سابقہ مشرقی پاکستان اور معاشی امکانات
1960 کی دہائی میں پاکستان کا مشرقی بازو تیزی سے ترقی کر رہا تھا
گزشتہ کالم میں سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ پاکستان کے مابین تجارت کے بارے میں بھی گفتگو کی گئی تھی۔ اب بنگلہ دیش کی تجارتی ترقی کے سلسلے میں 19 دسمبر 23 کو شایع ہونے والی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔
ایک بنگلہ دیشی اخبارکے مطابق 9 ماہ کے عرصے میں یورپی یونین نے بنگلہ دیش سے 9ارب ڈالرکے صرف نٹ ویئر درآمد کیے ہیں اور یہ اعداد و شمارکل برآمدات میں سے صرف نٹ ویئر کے ہیں جوکہ جنوری سے ستمبر 23تک کے لیے تھیں۔
اب تو ہماری ماہانہ اوسط برآمدات 2 ارب ڈالر تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں اور بنگلہ دیشی برآمدات ہم سے تین گنا زائد ہوتی جا رہی ہیں۔
اب ذرا ماضی کی طرف چلتے ہیں جب دونوں حصے ایک ساتھ تھے۔ ان دنوں مغربی پاکستان سے زیادہ مالیت کی اشیا مشرقی حصے کو برآمد کی جاتی تھیں اور مغربی پاکستان میں مشرقی بازو سے کم درآمدی مالیت کے باعث یہ نسبت کبھی ایک تین اور پھر 1969 تک پہنچنے تک ایک دوکی رہ گئی۔
اس فرق کو کم کرنے کے لیے پانچ سالہ منصوبوں پر بھی کام کیا گیا اور مغربی پاکستان سے گئے ہوئے تاجر، صنعتکاروں نے بھی خوب دلچسپی لی۔ 1961 سے لے کر 1969 تک کے مشرقی حصے کی برآمدات اور مغربی پاکستان سے کی جانے والی درآمدی اعدادوشمار کو مدنظر رکھا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ مشرقی بازو بھی بدستور ترقی کر رہا تھا۔
وہاں کے گورنر اس وقت خان عبدالمنعم خان تھے۔ ان دنوں مغربی پاکستان سے بڑی مقدار میں سیمنٹ مشرقی پاکستان بھیجا جاتا تھا اور اس مقدار میں تیزی سے اضافہ اس بات کا متقاضی تھا کہ مشرقی حصے میں کافی تعمیرات کا کام ہو رہا ہے۔
مثلاً 1961 کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ مالیت کا سیمنٹ چٹاگانگ کی بندرگاہ پر 1969 میں اتارا جا رہا تھا۔ 1967 ایسا سال آ چکا تھا جب دونوں بازوؤں کے درمیان نسبت درآمد برآمد کا فرق معمولی رہ گیا تھا اور پلانرز سے لے کر کارخانہ داروں صنعتکاروں کی یہی منشا تھی کہ صنعتی اور زرعی میدان میں مشرقی بازو جلد از جلد ترقی کے مراحل طے کرے۔
اس طرح وہاں کی صنعتی ترقی اور تجارت میں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے تاجر، صنعتکاروں، کارخانہ داروں کا بڑا ہاتھ تھا۔ مغربی پاکستان کے مختلف علاقوں کی تاجر برادری قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے مختلف شہروں میں کاروبارکرتے تھے۔ ان میں خاص طور پر کلکتہ جسے آج کل کول کتہ کہا جاتا ہے قابل ذکر ہے۔
قیام پاکستان کے بعد یہ مسلمان تاجر صنعت کار اس کے علاوہ بہار اور یوپی سے تعلق رکھنے والے تاجر اور صنعتکاروں نے مشرقی حصے کا انتخاب کیا اور مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں جا کر بسے۔ وہاں کی تعمیر و ترقی، تجارت و صنعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سب سے بڑے تاجر خاندان بھی تھے جنھوں نے ترقی کرتے کرتے اپنے چھوٹے بڑے کارخانوں کے ساتھ نام کمایا۔ ان میں چند ایک کو ذاتی طور پر میں جانتا بھی ہوں۔
لاہور، کراچی میں صنعتیں قائم کرنے والے کئی گروپس جن کے ڈھاکا میں کارخانے تھے، دیانت دین گروپ کے کلیم گلو، عرفان خورشید، سہیل ظہور، چاند فاروق، شکیل صدیقی، کاشف ظہور، رضوان محمود، اسی طرح آدم جی گروپ کے بڑے بڑے کارخانے بنگلہ دیش میں تھے۔
چنیوٹی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے کارخانے وہاں قائم تھے، جن میں رحیم میٹر گروپ اور دیگر گروپ شامل ہیں۔
اسی طرح میمن برادری کے کارخانے بھی وہاں موجود تھے اور یہ تمام افراد کاروباری گروپس چھوٹی بڑی صنعتیں لگا کر کارخانے قائم کرکے بڑے بڑے تجارتی ادارے بنا کر سابقہ مشرقی پاکستان کی ترقی کے لیے دن رات کوشاں تھے لیکن دسمبر 1971 کے بعد وہاں کے پاکستان مخالف عناصر نے ان لوگوں کے کارخانے، بنگلے، تجارتی ادارے سب کچھ قبضہ کر کے ان میں سے کئی افراد کو شہید کر کے بالآخر 16دسمبر 1971 کے بعد ڈھاکا میں ترکی کے سفارتخانے اور دیگر علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کردیا۔ جہاں سے ان تمام شہریوں کو جنگی قیدی بنا کر کلکتہ اور بھارت کے کئی شہروں میں منتقل کر دیا گیا اور پھر دو سال بعد یہ رہا ہو کر اپنے وطن مغربی پاکستان پہنچے ۔
یہاں پر جو بات قابل غور ہو سکتی تھی وہ یہ کہ 1960 کی دہائی میں پاکستان کا مشرقی بازو تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ بڑی تعداد میں کارخانے بنائے جا رہے تھے اور وہاں لیبرکا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ انتہائی سستی ترین لیبر تھی، مشرقی پاکستان میں کچھ عرصہ گزارنے والے صنعتکار ملک نور محمد کا کہنا تھا کہ دو روپے دیہاڑی پر مزدور دستیاب ہو جاتا تھا۔
اس طرح وہاں پر ترقی کا عمل شروع ہوا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہونی چاہیے کہ 50 کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی کوریا جنگ کے باعث برطانیہ اور بھارت نے اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کر دی لیکن پاکستان نے سنہری ریشہ جو کہ پٹ سن کو کہا جاتا تھا اس کے بل بوتے پر اپنی کرنسی کی قدر گھٹانے سے انکار کردیا اور ان سالوں میں پاکستان کی برآمدات بہت زیادہ بڑھ گئیں جس کے باعث بیرونی تجارت موافق رہی تھی بعد میں ہمیشہ خسارہ ہی ہوا۔
یہاں پر یہ بتانا مقصود ہے کہ مشرقی خطے کی زرخیزی، وہاں کے باشندوں کی شدید محنت و مشقت کا عادی ہونا، وسائل کا بہترین استعمال، کرپشن ہوئی بھی ہوگی، تو برائے نام ہی ہو سکتا ہے کیونکہ گورنر مشرقی پاکستان خان عبدالمنعم خان کی صوبے میں گرفت مضبوط تھی۔ 1961 سے 1969 کے شماریاتی اعداد و شمار یہ واضح اعلان کر رہے ہیں کہ ہر شعبے میں ترقی ہو رہی تھی۔
1969 کے بعد سے دونوں حصوں میں ہونے والی سیاسی بدنظمی اور بالآخر 1971 کے آغاز سے مشرقی پاکستان میں سیاسی بد امنی کا شکار نہ ہوتے اور ترقی کی سمت سفر جاری رکھتے تو جلد ہی یعنی جیساکہ موجودہ صدی کی دوسری دہائی سے بنگلہ دیش نے اپنی برآمدات میں تیزی سے ترقی کی ہے دونوں حصوں کے اکٹھا رہنے پر یہ ہدف بہت پہلے 1980کی دہائی سے قبل ہی پاکستان کو حاصل ہو جاتا۔
اس طرح دونوں حصے آپس میں شیروشکر ہو کر اپنی صنعتی اور زرعی ترقی کو چار چاند لگا سکتے تھے، اگرچہ وہ کام اب بنگلہ دیش نے تن تنہا کر لیا ہے اور اپنی ترقی کے سفر کا آغاز اپنے قیام کے 40سال بعد کرتے ہوئے پچاس سال میں ہی اپنے اہداف کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
لیکن دونوں کے اکٹھے ہونے پر جو معاشی امکانات پیدا ہو سکے وہ 1990 میں ہی ایشین ٹائیگر کا ہدف عبور ہو سکتا تھا۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک بن کر اس طرح دنیا کی چوتھی بڑی آبادی والا ملک دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں گنا جا سکتا تھا۔ جس کی کل برآمدات ڈیڑھ دو سو ارب ڈالر سے زائد بھی ہو سکتی تھی۔
اب بھلا کیا ضرورت ہوتی آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی۔ لیکن پاکستانی حکام و دیگر آیندہ کے سنگ میل کی خبر نہ پا سکے اور دوسروں نے اس کی خبر پالی تھی لہٰذا اس سے قبل ہی اسے دولخت کردیا گیا۔