلاغ نے اسے بے پناہ اچھالا ہے۔

دنیا کے ذرائع ابلاغ کا چھیانوے فی صد ویسے بھی یہودیوں کے قبضے میں ہے اس لیے ہٹلر کی شکست کے بعد دنیا میں خبروں، تبصروں، فلموں، ڈراموں اور افسانوں کاایک سیلاب آیا جو ابھی تک جاری ہے اوراس میں ہٹلر پر یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے الزامات اتنے تواتر اورتسلسل سے دہرائے جاتے ہیں لیکن ہٹلر کو انسانی زمرے سے نکال کر ایک خونخوار درندے اورعفریت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔

اس میں ایک عامل شکست وفتح کابھی ہے جب کوئی شکست کھاجاتاہے تو اس کاکوئی طرف دار بھی نہیں رہتا اورسارے شاعروصورت گروافسانہ نویس مورخین اورمحققین، دانا و دانشور فاتحوں کے ساتھ ہوجاتے ہیں اورمفتوحوں میں دنیا بھرکے عیوب ڈالنے لگتے ہیں ۔ہمیں پکاپکا یقین ہے کہ اگر ہٹلر بھی فاتح ہوجاتا تو جتنے مظالم اب اس سے منسوب ہیں وہ مخالفین میں ثابت ہوجاتے اوریہاں تو ایک خاص مقصد بھی پیش نظرتھا۔

یہودیوں کو مظلوم بنا کر ان کو ایک ریاست بنواکر دنیا اورجرمنی سے تاوان جنگ وصول کرکے اسرائیلی ریاست کو پروان چڑھا کر مسلمانوں اورتیل بردار عربوں کے دل میں ایک خنجر گھسانا اوروقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق مزید گھساناگھمانا اورہلاکر دردناک بنانا۔ اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ یہودیوں کی مفروضہ نسل کشی اورہولوکاسٹ افسانے کے موجد اورمصنفین وہ تھے اورہیں جو دنیا میں ہولوکاسٹ بلکہ ہولو کاسٹوں کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔

امریکا جس نے مقامی طورپر لوگوں کا بڑے وسیع پیمانے پر ہولوکاسٹ کیاہے کرتارہاہے اوراب بھی کررہاہے ، انگریز جنہوں نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اوردنیا کے کونے کونے میں زمینوں کے اصلی اور بھومی باشندوں کامسلسل ہولو کاسٹ کیاہے۔

فرانس اوردوسرے ممالک جو افریقہ میں پوری پوری نسلوں کو مٹاچکے ہیں، مطلب یہ کہ سارے اتحادی جو ہٹلر پر ہولو کاسٹ کا الزام لگائے ہوئے ہیں، ہٹلر سے کئی گنازیادہ ہولو کاسٹ اورنسل کشی کے مجرم ہیں لیکن ان کے دل میں اگر کوئی درد اٹھا ہے تو صرف یہودیوں کے لیے ، حالاںکہ ہٹلر نے جو کچھ کیاہے وہ ہولو کاسٹ تھا ہی نہیں بلکہ خود یہودیوں کے کرتوتوں کا فطری ردعمل تھا ۔

سب سے پہلے تو یہ بات جھوٹ ہے کہ ہٹلر نے چھ لاکھ یہودیوں کو مارا ہے جب کہ غیر جانبدار مورخین کے مطابق یہودی جرمنی تو کیا پورے یورپ میں بھی اتنی تعداد میں نہیں تھے ، صحیح اعدادوشمار کے مطابق جرمنی میں ڈھائی تین لاکھ سے زیادہ یہودی تھے ہی نہیں ۔

اور اسے نسل کشی یا ہولوکاسٹ کہابھی نہیں جاسکتا ہے کہ یہودی اس سرزمین کے باشندے تھے ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک وطن کے باشندے نہیں ہیں کہ نہ تو کبھی ان کا کوئی اپنا اوراصلی وطن تھا نہ ہے بلکہ اب جو اسرائیلی مملکت یورپ اورامریکا نے اپنے خاص مقاصد کے لیے بنائی ہے یہ بھی یہودیوں کا اپنا وطن کبھی نہ تھا۔

حضرت یعقوبؑ جنھیں یہودی اپنا جداعلیٰ کہتے ہیں ، کنعان( جس میں آج فلسطین،اردن، شام کا کچھ حصہ اور مصر کے قریبی کچھ علاقے شامل ہیں) میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے۔ پھر ان کی اولاد مصر پہنچی وہاں یہ ایک قوم بنے لیکن جب مصریوں نے بھی ان کے کرتوت، سازشوں، بے ایمانیوں اورغداریوں کی بنا پر ان کاہولوکاسٹ کرناشروع کیا تو حضرت موسی ؑ نجات دہندہ بن کر انھیں مصرسے نکال لائے ،اورپھر انھوں نے اپنے نبی اورنجات دہندے کے ساتھ کیا کیا، وہ خود انھی کے نوشتوں میں موجود ہے ۔

لگ بھگ ایک ہزارسال تک دربدری کی حالت میں کبھی یہاں کبھی وہاں رہے ، صرف ایک مختصر عرصے کے لیے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی برکت سے ایک جگہ قرار پایا، اور حضرت سلیمان ؑ کے بعد پھروہی دربدری۔ کچھ ہی عرصے میں بابل کی حکومتوں نے ان کو اعمال کی سزا دے کر ہولوکاسٹ کیا تو اس کے بعد پھر ان کاکوئی بھی اپنا وطن نہیں رہا۔ اورجب کسی جگہ کسی کاوطن ہی نہ ہو تو ہولو کاسٹ کاکیا مطلب ہوا ۔

لیکن چلئیے مان لیتے ہیں کہ جرمنی اورہٹلر نے ان پر مظالم کیے تو کیوں کیے ؟ حقیقت میں تو ہٹلر عمل نہیں تھا بلکہ خود یہودیوں کے عمل بلکہ اعمال کاردعمل تھا ۔اگر غیر جانبدارانہ بات کی جائے تو جرمنی میں تو یہودی غلام نہیں سامراج تھے، یہ یہودی ہی تھے جنہوں نے دنیا کی معیشت اوراقتصاد پر قبضہ کرنے کے لیے پہلے جنگ عظیم اول برپا کی اس کے بعد یورپ اورامریکا کے سرمائے پر قبضہ کرتے چلے گئے۔

خاص طورپر جرمنی کو تو جنگ عظیم اول کے بعد اتنا مفلوج کیا کہ وہ اپنے ہی ملک میں یہودیوں کے اقتصادی غلام بن گئے ، جرمنی کی معیشت کی تباہی کااندازہ اس سے لگا ئیں کہ جرمنی کاسکہ مارک ردی کاغذ بن گیا تھا بلک یہودی سرمایہ داروں نے بنا دیاتھا وہ مارک جو کبھی دوسرے یورپی سکوں کاہم سر تھا اس سطح پر آگیا۔

افراط زرکایہ حال تھا کہ ایک وقت کا ایک فرد کا کھانا دس سے بیس کھرب میں آتا تھا ، طلبہ کے رعایتی طعام خانوں میں چالیس لاکھ مارک، دودھ کا ایک ڈھائی لاکھ مارک ، تھیٹرکا ایک ٹکٹ چالیس کروڑمارک ۔ یہ کچھ ویسی ہی صورت حال تھی جو کچھ عرصہ پہلے افغانستان کی کرنسی کی ہوئی تھی اورشاید پاکستان کاسکہ بھی اسی حالت کی طرف گامزن ہوچکاہے اوریہ یہودیوں کامعروف طریقہ واردات ہے کہ جس ملک میں بھی پہنچتے ہیں یاکوئی ملک اس کے مکارانہ اورشیطانی جال میں پھنستا ہے تو اس کی اقتصاد اورمعیشت پر قبضہ کرلیتے ہیں۔

چنانچہ آج اس دنیا میں کوئی ملک ایسا کم بچا ہوگا جسے اس یہودی مالی مافیا نے اپنے معاشی پنجہ استبداد میں جکڑ نہ رکھا ہو اوربہت سے لوگوں کو پتہ نہیں کہ اس یہودی مالی شکنجے میںجو سب سے زیادہ جکڑا ہواہے وہ امریکا ہے۔ عام طورپر کہا جاتاہے کہ ہرامریکی اپنے سر کے بالوں جتنے ڈالروں کامقروض ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں