پاتال
ہمارے پاس آئین ہے مگر اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں
کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے، اس کی ترقی کی وجوہات فوراًآپ کے سامنے آشکار ہو جائیں گی۔
اس کے متضاد اگر ایک بدقسمت ملک غربت، جہالت اور بدحالی سے باہر نہیں نکل رہا تو غور کرنے سے وہ تمام بنیادی محرکات کھل کر سامنے آ جائیں گے جن کی بدولت وہ ملک ترقی کرنے سے قاصر ہے۔
یہ بالکل کوئی مشکل کام نہیں۔ غیرجذباتی اور غیرمتعصب تجزیہ آپ کی فکر ودانش کو بالکل بھٹکنے نہیں دے گا۔ شرط صرف ایک ہے کہ آپ کی فکر پر دلیل کا غلبہ ہو۔ کسی بھی طرز کا نظریہ انسانی عقل کو آکاش بیل کی طرح کھا جاتا ہے۔
بڑے سے بڑا انسان بھی اگر تعصب کی گلی میں داخل ہو جائے تو وہ ٹامک ٹوئیاں تو مار سکتا ہے مگر کامیابی یا ناکامی کے بنیادی نکات تک پہنچنا اس کے لیے ناممکن بن جاتا ہے۔ اس پورے معاملے میں ایک حددرجہ نازک مسئلہ اور بھی ہے۔ اکثر صاحب علم انسان اپنے خیالات کو ہمیشہ اصل حقیقت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا سچ ہی اصل سچ ہے۔
باقی لوگ ان کی علمی منزل سے نیچے کے افراد ہیں۔ اسے علمی تفاخر بھی کہا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے سکہ بند اہل دانش اس غرور کا شکار ہو کر جمود میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
زمینی حقائق سے حددرجہ بالا تر ہو کر انسانی معاملات کو بغیر سمجھے ہوئے اسے ٹھیک کرنے کی خام کوشش کرتے ہیں۔ مگر حددرجہ مشکل حالات اس سادہ طرزعمل سے حل نہیں ہو پاتے۔ ہمارے ملک کی پیہم بدقسمتی میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
دلیل کی بنیاد پر عرض کروں گا کہ نیشن اسٹیٹس بننے کے بعد مسلم امہ کا خاکہ حددرجہ دھندلا ہو چکا ہے۔ یہ امر بھی درست ہے کہ گفتگو کے دوران جب دلیل سے اجتناب کرنا ہو تو مسلم امہ کا نظریہ سامنے لانے کی اشد ضرورت پڑ جاتی ہے۔
مثال دے کر واضح کرنا چاہتا ہوں۔ سعودی عرب نے بیشتر مسلمان ممالک پر مبنی ایک بین الاقوامی فوج ترتیب دی ہے۔ یمن بھی ایک مسلم ملک ہے۔ وہاں کے حوثی قبائل بھی مسلمان ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سعودی شاہی فرمانروا خادمین حرمین شریفین ہیں۔
دونوں ممالک کو باہمی آویزش ختم کرکے اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ عرض کروں گا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد نیشن اسٹیٹس نے دنیا میں بنیادی تبدیلی برپا کر دی ہے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض ہے کہ پاکستان سے کسی بھی مسلم ملک جانے کے لیے ویزہ کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی مرضی سے کسی برادر اسلامی ملک کی سرحد کو عبور نہیں کر سکتے۔
نتیجہ یہ کہ ہر صحیح الدماغ ملک نے سب کچھ اپنے قومی مفاد میں کرنا ہے اور یہی سکہ رائج الوقت ہے۔ فی الحال اس سے کوئی مفر نہیں۔ اس سچ کو دہشت گرد تنظیمیں جیسے القاعدہ، تحریک طالبان، شباب ملی بالکل تسلیم نہیں کرتیں۔ وہ اپنے قبیح عمل کو پارسائی کا غلاف پہنا کر لوگوں کے سامنے رکھتی ہیں۔ مگر اب تمام صاحب فکر لوگ سمجھ چکے ہیں کہ اصل سچ کیا ہے۔
ذرا سوچئے کہ امریکا آج بین الاقوامی اقتصادی، عسکری اور سماجی طاقت کیوں ہے؟ اس ملک کا آغاز تو خانہ جنگی سے ہوا تھا اور یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں۔ 1215ء میں باغی سرداروں نے کنگ جون آف انگلینڈ کو مجبور کر دیا کہ وہ ایک سماجی اور قانونی طرز کا عام لوگوں سے ایک معاہدہ کرے۔ جس میں لوگوں کے حقوق اور کسی بھی مطلق العنان حکومت کے عوام دشمن اقدام پر قدغن لگانا تھا۔
اسے Magna Carta کا نام دیا گیا۔ اسی دستاویز کی بنیاد پر امریکا میں آزادی کی قرارداد، آئین اور بل آف رائٹس (Bill of Rights) مرتب کیا گیا۔
امریکا کے حددرجہ ذہین سیاست دانوں جیسے Benjamin Franklin ، تھامس جیفرسن نے مکمل حکومتی ڈھانچہ اسی بنیادی آئین کے مطابق ترتیب دیا۔ جزئیات میں جائے بغیر گزارش کروں گا کہ میگنا کارٹا ایک برطانوی دستاویز تھی جو کہ برطانیہ میں بھی رائج العمل ہوئی مگر امریکی سیاست دانوں نے اس بنیاد پر انسانی حقوق، گورنمنٹ اور دیگر معاملات کو مستقل طور پر اپنا لیا اور پھر آئین کو نافذ العمل کر دیا۔
امریکا اور برطانیہ کی بنیادی ترقی کی زرخیز وجہ، رول آف لاء میں پنہاں ہے۔ یعنی کوئی بھی انسان قانون سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ دوسرا اہم ترین فیصلہ یہ کیا گیا کہ چرچ اور حکومت کو علیحدہ کر دیا گیا۔ یہ معمولی اقدام ہرگز ہرگز نہیں تھا۔ قدیم زمانے سے چرچ، طاقت کا منبع تھا اور اس ترتیب کو خدائی تائید سے تشبیہ دی جاتی تھی۔
چرچ اتنا طاقتور تھا کہ اس کے پاس کسی بھی حکومت سے زیادہ وسائل اور عسکری طاقت تھی۔ اس مجموعہ کو ختم کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگی قربان کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چرچ اور حکومت دو علیحدہ علیحدہ ادارے بن گئے جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔
یہاں ایک نکتہ حددرجہ اہم ہے۔ اسی بنیاد کی بدولت مذہب کو ذاتی اخلاقیات کے حوالے سے دیکھا جانے لگا۔ اس اقدام کو ہمارے ملک میں سیکولرازم بتایا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ سیکولر ہونے کا مطلب قطعاً لادین ہونا نہیں ہے۔ مگر ہمارے ملک میں کیونکہ معاملات کو دلیل پر پرکھنے کا رواج ہے ہی نہیں لہٰذا سیکولر کا اردو مطلب ہی تبدیل کر دیا گیا۔ چرچ اور حکومت کی اس تفریق نے انسانی فکر کو بڑھاوا دیا۔
انسان نے اپنے افکار کو ہر طور پر سب کے سامنے لانا شروع کر دیا۔ وہ افکار جو پہلے دانشوروں کے ذہن میں تو تھے مگر چرچ کی طرف سے ان کو ظاہر کرنے کی سزا کم ازکم موت تھی۔ اس خوف کے ختم ہونے سے مغرب کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ساتھ ساتھ تحقیق اور جدید ترین علوم کی نمو ہونی شروع ہو گئی۔
ابتدائی ایجادات نے دنیا تبدیل کر کے رکھ ڈالی۔ بجلی، بلب، موٹرسائیکل، گاڑی، ریل، ہوائی جہاز، گھڑی، برقی پنکھا اور اس طرح کی ان گنت ایجادات نے انسان کو اتنی ساری ترقی دے ڈالی جو اس سے پہلے کسی صورت میں بھی موجود نہیں تھی۔
دو صدیوں میں برطانیہ اور امریکا نے جتنی ترقی کی ہے، وہ گزشتہ دو ہزار برسوں میں نہیں ہو پائی۔ اس پیرایہ کو جرمنی، فرانس، چین، ہندوستان، جاپان اور دیگر ممالک نے اپنا لیا اور وہ بھی بے مثال اقتصادی ترقی کے اوج ثریا پر پہنچ گئے۔
دوسری جنگ عظیم نے یورپ کو تباہ کر ڈالا مگر صرف دو دہائیوں میں تباہ شدہ ممالک معاشی دیو بن کر دنیا کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا اقتصادی طور پر طاقتور ملکوں کی ٹھوکر میں ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اپنے ملک کی طرف دیکھیں تو حددرجہ تکلیف ہوتی ہے۔
پاکستان کو برطانوی تعلیم یافتہ سیاست دانوں نے بنایا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ تقسیم ہند میں، اسلامی نظام کے متعلق بھی بھرپور طریقے سے بات کی گئی تھی۔ مگر جن سیاست دانوں نے ذاتی غرض، لالچ اور دنیاوی فائدے کو بالائے طاق رکھ کر ایک جدید ملک کی تشکیل کی تھی، انھیں دس بارہ سال کے قلیل عرصے میں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اکثر لوگ اس مقام پر مارشل لاء اور سویلین بالادستی کے جنگل میں گم ہو جاتے ہیں۔
وہ یہ نہیں پرکھ پاتے کہ صنعتی ترقی، سماجی یگانگت، مذہبی رواداری اور شدت پسندی کا خاتمہ کس دور میں ہوا تھا۔ کیا چین کی بے مثال ترقی نظر نہیں آتی۔ وہاں تو جمہوریت کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔ طالب علم جمہوریت کے ہرگز ہرگز خلاف نہیں، ہر ملک کے معروضی حالات اور اندرونی جمہوریت اپنے طرز کی ہوتی ہے۔ برطانوی جمہوریت امریکا میں نہیں چل سکتی اور پاکستان کی جمہوریت فرانس کے لیے بے کار ہے۔
کیا یہاں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ ہم ترقی کیوں نہیں کر پا رہے۔ اس کا جواب حددرجہ سادہ ہے۔ جس کلیہ پر گامزن ہو کر یو کے ایک چھوٹا سا جزیرہ ہونے کے باوجود سپرپاور بن گیا۔ جس فارمولہ پر عمل پیرا ہو کر امریکا ایک اقتصادی، عسکری اور سماجی جن بن گیا، اس کلیہ کے کسی ایک نکتہ پر بھی ہم اور ہمارے قائدین عمل پیرا ہونے کی جرأت نہیں کر پائے اور نہ ہی کر پائیں گے۔
ہمارے پاس آئین ہے مگر اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔ جن عدالتوں نے قانون کی حکمرانی قائم کروانی تھی وہ اندرونی خلفشار اور ذاتیات کی بنیاد پر مذاق بن چکی ہیں۔ جس انتظامیہ نے عوام کوآسانیاں دینی تھیں وہ ان کے لیے عقوبت گاہوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ جن ریاستی اداروں کا سیاست سے دور رہنا باعث افتخار تھا۔
وہ سیاست کو براہ راست ترتیب دے رہے ہیں۔ قیامت یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے عظیم اور انقلابی مذہب کو لفاظی، وعظ اور درس تک محدود کر دیا ہے۔
عملی طور پر ہم اپنے منظم ترین دین کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتے۔ فرسودہ روایات، غیرمنطقی رویے، غیرمعقول شدت پسندی، منافقت اور لالچ نے ایک ایسا معاشرہ ترتیب دے دیا ہے جس میں ترقی کا کسی قسم کا کوئی احتمال ہے ہی نہیں۔ ہم پاتال کی آخری تہہ میں جا چکے ہیں۔ اور کمال بات ہے کہ ہمیں اپنی بربادی پر بہت فخر ہے!