ہمارا رہنما
کوئی تو ایسا ہوگا جو اپنے ملک کو بچانے، سنبھالنے اور سنوارنے اور آگے بڑھ کر اس ڈوبتی کشتی کو پار لگائے گا
''میں حیرت سے ان کی شکل دیکھ رہا تھا، پچیس ہزار پیسز۔''
''جی پچیس ہزار پیسز وہ بھی ایک ہفتے میں، اگر آپ یہ آرڈر پورا کر سکتے ہیں تو بتائیے ورنہ آپ کچھ اور دیکھیے۔''
''میرے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہ تھا کہ میں وہ آرڈر کروں جو ایکسپورٹ کرنا تھا کیونکہ میں تو اپنی ساری کشتیاں جلا کر آیا تھا، اپنے شہر کو چھوڑ کر ایک دوسرے شہر۔ بہر حال میں نے حامی بھر لی اور پہلے دن تو میں نے پوری فیکٹری کا دورہ کیا۔ ماسٹر کے پاس بیٹھا اس سے پورا انٹرویو لیا۔ یہ میرے لیے ایک مشکل کام تھا لیکن میں نے سوچ رکھا تھا کہ چاہے آرڈر مکمل نہ ہو لیکن میں اپنے آپ کو آزماؤں گا۔
یہ آرڈر جتنا بڑا تھا اسے مکمل کرنے کے لیے افرادی قوت اتنی ہی کم تھی۔ اس کے لیے میں نے ایک اخبار میں اشتہار دلوایا کیونکہ اس فیکٹری میں تو اتنی مشینیں ہی نہ تھیں، بہرحال اشتہارکے مطابق صبح ہی صبح وہاں بہت سے لوگ آگئے کسی کے پاس چار تھیں تو کسی کے پاس سات، کسی کے پاس بارہ۔ میں نے سب کا انٹرویو لیا اور جن کے پاس زیادہ مشینیں تھیں ان کو وہ پیس دیے۔
پانچ، پانچ ہزار اور ان کو تنبیہہ کی کہ آپ کو یہ فوراً اتنے دنوں میں مکمل کر کے دینے ہیں۔ آپ یقین کریں وہ تو جیسے منتظر بیٹھے تھے مقررہ دنوں کے بعد اور کچھ تو پہلے ہی اپنا کام مکمل کرکے لے آئے اور جناب وہاں تو ڈھیر لگ گیا۔ ارد گرد کے لوگ بھی حیران کہ ادھر کیا ہو رہا ہے، ایک آ رہا ہے ایک جا رہا ہے۔ وہ سب دل جمعی سے لگے تھے اور اپنا کام مکمل کر کے دے رہے تھے۔
وہ پیسز (شرٹ) کچے تھے یعنی ان پر رنگ وغیرہ کچھ نہ تھا، ابھی رنگائی کا کام باقی تھا۔ میں نے اپنا سارا ورک تو کر رکھا تھا میں فلاں جگہ گیا کہ ہمیں رنگائی کرانی ہے، اس فیکٹری میں ہماری فیکٹری سے رنگائی کے لیے مال جاتا رہتا تھا، انھوں نے کہا ٹھیک ہے، آپ لے آئیں تو مال آگیا۔ اب وہ اتنا مال دیکھ کر حیران.... کیونکہ مال تو عام طور پر چند سو کا یا ہزار کا آیا کرتا تھا اور اب تو مزدا بھری تھی، اس نے پوچھا کہ یہ ہے تو میں نے کہا کہ نہیں ابھی اور ہے اور وہ حیران سا دوڑا۔
(ہنس کر) کیونکہ اسے بھی تو اسے رکھنے کے لیے جگہ چاہیے تھی۔ بہرحال رنگائی کا کام بھی ہوا، اب مسئلہ تھا پریسنگ کا اور ہمارے پاس استریاں تھیں چار۔ میں بڑا پریشان کہ چار استریوں میں یہ پچیس ہزار پیس کیسے استری ہوں گے۔ میں نے اپنا مسئلہ پیش کیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ نئی استریاں خرید لیں، بہرحال میں جا کر کوئی بارہ استریاں صبح ہی صبح خرید لایا۔
اب ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ استریاں بھی آگئیں اب استریاں کرنے والے تو ہماری فیکٹری میں کم تھے وہ کہاں سے آئیں اور جگہ کا مسئلہ کہ اتنے کپڑے استری کے لیے جگہ بھی چاہیے تو برابر میں ان کی قالین کی فیکٹری تھی اب میری رپورٹ فیکٹری کے اصل مالک کو بھی پہنچ گئی وہ دوڑا دوڑا جرمنی سے آیا وہ میرے کام سے بہت خوش تھا۔
اب آپ یہ دیکھیے کہ سب جناب استری کرنے پر لگے ہیں ادھر اُدھر سے گھروں سے خواتین کو بھی ملوا لیا اور فیکٹری کا مالک بھی جو جرمنی سے آیا تھا سب لگ گئے استری کرنے پر اور آخر کار ہمارا یہ آرڈر مکمل ہو گیا۔ اور اس کے بعد ہمیں ایک اس سے بھی بڑا آرڈر ملا۔
یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی زندگی کا ایک ورق ہے۔ ہم ناکامیوں کا، کرپشن کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن اصل نقطے کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور وہ ہے قائدانہ صلاحیت۔ ایک ایسا ہنر جو سو میں سے کسی ایک کے پاس ہوتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں میں سے چن کر کسی بڑے ادارے، صوبے یا ملک کی باگ ڈور چلانے پر معمور کیا جاتا ہے۔
یہ وہ خداداد صلاحیت ہے کہ اگر اس میں خلوص، جفاکشی اور ایمان داری کے عوامل شامل ہوں تو وہ ہیرا بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں لیڈران کی تو کوئی کمی نہیں، ہر دفتر، محلے اور گلی کوچے میں آپ کو بڑھکیں مارتے، سینہ تانتے حضرات تو نظر آتے ہی ہیں لیکن ان میں خلوص، ایمان داری اور محنت جیسے عناصر کا کوئی نشان نہیں ہوتا۔
الیکشن ایک بار پھر ہمارے بہت قریب ہیں، ہمارے پاس وقت ہے اور ساتھ میں مسائل کا انبار، وسائل کی کمی، کرپشن، اجارہ داری، تعصب پسندی، جھوٹ، چوری اور نجانے کیا کچھ رکاوٹیں ہیں جنھیں ہمیں پار نہیں کرنا بلکہ ہٹانا ہے۔ ایک چھوٹے سے آرڈر کو مکمل کرنے کے لیے جب انسان عزم و ہمت سے جڑ سکتا ہے تو ایک ملک کو متوازن صورت حال میں پہنچانیے کے لیے ایک باصلاحیت، پرعزم، ایمان دار، پرخلوص اور جفا کش لیڈر بہت اچھی طرح سے نمٹ سکتا ہے۔
یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ہم مادی وسائل کے حصول کے لیے بہت سے ناگزیر نکات کو احمقانہ انداز میں چھونے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی بنیاد مدبرانہ اور عقل و شناس اور اعلیٰ تعلیم کے مرتبے پر پہنچ کر رکھی گئی ہے۔
گویا آسمان کو زمین پر لانے کی بزدلانہ کوششیں، کیونکہ ہماری نیت اور عزائم سے باخبر صرف ایک ہی ذات ہے جو ہمارے شعور اور لاشعور تک کی پہنچ رکھتا ہے کہ ان کی زمین، ان کا آسمان اور ہمارا کیا ہے۔ ہماری احمقانہ حد تک کسی دوسری طاقت کے سامنے سر جھکانے کی کوششیں، جس سے باز رہنے میں ہی ہماری عافیت ہے۔
اس ڈیجیٹل تیز رفتار دور میں بھی قدرت اپنا عتاب نازل کرنے میں لمحہ نہیں لگاتی کہ ہماری ساری سائنس تو بس قدرت کے ایک اشارے کی منتظر ہے اور ہم احمق اپنے بڑوں کے فیصلوں پر شرمندہ ہونے کا ڈرامہ کر رہے ہیں کسی ناپسندیدہ سرکش طاقتور کو خوش کرنے کے لیے۔ سنبھلنا تو ہوگا اپنی سرکش خواہشات پر بند باندھنا ہی ہوگا۔ سادگی سے رشتہ جوڑنا ہی ہوگا۔
جب ایک عام سی کپڑے کی فیکٹری کے جنرل منیجرکی جستجو سے متاثر ہوکر اس فیکٹری کا مالک پردیس سے پلٹ کر ایک آرڈر کو مکمل کروانے کے لیے خود اپنے ملازمین کے ساتھ استری کرنے کھڑا ہو سکتا ہے تو یہاں کیا نہیں ہو سکتا۔ یہ اسی ملک پاکستان اور کراچی سے لاہور کی سچی کہانی ہے۔ کیا اس ملک کی تاریخ کوئی اہل، باصلاحیت، ایمان دار، غیور اور پڑھا لکھا لیڈر نہیں بدل سکتا۔
ہم پُر امید ہیں کیونکہ اس ملک کو آزادی کا تاج پہنانے والا لیڈر، مدبر، پڑھا لکھا، سمجھ دار اور ایمان دار رہنما قائد اعظم محمد علی جناح جنھیں قدرت کی جانب سے اتنے سیاست دانوں میں سے چن کر اس مملکت خداداد کے لیے چنا گیا تھا جن کی قائدانہ صلاحیتوں اور کیے گئے فیصلوں پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اتنی بڑی آبادی والے ملک میں کوئی تو ایسا ہوگا جو اپنے ملک کو بچانے، سنبھالنے اور سنوارنے اور آگے بڑھ کر اس ڈوبتی کشتی کو پار لگائے گا، کوئی تو ہوگا کہ ہم ناامید نہیں ہیں اور رب العزت کو مایوسی پسند نہیں۔