یہ بدگمان افواہیں
بے یقینی اور بد اعتمادی کی یہی وہ کیفیت ہے جس نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں
ہر افواہ کے پس پردہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے یعنی ہر افواہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی خبر لیے ہوتی ہے، اس لیے جب افواہیں پھیلتی ہیں تو باخبر حضرات ان افواہوں کی تہہ میں چھپی خبر تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں خبروں کی حقیقت افواہوں کی تہہ میں چھپی ہوتی ہیں اور جو خبریں عوام تک پہنچانی مقصود ہوتی ہیں ان کو افواہوں کی صورت میں پھیلا دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان افواہوں کو بنیاد بنا کر قیافے لگائے جاتے ہیں۔
بھانت بھانت کے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر وہ وقت آجاتا ہے جب ان افواہوں کو پھیلانے والے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان پوشیدہ خبروں کو ظاہر کر دیتے ہیں اور یوں یہ افواہیں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی حقیقی خبروں سے پہلے افواہیں زور پکڑ جاتی ہیں اور اصل خبر ان افواہوں کے بعد پردہ پر ظہور پذیر ہوتی ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان افواہوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور عوام ان افواہوں کے زور پر بھانت بھانت کے تبصرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستانی عوام کو سب سے بڑی فکر الیکشن کے انعقاد کی ہے جس کے متعلق گزشتہ کئی ماہ سے تبصرے جاری تھے اور ایک بے یقینی کی فضاء قائم تھی، ہر محفل میں اس بات پر بحث ہوتی تھی کہ ملک میں الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔
چند روز پہلے تک یہی فضاء قائم رہی لیکن پھر ملک کی اعلیٰ عدالت نے دسمبر کی رات بھیگتے ہی الیکشن کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کٹہرے میں کھڑ کر دیا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ آج ہی الیکشن شیڈول جاری کیا جائے جس پر الیکشن کمیشن نے من و عن عملدرآمد بھی کرد یا اور راتوں رات سپریم کورٹ کے حکم پر پاکستانی عوام کو یہ اطلاع دے دی گئی کہ وہ جمع خاطر رکھیں اور آٹھ فروری کو اپنے ووٹ کے استعمال کے لیے تیار ہو جائیں۔
لیکن عوام اور اشرافیہ کی بدگمانی کا یہ عالم ہے کہ وہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات کے باوجود بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ الیکشن شاید نہ ہو سکیں۔
اس کے بارے میں جب دانشوروں کی ایک محفل میں یہی موضوع بحث تھا تو ہر ایک دانشور کے اپنے اپنے خدشات اور قیافے تھے لیکن اگر یہ دانشور کسی ایک نقطے پر متفق تھے تو وہ یہ بدگمانی تھی کہ موجودہ فیصلے سے پہلے بھی تو سپریم کورٹ نے گزشتہ مئی میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا تھا، یہی وہ خدشہ تھا جس پر تما م صاحبان علم متفق نظر آئے۔
بے یقینی اور بد اعتمادی کی یہی وہ کیفیت ہے جس نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ ملک کے سیاسی اور معاشی حالات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔
ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہو تو معاشی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور ملک ترقی کی جانب سفر کر رہا ہوتا ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ گزشتہ برس سے ہمارے سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ معاشی ترقی کا سفر منجمد ہو گیا ہے اور سرمایہ دار ملک میں سرمایہ کاری سے انکاری ہو چکا ہے۔
ان حالات میں اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے ماحول سازگار ہو رہا ہے تو اس کو دیوانے کی بڑ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ابھی تو ملکی سرمایہ کار بھی معاشی سرگرمیوں سے کنی کترا رہا ہے اور الیکشن کے بعد منتخب حکومت کا منتظر ہے کہ سیاسی حالات سلجھ اور سنبھل جائیں تو وہ اپنا سرمایہ مارکیٹ میں لے آئے ۔
نگراں حکومت میں نہ تو مقامی سرمایہ ملک میں گردش کرتا ہے اور نہ ہی غیر ملکی سرمایہ کار ادھر کا رخ کرتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشی معاملات منتخب حکومت کے ساتھ ہی طے کیے جا سکتے ہیں تا کہ سرمایہ کاری محفوظ رہے۔
بات افواہوں ، بدگمانیوں اور بد اعتمادی سے شروع کی تھی اور آج کا سچ یہی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہاں موجود ہے اور ہر محفل میں چاہے وہ پڑھے لکھوں کی محفل ہو یا کم علم لوگوں کی، امیروں کی ہو یا کم وسیلہ لوگوں کی ہر محفل میں یہ بات ضرور ہو رہی ہے کہ ملک میں معاشی حالات دگر گوں ہیں۔
عوام کی پریشانی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جن کے پاس وسائل ہیں وہ ملک سے نقل مکانی کو ترجیح دے رہے ہیں اور جو کم وسیلہ ہیں وہ روکھی سوکھی کھانے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں ۔
غریب افراد کا تو کوئی والی وارث ہی نہیں۔ وہ امید کے سہارے ہی زندہ ہیں کہ ملکی معاشی حالات بہتر ہوں گے تو ان کے غم بھی دور ہو جائیں گے لیکن پچھتر برس میں یہ شاید وہ واحد افواہ ہے جس میں سے رتی بھر بھی سچائی نہیں نکل سکی۔
زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ ان افواہوں میں سے سچ کی تلاش کرنے والے جب اپنے ارد گرد اشرافیہ کے رہن سہن اور اللے تللے دیکھتے ہیں، ہٹو بچو کی آوازیں سنتے ہیں اور پروٹوکول کی خبریں پڑھتے ہیں توان کا افواہوں پر اعتماد مزید متزلزل ہو جاتا ہے کہ کبھی ان کے بھی دلدور ہوں گے۔
بدگمانی اور مایوسی گناہ ہے مگر حقیقت کا اظہار کیا جائے تو ہماری حکمران اشرافیہ نے پاکستانی عوام کا اس بری طرح استحصال کیا ہے کہ ان کو مایوسی کے تاریک غاروں میں دھکیل دیا ہے جن سے نکلنے کے لیے ان کو اب کوئی افواہ بھی متاثر کن نہیں لگتی اور جس ریاست سے اس کی قوم مایوس ہو جائے تو اس کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ ہم اس سے پہلے بھی دسمبر کے ایک مہینے میں ہی چوٹ کھا چکے ہیں۔