نیا دور کیا ہوگا
آج ملک میں بے پناہ مہنگائی ہے، غربت ہے، جہالت ہے، بے روزگاری ہے، دہشت گردی ہے، مذہبی منافرت ہے، لسانی تقسیم ہے
بڑے دنوں کے بعد کالم لکھ رہا ہوں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ اب دسمبر 2023 گزر رہا ہے اور نیا سال 2024 آ رہا ہے آخری ہفتے میں 25 دسمبر قائد اعظم محمد علی جناح کا جنم دن ہوگا اور کرسمس ڈے بھی منایا جائے گا۔
پھر نئے سال کا دن نیو ایئر ڈے بھی منایا جائے گا دسمبر میں ہی 78 برس گزار کر 79 برس میں داخل ہو چکا ہوں دیکھیں اب کتنے سال زندہ رہوں گا۔ سو میں نے سوچا کہ کچھ پرانی باتیں آپ سے شیئر کر لوں ۔ مجھے پہلے حقانی چوک کے قریب ایک اسکول حاجی سر عبداللہ ہارون میں داخل کرا دیا گیا اور چوتھی جماعت کے بعد مجھے سندھ مدرسہ میں داخل کرا دیا گیا۔
جیسے کہ عام بچہ یا عام نوجوان جس مذہب اور جس کلچر میں پیدا ہوتا ہے اسی رسم و رواج کے تحت وہ پروان چڑھتا ہے تو میں اور میرے تمام ساتھی کٹر مذہبی تھے روزہ، نماز خوب پڑھتے تھے اور لڑکپن سے جوانی کی طرف رواں دواں تھے اور بچپن اور جوانی میں انڈیا اور پاکستان کی فلمیں دیکھا کرتے تھے کبھی کبھی ابا بھی ہمیں تاج محل سینما میں فلمیں دکھانے لے جاتے تھے تو میرا رجحان فلمی دنیا اور گیت گانے کی طرف تھا اور شاعری کی جانب ہونے لگا اور میرے بچپن کے دوست اقبال بالے، غلام اللہ منگریو عرف بلو جاوید علوی اب بھی جانتے اور حیات ہیں مجھے کچھ ادب سے بھی لگاؤ تھا اس طرح میٹرک کے بعد ابا نے مجھے ریلوے الیکٹرک اسٹور میں بابو بنا دیا ادھر ملک اور خاص کر کراچی میں ریلوے اور پی آئی اے یونینز تھیں کئی کامریڈ ریلوے میں ملازمت کرتے تھے اور ایک میگزین ماہنامہ منشور نکالا کرتے تھے وہ مجھے بھی مفت دے دیا کرتے تھے۔
چین میں سرخ انقلاب آ چکا تھا اور ماؤزے تنگ کی ایک موٹی سے چھوٹی لال کتاب بھی پڑھنے کو ملتی تھی جس کو چھپ چھپا کر پڑھنے کو کہا جاتا تھا۔ خیر بات مختصر ایوب خان جنرل کی حکومت تھی اور 10 برس ہو چکے پورے ملک میں اس کے خلاف مظاہرے اور ہڑتالیں ہو رہی تھیں اکتوبر 1967 میں ریلوے میں ملک گیر ہڑتال جاری تھی 13 روز تمام ٹرینیں بند تھیں کراچی میں بھی ہڑتال تھی تین دن کے بعد ایک کامریڈ مجھے اپنے ساتھ کراچی کینٹ اسٹیشن پر لے گیا میں چونکہ شاعری کرتا تھا اور تھوڑا بہت ترقی پسند ہو گیا تھا اس دور میں امریکا نے ویت نام میں جنگ چھیڑ رکھی تھی اس جنگ میں ویت نام میں بڑا ظلم ہو رہا تھا سو اس پر میں نے امریکا کے خلاف اور ویت نامی عوام کی حمایت میں ایک نظم لکھی تھی کامریڈ سلیمان مجھے لے گئے وہ تقریریں کر کے تھک چکے تھے تو اسٹیج سے اعلان ہوا کہ ایک نوجوان منظور رضی آپ کو ایک انقلابی نظم سنائیں گے۔
میں حیران اور پریشان ہو گیا اس نظم سے نہ ریلوے یونین کا تعلق تھا اور نہ ہی ہڑتال کا خیر مجھے اسٹیج پر پہنچا دیا گیا میں نے پہلا ہی مصرعہ پڑھا تھا کہ ایک دم سرکاری اہلکار آ گئے اور مجھے پکڑ لیا اور بھی ہڑتالی ملازمین پکڑے گئے، میں لاکھ کہتا رہا کہ میرا تعلق یونین سے نہیں ہے خیر ہم تیرہ ملازمین کو فریئر تھانے میں 14 روز کے لیے بند کر دیا گیا اور پھر ایک ماہ کے لیے کراچی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔
جیل مکمل طور پر بھری ہوئی تھی اور سب ایوب خان کے خلاف تھے وہاں کئی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر بھی بند تھے مجھے انھوں نے میکسم گورکی کی ایک کتاب ماں پڑھنے کو دی جو میں نے 20 روز میں مکمل پڑھ لی اور میں بھی تھوڑا انقلابی بن گیا یہ میری 1967 میں پہلی گرفتاری تھی خیر بعد میں ایوب خان کو جانا پڑا اور یحییٰ خان کا مارشل لا آگیا۔
اس دوران ڈھاکا میں ایک طالبعلم اسد زمان کو پولیس نے گولی مار کر شہید کردیا تھا جس پر مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے پورے ملک میں ہڑتال کی کال دی ہم نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا اور پھر 1968 میں گرفتار ہو گئے مگر 15 روز بعد رہا ہو گئے مگر تمام ریلوے کے دوستوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا پاکستان پیپلز پارٹی بن چکی تھی۔
خیر مزید قصہ مختصر میرے والد نے مجھے 1969 میں دوبارہ کمرشل کلرک یعنی بکنگ کلرک بھرتی کروا دیا اور اس طرح ہم 6 ماہ کی ٹریننگ پر لاہور والٹن ٹریننگ اسکول چلے گئے۔ مقدمات چل رہے تھے جاتے جاتے یحییٰ خان نے تمام ملک بھر کے مقدمات ختم کردیے اور ہم یکم دسمبر کو والٹن سے ٹریننگ مکمل کر کے واپس کراچی آگئے اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر اس کے بنیادی رکن بن کر سیاسی کارکن ہو گئے تو پھر ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 1974 میں یو ٹرن لے کر پارٹی رہنماؤں کو ہی گرفتار کر لیا اور ہم پھر گرفتار کر لیے گئے اور ڈی پی آر کے تحت کراچی، حیدر آباد، خیرپور اور سکھر کی جیلوں میں ساڑھے آٹھ ماہ گزار کر ہائی کورٹ کی جانب سے حیدرآباد جیل سے رہائی مل سکی لیکن پھر بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔
ممتاز علی بھٹو جب وزیر ریلوے بنے تو ان سے ملاقات کرکے پھر سہ فریقی لیبر کانفرنس 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے پہلی لیبر کانفرنس اسلام آباد اور مری میں شرکت کی اور ملاقات کے بعد انھوں نے تمام مقدمات ختم کرنے اور ملازمتوں پر بحال کرنے کے فوری احکامات جاری کرکے وزیر مواصلات حکومت سندھ کو احکامات جاری کردیے۔ یوں یہ ایک لمبی داستان حیات ہے پھر کبھی اگلی قسط میں باقی حالات بیان کروں گا۔
فی الحال آج جو ملک کی صورت حال ہے اس پر کچھ بات کر لیتے ہیں۔ آج ملک میں بے پناہ مہنگائی ہے، غربت ہے، جہالت ہے، بے روزگاری ہے، دہشت گردی ہے، مذہبی منافرت ہے، لسانی تقسیم ہے، ملک میں عبوری حکومت قائم ہے اور الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت 8 فروری 2024 کو الیکشن ہو رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی پارٹیوں کا آپس میں گٹھ جوڑ جاری ہے۔
سردیوں کی لہر بڑھ رہی ہے، تعلیمی اداروں میں طلبا یونین پر پابندی ہے ریلوے سمیت کئی اداروں میں یونین پر آج بھی پابندی برقرار ہے قومی اداروں کی نج کاری کا عمل جاری ہے۔ ہمارے ایئرپورٹ، ہمارے ہائی ویز گروی رکھے جا رہے ہیں، پی آئی اے، اسٹیل ملز، بجلی اور گیس کی کمپنیاں بھی نجکاری کی زد میں ہیں، ہاؤسنگ بلڈنگز فنانس اور ویمن بینک سمیت کئی قومی ادارے برائے فروخت، بڑے اعلیٰ افسران اشرافیہ اور سینیٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں وزیروں سفیروں کی تنخواہیں اور مراعات میں بے پناہ اضافے کے ساتھ تمام چیزیں مفت دی جا رہی ہیں جن میں گیس، بجلی، علاج، ٹیلی فون، پٹرول اور شاہی پروٹوکول ابھی بھی جاری ہے جب کہ 25کروڑ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔
ہم تمام سیاسی جماعتوں سے اس سے قبل بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں اور آج بھی مطالبہ کرینگے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر حضرات اپنے اپنے انتخابی منشور میں کچلے ہوئے محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں کو اپنی اپنی پارٹیوں میں کم ازکم 15،15 سیٹیں سینیٹ، قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں دینے کا وعدہ کریں جس طرح خواتین اشرافیہ یا پھر جینڈر (ہیجڑے) اور اسپیشل افراد کو دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ ملک میں جمہوریت کے اس سفر میں ہمیں بھی شامل کیا جائے گا اور الیکشن کمیشن صاف اور شفاف الیکشن کراتے ہوئے تمام پارٹیوں کو یکساں سہولت دے گا۔