ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے

احمد سلیم کا شوق تاریخی کتاب، رسائل،سیاسی پمفلٹ اور پوسٹرز وغیرہ جمع کرنے کا تھا


Dr Tauseef Ahmed Khan December 21, 2023
[email protected]

سندھی زبان کے شاعر شیخ ایاز نے مشرقی بنگال کے بنگالیوں کی حمایت میں سندھی زبان میں ایک نظم لکھی۔ احمد سلیم نے اس نظم کا پنجابی زبان میں ترجمہ کیا۔

جنرل یحییٰ خان کا دور تھا۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں سرکاری بیانیہ کے سوا کوئی خبر نظم شایع نہیں ہوسکتی تھی، احمد سلیم گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے احمد سلیم کوسزا سنائی، یوں احمد سلیم نے جیل کاٹی۔ مصنف ، شاعر، محقق اور سیاسی کارکن احمد سلیم کا انتقال ترقی پسند مزاحمتی تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

احمد سلیم 1945 میں منڈی بہاؤ الدین میں پیدا ہوئے۔ والدین نے نام محمد سلیم خواجہ رکھا مگر جب شعور کا دور شروع ہوا اور تخلیق کی دنیا سے تعلق جڑا تو پھر اپنے نام سے خاندانی نام کو خارج کردیا اور زندگی بھر اپنے خاندان کے حسب نسب کا کبھی کسی تقریر وتحریر میں ذکر نہیں کیا۔

احمد سلیم کی زندگی کے کئی پہلو تھے، وہ ابتدائی عمر میں سوشلزم کے فلسفہ سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حاصل کی، پشاور سے میٹرک کیا۔ احمد سلیم پھر کراچی آگئے اور عبداﷲ ہارون کالج میں داخلہ لیا۔ اس وقت عظیم شاعر فیض احمد فیض عبداﷲ ہارون کالج کے پرنسپل تھے، یوں احمد سلیم فیض صاحب کے قریب آگئے، وہ شاید اسی زمانہ میں کمیونسٹ پارٹی کے قریب آئے۔

احمد سلیم کوسندھی زبان میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ انھوں نے شیخ ایاز کی نظموں کا پنجابی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ انھوں نے شیخ ایاز کی معروف نظم کا ''جوسچل نے آکھیا'' کے عنوان سے ترجمہ کیا۔

احمد سلیم کو شیخ ایاز کی اس نظم کے ترجمہ پر قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنی پڑیں مگر وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے چند ادیبوں و صحافیوں حبیب جالب، عبد اﷲ ملک، حمید اختر اور آئی اے رحمن کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ ان کا نام تاریخ میں اس بناء پر یادگار رہے گا کہ پنجاب کے گنتی کے لوگ تھے جو مشرقی پاکستان میں کارروائی کی مخالفت کررہے تھے۔

احمد سلیم نے شاہ لطیف کے کلام کابھی ترجمہ کیا۔ احمد سلیم نے 80ء کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں داخلہ لیا اور فلسفہ کی تعلیم مکمل کی۔ احمد سلیم کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف وہ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میںمتحرک ہے بلکہ تحقیقی کاموں پر توجہ دی اور 50 کے قریب کتابیں تحریر کیں۔

احمد سلیم ایک زمانہ میں سوویت یونین کے قونصل خانہ کے اطلاعات کے شعبہ میںکام کرتے تھے جہاںان کے سپرد سوویت یونین سے آنے والے موادکے ترجمے شامل تھے۔ احمد سلیم نے اس زمانہ میںسوویت یونین میں تخلیق پائے جانے والے ادب اور فلم تھیٹر سے متعلق مواد کومضامین کی شکل دی اور اس وقت کے مشکل دور میں یہ مضامین پاکستانی اخبارات میں شایع ہوئے۔

مسیحی برادری کی غیر سرکاری تنظیم ادارہ امن و انصاف کے محنت کشوں کے رسالہ ''جفاکش'' کے ایڈیٹر بن گئے۔ احمد سلیم نے جفاکش کو حقیقی طور پر مزدوری کا رسالہ بنایا۔احمد سلیم کے قریبی دوست پنجابی کے ادیب توقیر چغتائی بتارہے تھے کہ ادارہ امن و انصاف کے تحت انھوں نے پاکستان میں آباد اقلیتوں کے بارے میں ایک جامع تحقیقی کتاب لکھی۔ اس کتاب میں ہر اقلیتی مذہب کی تاریخ اور اس کے پیروکاروں کی اس خطے میں آباد ہونے کے بارے میں تفصیلات درج تھیں، انھیں اس ادارہ کو چھوڑنا پڑا، وہ پہلے لاہورگئے اور پھر اسلام آباد چلے گئے۔

احمد سلیم کا شوق تاریخی کتاب، رسائل،سیاسی پمفلٹ اور پوسٹرز وغیرہ جمع کرنے کا تھا۔احمد سلیم نے اپنی لائبریری میں 1947سے اب تک شایع ہونے والے اہم اخبارات کی اہم کاپیاں محفوظ کیں۔ ان کے اس آرکائیومیں گزشتہ صدی کے شایع ہونے والے اہم اخبارات کی کاپیاں موجود ہیں،مثلاً پیسہ اخبار جس کے ایڈیٹر منشی محبوب عالم تھے گزشتہ سے پیوستہ صدی کے آخری عشرہ سے شایع ہونا شروع ہوا اور گزشتہ صدی کی تین دہائیوں تک یہ پنجاب کا مقبول اخبار تھا۔

احمد سلیم کے پاس روزنامہ ڈان ،روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور مشرق کی کاپیاں محفوظ تھیں۔ یہ اخبار گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی سے شایع ہونا شروع ہوا۔ احمد سلیم صاحب نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رسائل کو بھی اپنے پاس محفوظ رکھا۔ ارشاد راؤ اور وہاب صدیقی کی ادارت میں ہفت روزہ الفتح 1970سے شایع ہونا شروع ہوا۔

ہفت روزہ معیار معروف صحافی محمود شام اور اشرف شاد کی ادارت میں 75ء سے شایع ہونا شروع ہوا۔جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے ان رسائل پر پابندی لگادی تھی۔پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر 1954 میں پابندی لگادی گئی۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں1985میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی ختم ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی نے ایک خفیہ رسالہ ''سرخ پرچم'' 70ء کی دہائی سے شایع کرنا شروع کیا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین احمد کمال وارثی، شبیر شر، نذیر عباسی، پروفیسر جمال نقوی، سہیل سانگی اور بدر ابڑو کو گرفتار کیا۔ حراست کے دوران نذیر عباسی شہید ہوئے۔

جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں ان افراد پر غیر قانونی رسالہ ''سرخ پرچم'' شایع کرنے کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا جو جام ساقی کیس کہلایا۔ ایک زمانہ میں سرخ پرچم کی کاپی رکھنا سنگین جرم سمجھا جاتا تھا۔ احمد سلیم کمیونسٹ پارٹی سے منسلک تھے۔ انھوں نے سرخ پرچم کے تمام شماروں کو اپنے پاس محفوظ رکھا، یہ ایک انتہائی مسلسل اور خطرناک کام تھا۔

جام ساقی کیس کے ایک ملزم سینئر صحافی سہیل سانگی کا مفروضہ ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کی فائلوں میں سرخ پرچم کے اتنے شمارے موجود نہیں ہونگے جتنے احمد سلیم نے اپنی زندگی کو مشکل میں ڈال کر محفوظ رکھے۔ اس لائبریری میں ایک اندازہ کے مطابق 50 ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔ ان کتابوںمیں انگریزی، اردو،سندھی، پنجابی اور پشتو میں شایع ہونے والی کتابیں شامل ہیں۔ احمد سلیم پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی ادیبوں اور ترقی پسند حلقوں میں بھی شہرت رکھتے تھے۔

انھوں نے نامور ادیبوں امرتا پریتم ، سمریتا پاٹیل اور ستے جیت رائے وغیرہ کے تاریخی انٹرویو کیے جو مشہور ہوئے۔ احمد سلیم کی جو کتابیں بہت مشہور ہوئیں۔ ان میں مولانا حسرت موہانی کے بارے میں ایک کتاب لکھی ۔ ایک اور کتاب ٹوٹی بنتی اسمبلیاں اور سول و فوجی بیوروکریسی بہت مشہور ہوئیں۔ ان کی دیگر اہم کتابوں میں سیاست دانوں کی جبری نااہلیاں، پاکستان اور اقلیتیں، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اور پاکستان میں سیاسی قتل وغیرہ شامل ہیں۔

احمد سلیم نے اپنی کتاب ٹوٹی بنتی اسمبلیاں اور سول ملٹری بیوروکریسی میں اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان 1946 کے انتخابات والی اسمبلیوں کے نتائج کے تناظر میں قائم ہوا۔1997 کی اسمبلیاں کبھی اکیسویںصدی میں داخل ہوتی ہیں یا نہیں اس سوال کا جواب سردست مشکل ہے۔ خود اکیسویں صدی کب اور کن حالات میں طلوع ہوتی ہے۔

اس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ بہرحال یہ کتاب اس دعا کے ساتھ پیش کی گئی کہ اس میں 2002 کے الیکشن سے قبل ترمیم و اضافہ کی ضرورت پیش نہ آئے اور اکیسویں صدی کے وہ پہلے انتخابات سچ مچ حقیقی اسمبلیوں کی بنیاد رکھیں۔ احمد سلیم کی یہ دعا تو قبول نہ ہوئی مگر پنجابی کے دانش ور مشتاق صوفی کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ احمد سلیم اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ تھے۔ ہندستان کے ایک شاعر کے یہ اشعار احمد سلیم کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں:

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی

ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں